کشمیر سینٹر فار سوشل اینڈ ڈیولپمنٹل سٹیڈیز کی گول میز کانفرنس

Kashmir Uzma News Desk
7 Min Read
سرینگر//کشمیر سینٹر فار سوشل اینڈ ڈیولپمنٹل سٹیڈیز کی جانب سے ’’دفعہ35A  پر عدالتی حملے کے نتائج اور ہماری شناخت‘‘ کے موضوع پر منعقد کی گئی گول میز کانفرنس میں تمام سول سوسائٹی ممبران نے سپریم کورٹ میں کیس کی پیروی کیلئے کشمیر سے وکلا کی ٹیم بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ گول میز کانفرنس میں سول سو سائٹی ممبران نے ا قوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کو مداخلت کی اپیل، یو این ممبران کو خط کے ذریعے آگاہ کرنا، لال چوک میں احتجاجی دھرنا، عوامی بیداری مہم چلانے، کیس کی پیروی کیلئے وکلاکی ٹیم بھیجنے اوربھارتی سول سو سائٹی سے رابطہ، ائمہ مساجد سے لوگوں کو آگاہ کرنے کی اپیل اور سیاسی رہنمائوں کی آگاہی کیلئے ٹیم تشکیل دینے پر اتفاق کرلیا ہے۔ریاست جموں و کشمیر کے مختلف قوانین کو تحفظ فراہم کرنے والے دفعہ 35اے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ  کے نتائج پر جمعہ کو سرینگر کے ایک مقامی ہوٹل میں سول سو سائٹی گروپ کشمیر سینٹر فار سوشل اینڈ ڈیولپمنٹل سٹیڈیز  نے گول میز کانفرنس کا اہتمام کیا جس میں دفعہ 35اے کو  عدالت عالیہ میں چیلنج کرنے کے بعد پیدا ہوئی صورتحال پر غور و خوض کیا گیا ۔ گول میز کانفرنس میں صدارت کے فرائض معروف قانون دان ظفر شاہ اور پروفیسر حمیدہ نعیم نے انجام دیئے جبکہ کانفرنس میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے حصہ لیا جن میں پروفیسر نثار علی، ماہر قانون اور کشمیر یونیورسٹی میں شعبہ لاء کے پروفیسر شیخ شوکت،  ایڈوکیٹ جی ایم شاہین ، محمد شفیع پنڈت، ظریف احمد ظریف ،  خرم پرویز ، جی آر صوفی،صحافی گوہر گیلانی ، رائزنگ کشمیر کے مدیر اعلیٰ شجاعت بخاری، مبین شاہ کے علاوہ دیگر سول سو سائٹی ممبران نے حصہ لیا۔ اس موقعے پر اپنے صدارتی خطے میں ماہر قانون ظفر شاہ نے 35اے کو ہٹانے سے جموں و کشمیر پر مرتب ہونے والے اثرات اور قانونی پیچیدگیوں پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ ایڈوکیٹ ظفر شاہ نے کہا کہ اگر کشمیری عوام نے دفعہ 35اے کی حفاظت کیلئے کیس نہیں لڑا تو یہ کشمیری عوام کو کئی مشکلات میں ڈال سکتا ہے۔ ایڈوکیٹ ظفر شاہ نے کہا کہ ہمیں معلوم نہیں ہے کہ ہم یہ کیس جیت سکتے ہیں یا نہیں تاہم ہمیں کشمیری عوام کی جانب سے بھارتی سپریم کورٹ میں کیس کی پیروی  لازمی بن گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں 35اے کے دفعہ میں اپنی پوری طاقت نہیں لگائی تو یہ ریاست جموں و کشمیر کے تینوں صوبوں کو اثر انداز کرے گا۔ ایڈوکیٹ ظفر شاہ نے بتایا کہ کشمیر عوام کے پاس کیس میں بطور فریق شامل ہونے کیلئے صرف 7دن بچے ہیں اور اس لئے سول سو سائٹی کو تیزی سے کام کرنا ہوگا ۔ گول میز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کشمیر یونیوسٹی میں شعبہ لاء کے پروفیسر شیخ شوکت نے کہا کہ موجودہ مرکزی سرکار کی دو پالیسیاں ہیں، ایک نرم اور ایک پالیسی وہ  بی جے پی اپنے کارکنوں کے ذریعے چلاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نرم پالیسی بین الاقوامی برادری اور دوست ممالک کو دکھانے کیلئے ہے  جبکہ دوسری پالیسی وہ جو آر آر ایس اپنے غنڈوں اور کارکنوں کے ذریعے چلاتی ہے جو بھارتی مسلمانوں اور کشمیری عوام کے مخالف ہیں۔  انہوں نے کہا کہ دفعہ 35اے کو اسوقت صرف علیحدگی پسندلیڈران اور وہ نوجوان بچا سکتے ہیں جن کو ہم سخت گیر کہتے ہیں کیونکہ یہ نوجوان سڑکوں پر آنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ پروفیسر شیخ شوکت نے کہا کہ کشمیر کی اس نوجوان نسل کو دفعہ 35اے کے بارے میں جانکاری دینا لازمی بن گیا ہے اور اسلئے طلبہ ، اساتذہ  انجمنوں کو بھی اس مہم میں شامل کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت میں کیس کی پیروی ہونی چاہئے اور اس کے علاوہ لوگوں کو دفعہ 35اے کی جانکاری دینا بھی لازمی ہے۔ اس موقعہ پر ایڈوکیٹ جی این شاہین نے کہا کہ ہمیں علیحدگی پسند لیڈران کے علاوہ مین سٹریم لیڈران چاہئے وہ پی ڈی پی ہو یا نیشنل کانفرنس ہو، کو بھی اعتماد میں لینا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ان جماعتوں نے لوگوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ دفعہ 370کو کچھ نہیں ہونے دیں گے اور یہ انکی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ دفعہ 35اے کا دفاع کرے۔ کانفرنس میں کئی سول سو سائٹی ممبران نے تقریر کرتے ہوئے آرٹیکل 35اے کو بچانے کیلئے اپنی بھر پور حمایت دینے کااعلان کیا ۔ گول میز کانفرنس میں مبین شاہ ، پروفیسر حمیدہ نعیم پروفیسر نثار علی اور وادی کے مختلف علاقوں سے آئے اور مختلف تجارتی انجمنوں سے تعلق رکھنے والے نمائندوں نے تقریر یںکیں۔ گول میز کانفرنس کے بعد ایک مسودہ منظور کیا گیا  جس میں اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل، سیکورٹی کونسل کے ممبران اور او آئی سی ممبران کو خط لکھ کر مداخلت کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔ کانفرنس میں پاس کئے گئے مسودے میں کہا گیا ہے کہ  عدالت عالیہ میں کشمیری عوام کی طرف سے کیس کی پیروی کیلئے ایک ٹیم تشکیل دی جائے گی جبکہ سرینگر کے لال چوک میں ایک احتجاجی دھرنا بھی دیا جائے گا جس کی تاریخ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔گول میز کانفرنس میں بھارت کے مختلف سول سو سائٹی گروپوں سے رابطہ کرنے بات کئی گئی ہے ۔ گول میز کانفرنس میں پاس کئے گئے مسودے میں مساجد کے ائمہ، مندروں کے پجاریوں اور دیگر مذہبی علماء سے لوگوں کو دفعہ 35اے کے بارے میں جانکاری دینے کی درخواست کی جائے گی۔ مسودے میں علیحدگی پسند لیڈران اور مین سٹریم لیڈران کو کیس کی نوعیت کے بارے میں جانکاری دینے کیلئے بھی سول سو سائٹی گروپ کے ممبران کی ٹیم تشکیل دی گئی جو سیاسی لیڈران کو وقفے وقفے سے آگاہ کرتی رہے گی۔  
 
Share This Article
Leave a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *