حال ہی میں حکمران جماعت پی ڈی پی کے ایک سینئر لیڈر اور وزیر خزانہ حسیب درابونے دلی میں منعقدہ ایک تقریب میں مختلف سفارت کاروں اور اہم شخصیات کے سامنے کشمیر کے موضوع پر اپنی تقریر میں بڑی بے تکلفی سے کہا :’’ ریاست جموں و کشمیر کوئی سیاسی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس مسئلے کو سوشل اور سماجی اعتبار سے دیکھا جانا چاہیے۔‘‘ ظاہر ہے اس گفتنی کے کثیرا لمعنی سیاسی مفہومات اور مضمرات کے پیش نظر ریاست کی سیاسی گلیاروں میں ہنگامہ برپا ہوا، ایک زوردار بحث چھڑ گئی، جب کہ عام لوگ اس ’’نئے انکشاف‘‘ پر ورطہ ٔ حیرت میں پڑگئے۔ کشمیرمیںحریت کانفرنس کے علاوہ عوامی حلقے درابو کے اس گفتار پرسخت نالاں اور برہم دکھائی دئے۔ اسی پس منظر میںفاضل مُقرر کی جماعت پی ڈی پی پر انگلیاں اٹھنے لگیںتوپارٹی کے نائب صدر سرتاج مدنی نے ڈمیج کنٹرول کے زاویۂ نگاہ سے سابق وزیر خزانہ سے اس بیان کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ۔ حسیب درابو نے ایسا نہ کیا یا اُنہیں اپنے دفاع کی مہلت ہی نہ ملی کہ پارٹی نے فوراًسے پیش تر ’’سزا‘‘کے طور انہیں اگلے روز وزارتی کونسل سے باہر کردیا ۔ اس تنازعے کی آڑ میں اپوزیشن نیشنل کانفرنس نے بہتی کنگا میں ہاتھ دھونے کا موقع ضائع کئے بغیر اپنے چوٹوں کے تیر وتفنگ پی ڈی پی کی جانب موڑ دئے ۔ این سی نے حسیب درابوکے متنازعہ بیان کو پی ڈی پی کے اپنے سیاسی مؤقف سے دستبردار ہونے سے تعبیر کیا ۔ اُدھر’’ قطبین کے اتحاد‘‘کے معمارحسیب درابو کووزارت سے بے دخل کر نے کے بعد یہ خبریں بھی گشت کرتی رہیں کہ موصوف کو پی ڈی پی سے نکال باہر کیا جارہاہے لیکن یہ تادم تحریر محض قیاس آرائیاں تھیں۔ اب معزول وزیرخزانہ نے وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کی قیادت میں اپنے حلقہ ٔا نتخاب راجپورہ کے لئے کام کر نے کا اعلان کر کے گویا اشارہ دیاہے کہ وہ پارٹی کے برابر وفادار ہیںاور انہیں کسی سے کوئی گلہ نہیں ۔
حسیب درابو کی پیداکردہ اس پوری کنٹرورسی نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے، سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا واقعی جموں کشمیر کوئی سیاسی مسئلہ نہیں ہے؟ کیا یہاں سماجی سطح کی محرومیوں کے نتیجہ میں عوامی سطح پر اضطراب پایاجاتا ہے؟دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ کیا واقعی محبوبہ مفتی والی پی ڈی پی سرکار اس قدر حساس ہوچکی ہے کہ اُن سے کشمیر کی متنازعہ حیثیت پر انگلی اُٹھانے کی معمولی کوشش بھی برادشت نہیں ہوتی ہے؟ کیانیشنل کانفرنس کے علاوہ دیگر ہندنواز جماعتوں اور سیاست دانوں کا ردعمل اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ یہ جماعتیں اور لیڈران کشمیر کی متنازعہ حیثیت اور اس کے حل کے تئیں اس قدرمخلص اور پُر جوش ہیں کہ اُنہیں سابق وزیر خزانہ کے بیان نے آپے سے باہر کردیا ؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات تلاشنا اس لیے لازمی ہے کیونکہ اس طرح کے معمولی نوعیت کے واقعات عام انسان کو الجھن میں ڈال دیتے ہیںکہ بے چارے طے ہی نہیں کرپاتے کہ اس نوع کے سیاسی خر خچے میں کیا صحیح ہے اور کیا غلط؟ کس کے بیان پر اعتبار کیا جائے اور کس کی باتیں چاپلوسی اور ابن الوقتی کے نمونے مان لی جائیں ؟ ہمارے یہاں تاریخ کا المیہ یہی رہا ہے کہ یہاں عوامی جذبات اور اُن کے احساسات کو دیکھ کرسیاسی سوداگروں نے ہمیشہ لوگوں کا جذباتی استحصال کیا، انہیں کبھی سبز رومالیں ، کبھی پاکستانی نمک ، کبھی گریٹر اٹونامی، کبھی ہیلنگ ٹچ، کبھی باعزت امن جیسے سبز باغ دکھا دکھاکر صریح دھوکہ دئے جاتے رہے ۔ اس الم ناک تاریخ کی تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ظاہراً عوامی سوچ اور جذبات کی ہم نوائی کرکے ہی یہاں خود غرض لوگ حصول اقتدار کے لئے دلی مخالف اور کشمیر حامی کیمپ میں ہونے کا سوانگ کر تے رہے ، یہ لوگوںکو یقین دلاتے رہے کہ آپ کے جذبات کی ہم ہی ترجمانی کرتے ہیں حالانکہ بباطن وہ جس کیمپ سے منسلک ہوتے ہیں ، اس کا کام ہی بزور بازو عوامی جذبات کچلنا اور اُن کے ارمانوں کا گلا گھونٹ دینا ہوتاہے ۔ اس لئے collobrator کی حیثیت سے ان ’’اپنوں‘‘ کی سیاست کا ری کا بنیادی مقصد ومحور ہی اقتدار کا تحت وتاج اور مسئلہ کشمیر کے حل کو بعیداز امکان بنانا ہوتا ہے۔ چنانچہ کرسی پر بیٹھتے ہی یہ حضرات اپنے ہی لوگوں کو ۲۰۰۸، ۲۰۰۹، ۲۰۱۰اور ۲۰۱۶ء کی سوغاتیں دے کر ان کے اَرمانوں پر طاقت کے بل پر پانی پھیر دیتے ہیں ۔ اس قماش کے لوگوں کی سیاست کا بنیادی نقطہ یہی قتل وغارت قرارپاتاہے اور اگر وہ بالفرض اپنی اس کام سے ذرہ برابر بھی انحراف کریں تو اُنہیں ’’ہند نوازخیمے‘‘ سے نکال کر پھینک دیا جاتاہے۔
جہاں تک کشمیرکے سیاسی مسئلہ نہ ہونے کا سوال ہے تو ایسی بات تاریخ سے نابلد لوگ ہی کرسکتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت کی گواہی اقوام متحدہ کی وہ قرار دادیں ہیں جو وقت وقت پر وہاں ہندوستانی اور پاکستانی لیڈران کی پہل پر منظور ہوئیں۔ تاشقند، شملہ اور لاہور کے وہ معاہدے کشمیر کے سیاسی اور متنازعہ مسئلہ ہونے کی گواہی دے رہے ہیں جن کی نفی بھارت کی حکومتیں بھی کبھی نہیں کرسکی ہیں۔مسئلہ کشمیر متنازعہ اور سیاسی نہیں ہوتا تو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تین خون ریز جنگیں نہیں ہوتیں،آج بھی کنٹرول لائن اورسرحد پر دونوں ممالک کی فوجیں حالت جنگ میں نہیں ہوتیں، دونوں جانب کی سرحدی آبادیوں پر بم اور بارود نہیں برسائے جاتے۔حسیب درابو اور اُن کی جیسی ’’ماہرانہ سوچ‘‘ کے حاملین دیگر لوگوں کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ سماجی یا سوشل مسائل سے نپٹنے کے لیے کسی چھوٹے سے خطہ میں دس لاکھ فوج 1:15 کی شرح کے ساتھ جمع نہیں کی جاتی ہے۔سول آبادی کو مسلسل یرغمال نہیں بنایا جاتا۔ اگر کشمیر واقعی سماجی مسئلہ ہوتا تو یہ اُسی وقت حل ہوگیا ہوتا جب شیخ محمد عبداللہ نے چک دارانہ نظام ختم کرکے غریب عوام کو زمینوں کے مالکانہ حقوق سونپ دئے تھے،یا پھر یہ بخشی غلام محمد کے دور میں حل ہوچکا ہوتا جب اُنہوں نے کھانے پینے کی چیزوں بالخصوص چاول پر خصوصی رعاتیں دے کر عوام کو لبھانے کی کوشش کی، پھر تو یہ وی پی سنگھ، نرسہما راؤ، اندر کمار گجرال، اٹل بہاری واجپائی اور من موہن سنگھ کے ادوار میں حل ہوچکا ہوتا جنہوں نے یہاں کی جدوجہد پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے بیش بہا مالی پیکیج اور ترقیاتی اسکیموں کے ذریعے کشمیری عوام کے دلوں سے اُن کے فطری جذبات ختم کرنے کی کوششیں کی اورsky is the limit کی لوری سنائی۔ اگر ایسا ہوتا تو ڈاکٹر منموہن سنگھ کو کشمیر پر آٹھ ورکنگ گروپ تشکیل دینے اور گول میز کا نفرنسیں منعقدکرانے کا جنجال نہیں اُٹھانا پڑتا، پھر مفتی محمد سعید کو نریندر مودی سے سری نگر کے جلسے میں اعلانیہ یہ سجھاؤ نہ دینا پڑتا کہ دلی کو پاکستان کے ساتھ گفت وشنید کرنی چاہیے جسے موخرالذکر نے بڑی ترشی اور سختی سے برسرموقع ردکیا ، اور اگر کشمیر سماجی مسئلہ ہوتا تو حسیب درابو کی طرح درجنوں سیاست دان وفاداریاں تبدیل کرنے سے پہلے مزاحمتی خیمے میں شامل نہ ہوتے۔ جس زمانے میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے مسٹر حسیب درابو اخبارات، رسائل اور جرائد میں خامہ فرسائی کرتے تھے ، اُن دنوں موصوف کی تحریرات میں کہیں بھی مسئلہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت پر کوئی سوال نہیں اُٹھا لیکن وزارت وامارت کا جبہ ودستار پہنتے ہی اب اگر ساون کے اندھے کو ہریالی ہی ہریالی نظر آئے تو کیا کہئے؟ اصل یہ ہے کہ ذاتی مفاد کی لالچ اور ہوسِ حکمرانی کسی بھی انسان کی ضمیر کشی کر کے اس سے کچھ بھی کہلوا سکتی ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کوئی بھی شخص محض عاریتاً ملی عارضی کرسی کی خاطر کروڑوں عوام کے جذبات ، احساسات اور قربانیوں کی نفی کرکے ایسی گل افشانیاں کرتا پھرے جو ناگپوری سیاست کے خُم خانے کو گرما دے۔ریاست جموںوکشمیرسماجی مسئلہ ہوتا تو برہان وانی، منان وانی ،عیسیٰ فاضلی اور ان جیسے سینکڑوں اسکالرز، انجینئرز اور دیگر اعلیٰ تعلیم یافتہ خوشحال گھرانوں کے پڑھے لکھے چشم و چراغ انتہائی اقدام کے طور پر عسکریت کی راہ کبھی نہیں اپناتے۔مسئلہ کشمیر ایک زندہ وجاوید سیاسی حقیقت ہے اور اس حقیقت سے اگردرابو جیسے ’’فلاسفر اور کرسی کے دیوانے‘‘ جیسے سارے لوگ انکار بھی کریں تو بھی اس قوم کی خاک سے پیدا ہونے والی آئندہ نسلیں اپنے سلب شدہ سیاسی حق کی بازیابی کے لیے اُٹھ کھڑی ہوں گی۔ لہٰذا جو لوگ برصغیر بلکہ عالم انسانیت کے خیرخواہ ہیں وہ کشمیر اور فلسطین جیسے عالمی سطح پر تسلیم شدہ سیاسی مسائل کے موثر ومنصفانہ اورپُرامن حل کی وکالت کرتے ہیں اور وہ فی الحقیقت اپنی بالغ نظری ، امن پسندی، انسان دوستی اور سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور جو نیوکلیئر ہندوپاک کو ہمیشہ حالت جنگ میں دیکھنا چاہتے ہیں، وہ ٹٹ پونجئے اپنے ایجنسی رول سے بالعموم برصغیر کے بدخواہ ہیں اور بالخصوص کشمیر میں مرگ زاروں کی تعداد بڑھانے پر بضد ہیں۔ افسوس کہ ہمارے اقتداری سیاست کاروں کے حوالے سے ہماری ستر سالہ تاریخ ہزارہا دغابازیوں، غلط رہنمائیوں، مفاد پرستیوں اور بے ضمیریوںسے عبارت ہے۔ اس لئے حسیب درابو یکہ وتنہا نہیں ۔
سابق وزیر خزانہ حسیب درابو کے بارے میں عام تاثر یہی ہے کہ موصوف مرکزی سرکار کے قریب ترین لوگوں میں شمار ہوتے ہیں، یہ سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ کے ساتھ اُس وقت کام کرچکے ہیں جب وہ وزیر خزانہ تھے،یہ حضرت اچانک سیاسی میدان میں نمودار ہوئے اور پی ڈی پی میں شامل ہوکر اس جماعت کے پالیسی ساز وں میں اپنے جگہ بنانے میں کامیابی حاصل کرگئے ۔ یہ بھی ایک عام تاثر ہے کہ موصوف کو جان بوجھ کر پی ڈی پی کے حلقوں میں بااثر بنادیا گیا۔ان ہی کی اَنتھک کوششوں سے فرقہ پرست جماعت بی جے پی کا دیر ینہ خواب شرمندۂ تعبیر ہوا کہ وہ جموں وکشمیر کی حکومت کی حصہ دار بنی۔ ان ہی صاحب نے جی ایس ٹی کے متنازعہ قانون کو ریاست جموں وکشمیر میں نافذ کرنے میں دلی سرکار کی کافی مدد کی ۔جی ایس ٹی کے معاملے میں انہوں نے ہی ریاستی آئین میں مندرج ہماری معاشی خود مختاری کو سبوتاژ کیا۔ اس نئے قانون کے ذریعے نہ صرف عوام اور تاجرانِ ریاست کو ٹیکسوں کے بھاری بھرکم بوجھ تلے دبا لیا گیا ، بلکہ ساتھ ہی ساتھ کشمیر کی متنازعہ حیثیت اور خصوصی پوزیشن پر بھی اس سے بڑا گہرا منفی اثر ڈالا گیا۔ ایک نیوز یہ بھی ہے کہ درابو صاحب نے مبینہ طورممبئی کے کسی ہائیڈل پاور پروجیکٹ تعمیر کرنے والی کمپنی کو اَربوں روپے کے ٹیکس سے چھوٹ دے دی ہے۔گہرائی کے ساتھ صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو اظہر من الشمس ہوتا ہے کہ کشمیریوں کے سیاسی ومعاشی حقوق کو مزید دبانے کی خاطر دلی کو ہمارے اپنے ہی گھر کے بھیدی میسر ہورہے ہیں جو ایسی بے تکی و حلاف ِ حقیقت سخن سازیو ں اور درپردہ اقدامات سے کشمیر میں دلی کے عزائم کو کامیابی سے ہمکنار کر نے کے لئے اپنے شانے اور اپنی خدمات پیش کررہے ہیں۔
اب رہا سوال دوکشتیوں میں سوار پی ڈی پی کا حسیب درابو کے خلاف کارروائی کرنے کا ، یہ پارٹی اس سے ظاہر کرنا چاہتی ہے کہ مسئلہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت کے تئیں یہ سنجیدہ اور حساس ہے ۔ اس بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ اس نے بھاجپا سے ہاتھ ملاکر اپنا سیاسی تشخص نیلام کر دیا، جسے بحال کر نے کے لئے ایک جانب یہ ہاتھ پاؤں مارتی ہے اور دوسری جانب جموں میں مہاراجہ ہری سنگھ سے منسوب پارک کا افتتاح اور مہاراجہ کے مجسمہ کی نقاب کشائی کرکے یہ کشمیر مخالف ایجنڈا میں بھی رنگ بھر رہی ہے ۔ اس طرح کے اقدامات سڑک ، پانی اور بجلی کے نام پر عوام سے ووٹ بٹورنے والے یہ چلّاتے رہے کہ ہما را منڈیت خالص عوام کے روز مرہ مسائل حل کرنے تک محدود ہے لیکن جب یہ کامیاب ہوکر اسمبلیوں میں پہنچ گئے تو’’ عوامی جذبات‘‘ کی نمائندگی کے زعم میں افضل گورو صلیب دی گئی ۔ محبوبہ مفتی، مظفر حسین بیگ کے علاوہ پی ڈی پی کے دیگر کئی قائدین کے بیانات ریکارڈ پر موجود ہیںجن میں اُنہوں نے انڈیا کے ساتھ کشمیر کے الحاق کو حتمی قرار دیا ۔ مظفر حسین بیگ آئے روز ایسے متنازعہ بیان بازیاں کرتے رہتے ہیں، خود وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے چند ہی ماہ پہلے شیخ محمد عبداللہ کے جانب سے ہندوستان کے ساتھ کئے جانے والے الحاق کی ستائش کرتے ہوئے اُن کے اس اقدام کو اَحسن قرار دیا ہے۔حسیب درابو کے بیان سے ہزار گنا صاف انداز میں محبوبہ مفتی اور اُن کی پارٹی کے دیگر لیڈروں کے بیانات اور اقدامات مسئلہ کشمیر کے لیے سم قاتل ثابت ہوتے رہے ہیں۔ یہ لوگ ایک سانس میں مسئلہ کشمیر حل کی بات کرتے ہیں اور اگلے سانس میں بھارت کے ساتھ کشمیر کے الحاق کو حتمی قرار دے کرایک تیر سے دو شکار کرتے ہیں۔اس لئے درابو کے حوالے سے پی ڈی پی کا انتہائی اقدام اس کے سوائے کچھ نہیں ہے کہ برسراقتدار جماعت اپنے دور اقتدار کی فاش غلطیوں سے عوامی توجہ ہٹانے، نیز اگلے الیکشن میں عوام کے سامنے جانے کے لئے راہیں تلاش کررہی ہے۔یہی حال اپوزیشن نیشنل کانفرنس کا بھی ہے، آج وہ پی ڈی پی پر الزام عائد کرتی ہے کہ اُنہوں نے مسئلہ کشمیر کی متازعہ حیثیت کو کمزور کرنے کے علاوہ اپنے پارٹی مؤقف سے انحراف کیا لیکن خود اُن کی کیا حالت ہے یہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔شیخ محمد عبداللہ کی ۲۲؍سالہ سیاسی’’ آوارہ گردی‘‘ سے لے کر اُن کے خاندان کی تیسری نسل کے اقتدار کا مزہ چھک لینے تک اس جماعت نے عوامی مفادات اور ریاست کے سیاسی ومعاشی حقوق کے ساتھ جس طرح کا کھلواڑ کیا ، کیاوہ اس جماعت کے نامۂ اعمال میں درج نہیں ہے؟کشمیریوں کی نسلیں شہر خموشاں کے نذر کرنے، یہاں کے وسائل کوڑیوں کے مول دلی کو سونپ دینے اور عوامی درد و کرب کا قصوروار کون ہے؟ اس جماعت نے عوامی منڈیٹ کا کبھی کوئی پاس و لحاظ کیا اور نہ ریاستی مفادات کا تحفظ کبھی اس کی ترجیحات میں شامل رہا ۔ اقتدار نواز جماعتوں اور لیڈروں کو مسند اقتدار کے علاوہ ذرا بھی بھی احساس ہوتا کہ عوامی مفادات اور ترجیحات کیا ہوتی ہیں تو بڑی بات ہوتی۔بایں ہمہ اُن کی سیاسی ہیت ترکیبی ہی ایسے ترتیب پائی ہے کہ یہ لوگ چاہتے ہوئے بھی عوامی مفادات میں دلی کی مقرر کدہ لکشمن ریکھا پھلانگنے کی جرأت نہیں کرسکتے ۔سیاسی چال بازیوں کے اس خونی کھیل میں عام انسان شکار ہورہا ہے۔ ایسے میں عام انسان کو ہی بیدار ہونے کی ضرورت ہے، اُنہیں معمولی نوعیت کے ذاتی مفادات کے بجائے عوامی اور ملّی مفادات اور وطن کے مستقبل کو مدنظر رکھ کر بکاؤ سیاست دانوں سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔