دنیا نے 7؍اپریل کو عالمی یوم صحت منا یا مگر کیا اسے کشمیر، افغانستان، شام، عراق، فلسطین، برما سمیت دنیا کے کئی خطوں میں ہزاروں کی تعداد میں مسلمان بچے، خواتین، بزرگ اور نوجوان ہسپتالوں میں دور سے تڑپتے رہے ہیں۔ شوپیاں کشمیر میں بیس کشمیریوں کو فورسز نے شہید کیا، دوسو مظاہرین اور سوگواروں کو زخمی کیا، درجنوں کو پیلٹ فائرنگ سے بینائی سے محروم کیا۔ اس کھلی جارحیت اور کشمیریوں کی منظم نسل کشی پر دنیا حسب ِعادت خاموش ہے، لیکن پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کشمیریوں کے قتل عام اور اقوام متحدہ کی خاموشی پر اپنے مجروح جذبات کا اظہار کیاکیا کہ دلی کے متعصب میڈیا نے ان کے خلاف تابڑ توڑ حملے کئے، جب کہ بھارتی کرکٹرز کااپنی فوج کے حق میںجوش وجذبے کا اظہار قابل فہم ہے لیکن شاہد آفریدی کے خلاف الفاظ کی جنگ چھیڑنا کوئی اچھی بات نہیں ۔ ان کرکٹرز نے کشمیر میںفورسز کے آوپریشنز کو جائز قرار دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ بہر صورت کچھ عرصہ پہلے شوپیان میں چار نہتے کشمیری نوجوانوں کو قتل کرنے کے الزام میں جب آر آر کے میجر آدتیہ کے خلاف متعلقہ پولیس تھانے میںایف آئی آر درج ہوئی تو دلی اپنے سیاسی حلیف پی ڈی پی کے خلاف سیخ پاہو گئی ، رہی سہی کسر عدل کے ایوان نے نکالی ۔ اصل یہ ہے کہ کشمیر میں نافذافسپا فورسز کو غیر معمولی اختیارات دیتا ہے جو ناقدین کی نظر میں انہیں نہتے اور معصوم شہریوں تک سے جو مرضی وہ کر گزرنے کی کھلی چھوٹ دیتا ہے، جب کہ فورسز کو اپنے اختیارات کے استعمال میں قانونی تحفظ دیا گیا ہے۔ اس وجہ سے جنگی جرائم اور قتل عام میں ملوث وردی وپوشوں کے خلاف کھلی عدالت میں مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔ داد دیجئے اُس انوکھی جمہوریت کو جو آدمیت کو کچلنے اور حقوق البشر کو لتاڑنے کوجائز قرار دے۔ شوپیان کشمیر میںتیراں عسکریت پسندوں ، چار عام شہریوں اور تین فوجی اہلکاروں کی ہلاکت اور کنگن میں ایک نوجوان کے پولیس کے ہاتھوں قتل عمدپر انسانیت ماتم کناں تھی کہ افغانستان کے صوبے قندوذ میں ایک مدرسے پر جارحانہ بمباری سے پلک جھپکتے ہی ایک سو سے زائد معصوم حفاظ قرآن کی شہادت کی خبریں دنیا بھر میں دوھ مچاگئیں۔ قندوذ چونکہ طالبان کے زیر قبضہ صوبہ ہے،اس لئے طالبان نے صحافیوں کے ایک گروپ سے اس بمباری کا حال احوال جاننے کے لئے فوراً قندوذ کا دورہ کرایا تاکہ دنیا کو امریکہ کی اصلیت کا پتہ چلے۔ گروپ کو جائے وقوعہ دشت ارچی لے جا کر دفتنی گائوں لے جایا گیا۔ یہیں کم نصیب مدرسہ پر بمباری کی گئی تھی۔یہاں تمام عمارتیں زمین بوس ہیں اور مقامی لوگوں کے مطابق حقائق حکومتی دعوئوں کے بالکل برعکس ہیں۔ فضائی حملے کے وقت دارالعلوم ہاشمیہ عمریہ میں زیر تعلیم حفاظ قرآن حکیم کی دستار بندی کی تقریب ہو رہی تھی۔ تقریب میں تقریباًدو ہزار افراد شامل تھے۔ یہ گریجویشن ڈے کی عام تقریب تھی۔ علماء کرام بغلان، سمنگان، کابل سے یہاں آئے تھے اور تمام لوگ غیر مسلح شہری تھے۔ آناًفاناً ائرفورس کے دو ہیلی کاپٹروں نے مدرسے پرکئی میزائل داغ دیئے۔ ایک میزائل اجتماع کے عقب میں گرا جہاں بچے موجود تھے، دوسرا میزائل مدرسے کی دیوار پر لگا، تیسرا ایک شہری کے گھر پر آ گرا۔، جب کہ چوتھا ایک گھر کی چھت پر لگا۔ ان میزائلوں کی زد میں آ کر ایک سو سے زائد شرکائے اجتماع موقع پر شہید اور ڈیرھ سو زخمی ہوئے۔ خدشہ یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ شہادتوں کی تعداد زیادہ ہو سکتی ہے۔ ہیلی کاپٹروں نے میزائل حملوں کے بعد دس منٹ تک فائرنگ بھی کی۔ صحافیوں نے مدرسے کی جگہ پھٹے جوتے، ٹوپیاں، دستاریں اور خون دیکھا۔ اگر چہ یہ علاقہ طالبان کے کنٹرول میں ہے مگر حملے کے وقت یہاں سویلین تھے۔ افغان حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ مارے جانے والے طالبان جنگجو تھے۔ افغان صدر اشرف غنی نے انکوائری کا حکم بھی دیا ۔ یہ علاقہ تاجکستان سرحد پر واقع ہے۔ افغان وزارتِ دفاع کے ترجمان جنرل محمد ردمانش نے مارے جانے والے معصوم حفاظ کو زبان کے چٹخارے میں طالبان قرار دیامگر اسی علاقے کے سینیٹر عبد اللہ قرلوک کا کہنا ہے کہ طالبان نہیں بلکہ مدرسے پر حملہ کیا گیا۔ سینیٹر نے اعتراف کیاکہ فضائی حملے میں ۲۰۰؍ سوئیلین مارے گئے ہیں ۔ امریکی، ناٹو یا ان کی سرپرستی میں افغان فورسز مدرسوں، ہسپتالوں، سکولوں، مساجد اور شہری آبادیوں کو دہشت گردی خلاف جنگ کی آڑ میں اس طرح کے حملے کر تے رہے ہیں مگر ہر بار حملہ آوروں کا ہی دفاع کیا گیا ۔ پاکستان میں افغان سفیر عمر ذخیل ول بھی قندوز سانحہ کی مذمت کرچکا ہے۔ واضح رہے کہ قبل ازیں قندوذ شہر میں اسی طرح کا حملہ امریکی اے سی 130گن شپ نے کیا تھا۔ مثلاً 2015اکتوبر میں ڈاکٹرز ود اوٹ باڈرز کے ہسپتال پر بمباری کی اور 30نہتے افراد کو شہید کر دیا، جن میں ڈاکٹراور مریض دونوں شامل تھے۔ امریکہ ان دلدوزسانحات کو کبھی اپنے جنگی جرائم تسلیم نہیں کرتا۔ ایک ماہ قبل 31جنوری کو امریکی جنگی طیاروں نے قندھار میں آپریشن کے دوران بمباری کی اور 20شہریوں کو شہید کر دیا گیا۔ اس کی تصدیق ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں بھی کی گئی مگر امریکہ انہیں شہری ہلاکتیں تسلیم نہیں کرتا۔ کشمیر اور افغانستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں مسلمان سرکاری دہشت گردی کا شکار بن رہے ہیں۔ غزہ میں اسرائیل نے تازہ حملوں میں سولہ محصورین کو قبروں میں اُتاار، برما میںاراکانی مسلمان نشانۂ عداوت بن رہے ہیں ، شام میں انسانیت ماتم کناں ہے اورسری لنکا میں مسلمان کھلے عام مارے جارہے ہیں ۔ افسوس ناک حقیقت یہی ہے کہ ایک منظم انداز میں دنیا بھر کے مسلمانوں کے خلاف عالم ِکفر باہمی تعاون کر رہا ہے مگر مسلمان ہیں کہ فرقوں اور مسلکوں یا ذات قبیلوں میں منقسم ہیں۔ اگر مسلم اُمہ اب بھی نہ جاگی تو یہ قتل عام خدانخواستہ اور تیز ہو سکتا ہے۔