کشمیر سانحہ کیلئے کانگریس ذمہ دار:متفکر شہریوں کا گروپ

Kashmir Uzma News Desk
4 Min Read
سرینگر//کانگریس کو کشمیر سانحہ کا معمار قرار دیتے ہوئے’ ’’ متفکر شہریوں کے گروپ‘‘نے کہا کہ اس جماعت پر یہ اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ تنازعہ کشمیر حل کرنے کیلئے تمام فریقین کے ساتھ مذاکراتی عمل شروع کرنے کیلئے دبائو ڈالے۔ کانگریس کے کشمیر سے متعلق پالیسی ساز گروپ کے ساتھ ملاقات کے دوران ’’ متفکر شہریوں کے گروپ‘‘ نے سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کو یاد دہانی کرائی کہ کانگریس نے جدوجہد آزادی کے دوران کشمیر کے حکمران کی قانونی حیثیت پر سوال کھڑے کئے تھے۔ گزشتہ روز  اس گروپ نے کانگریس گروپ سے ملاقات کی ۔ وفد میں پبلک سروس کمیشن کے سابق چیئرمین محمد شفیع پنڈت، سابق چیف انفارمیشن کمشنر جی آر صوفی،سابق ہائی کورٹ جج حسنین مسعودی،گورنمنٹ ڈینٹل کالج کے سابق پرنسپل اور پبلک سروس کمیشن  ممبر ڈاکٹر تارا سنگھ، معروف ماہر معیشت پروفیسر نثارعلی،سرکردہ تاجراں مسعود حسین شاہ اور کرشن لال شامل تھے۔وفد نے ڈاکٹر منموہن سنگھ کو بتایا کہ کانگریس نے آزادی کی جدوجہد کے دوران کشمیر کے مہاراجہ کی قانونی حیثیت پر سوالیہ اٹھایااور ذمہ دار حکومت کا مطالبہ کیا،تاہم اسی حکمران سے مشروط الحاق بھی تسلیم کیا۔انہوںنے کہا کہ اس دوران جو وعدے کئے گئے انہیں بھی توڑ دیا گیا اور1953کے علاوہ1977اور1984سمیت1987میں سیاسی غلطیوں کا ارتکاب کر کے ریاست کی اندرونی خود مختاری کو مسخ کیا۔انہوں نے کہا کہ ان ہی اقدامات کی وجہ سے اب جموں کشمیر  ہجوم پر قابو پانے کیلئے صرف گولیوں اور پیلٹ بندوقیں چلانے میں منفرد حیثیت رکھتی ہے،جبکہ دیگر ریاستوں میں اس حوالے سے جو معیاری ضوابط پر عمل کیا جاتا ہے انکی جموں کشمیر میں کھلے عام خلاف ورزی کی جاتی ہے۔گروپ نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ ریاست میں آبی وسائل کو بھی لوٹا گیا،جبکہ اس پانی سے جو بجلی تیار کی جاتی ہے،اس کو بھی جموں کشمیر کو اضافی قیمتوں پر فروخت کیا جاتا ہے۔کانگریس کے پالیسی ساز گروپ پر واضح کیا گیا کہ سیاحوں کی آمد پر بھی پہرے لگائے جاتے ہیں اور جان بوجھ کر انہیں یا تو روکا جاتا ہے،یا دیگر ریاستوں کی طرف منتقل کیا جاتا ہے اور اس رجحان سے ریاست کی سیاحتی صنعت اور دستکاری پر ضرب لگ گیا ہے۔ ’’ متفکر شہریوں کے گروپ‘‘ نے پارلیمانی ممبران کو بتایا کہ ماضی میں عارضی سیاسی نظام کی پالیسی ناکام ہوچکی ہے،جبکہ اس سے سیاسی لیڈراں کے تئیں بداعتمادی کی فضا قائم ہوگئی ہے۔مذکورہ گروپ نے کہا کہ انتظامی،معیشی ا ورترقیاتی یا قلیل مدتی سیاسی اقدمات سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ اس کے حتمی حل کرنے کیلئے فریقین  سے مذاکراتی عمل شروع کیا جانا چاہیے،اور یہی واحد  راستہ ہے۔ گروپ نے غیر مشروط مذاکراتی عمل کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ عبوری اقدامات کے تحت اندرونی خود مختاری کیلئے اٹھائے جارہے اقدمات،جن میں جی ایس ٹی،نیٹ،صنعتی پالیسی،سرفیسی جیسے قوانین،جن کو ماضی میں اٹھایا گیا،کو منسوخ کیا جائے۔گروپ نے کانگریس کے پالیسی ساز گروپ کو بتایا کہ دفعہ35A سے ریاست کے تینوں خطوں کو فائدہ حاصل ہے،جبکہ اس کو منسوخ کرنے کے کسی بھی فیصلے کے خلاف ریاست کے کونے کونے میں لوگ اس کی مخالفت کرینگے۔
Share This Article
Leave a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *