یکم اپریل کی سیاہ ایتوار کو جنوبی کشمیر میںجو خونریزی ہوئی اس کا صدمہ فراموش کرناکسی پتھر دل رکھنے والے کیلئے بھی مشکل ہے۔23انسانی جانیں ایک ہی دن میں موت کے گھاٹ اترگئیں ۔ فورسز نے تین الگ الگ مقامات پر آپریشن کے دوران تیرہ جنگجووں کو جاں بحق کردیا ۔پانچ شہری بھی ان آپریشنوں کے دوران مارے گئے اور پانچ فوجی بھی ۔ ایک سو سے زیادہ شہری زخمی ہوئے جن میں سے ایک او ر زخمی بھی دم توڑ گیااور مزید کئی زخمی زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں ۔ مزاحمتی قیادت نے دو روز کے لئے ہڑتال کی اپیل کی جو اب چوتھے روز بھی جاری ہے اور جس کے نتیجے میں زندگی کا پورا نظام درہم برہم ہوکر رہ گیا ہے ۔ لوگ جس وقت یہ توقع کررہے تھے کہ سیاحوں کی آمد شروع ہوگی اور کئی سال سے سیاحت کی صنعت پر چھائے ہوئے مندی کے بادل چھٹ جائیں گے توقعات کے برعکس حالات نے ایک بار پھر پلٹا کھایا اور ایسا پلٹا کھایاکہ لگتا ہے اسی طرح کے حالات پیدا ہونے جارہے ہیں جو برہان وانی کے جاں بحق ہونے کے بعد پیدا ہوئے تھے بلکہ اس بار اس سے بھی زیادہ سنگین صورتحال ہے ۔
اِس وقت لوگوں کی ایک بڑی تعداد جنگجووں کے ساتھ کھڑی ہے اور یہ ایسے لوگ ہیں جنہیں زندگی کی تمنا نہیں ، موت کا ڈر نہیں ، فورسز کا خوف نہیں ، گولی کا وہم نہیں ۔ ایک ہاتھ میں پتھر اور ایک ہاتھ میں موت ہے ۔ ایسا ہی ایک جوان جوشوپیان کے کچھ ڈوروعلاقے میں ان لوگوں کے ساتھ تھا جنہوں نے دو جنگجووں کو ملبے سے زندہ نکال کر بچایاتھا زخمی حالت میں ہسپتال کے بستر پرببانگ دہل اس کا اقرار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہماری قربانی ضائع نہیں ہوئی ہم نے اپنے بھائیوں کو بچانے میں کامیابی حاصل کرلی ۔ اس سے اس جذبے کے اُبال کا اندازہ کرنا مشکل نہیں جو اس وقت خاص طور پر جنوبی کشمیر کے عوام میں آتش فشاں کی طرح ابل رہا ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ آریا پار کا ایک جنون ذہنوںپر چھایا ہوا ہے اسلئے نہ کسی کو نتائج کی کوئی پرواہ ہے نہ اس بات کا کوئی خیال کہ وہ کس کے ساتھ نبرد آزما ہے اور نہ ہی اس بات کا ہوش کہ پتھر ہاتھ میں لیکر مشین گنوں کا مقابلہ کرنا کوئی عقل مندی نہیں۔یہ صورتحال بہت ہی عجیب بھی ہے اور سنگین بھی ۔
جذبو ں کی اس شدت اور اس جنون میں کسی تجزیہ نگار کے لئے صحیح اور غلط کی نشاندہی کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے اور نہ ہی ایسی حالت میں تجزئیے کا کوئی سرا ہاتھ آسکتا ہے ۔دانش حیران اور عقل پریشاں ہوکر رہ جاتی ہے ۔زمینی حقیقت یہ ہے کہ خونریزی کا یہ المیہ فورسز کی طرف سے جنگجووں کیخلاف آپریشنوں کی وجہ سے قوع پذیر ہوتا ہے توکیا فورسز سے کہا جائے کہ وہ جنگجووں کے خلاف کوئی آپریشن نہ کریں تاکہ جنگجو آزادی کے ساتھ سڑکوں پر گشت کریں اور جہاں جس وقت بھی چاہیں فورسز کی کانوائیوں پر حملہ کریں ، کیمپوں میں گھس کر گولیوں اوربموں سے حملے کرکے فتح و نصرت کے جھنڈے گاڑھ دیں ۔
لڑائی کے میدان میں کیسے ایک فریق سے کہا جائے کہ وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے اور مخالف فریق کو تاخت و تاراج کی آزادی دے ۔اسی طرح جنگجووں سے بھی نہیں کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے ہتھیاروں کی صرف نمائش کریں ۔دونوں فریق لڑنے کیلئے میدان میں اور لڑنا ہی ان کا کام ہے اور اس لڑائی میں دونوں کی ہلاکتیں لازم و ملزوم ہیں لیکن ان دو فریقوں میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ ایک نہ پورا تربیت یافتہ ہے اور نہ اس کے پاس اپنے بچاو اور دشمن کیخلاف حملوں کے لئے مناسب ہتھیار ہیں لیکن اس کے پاس اس سے بھی بڑی طاقت عوام کا بھرپور سپورٹ ہے ۔دوسرا فریق منظم بھی ہے اور جدید اور ہر طرح کے وسائل اور ہتھیاروں سے لیس ہے اوراسے سوا ارب لوگوں کے ملک کی طاقت اور حمایت بھی حاصل ہے ۔اس پر یہ دباو بھی ہے کہ وہ کلاشنکوف بردارجنگجووں کا صفایا کردے لیکن اس پر اس ذمہ داری کا بوجھ بھی ہے کہ ایسی کوئی صورتحال پیدا نہ ہو کہ حالات قابو سے باہر ہوجائیں چنانچہ تضاد سے بھرپور دباو کے ساتھ جب فورسز آپریشن شروع کرتے ہیں تو جنگجووں اور ان کے بیچ عوام کے اس طبقے کی دیوار کھڑی ہوجاتی ہے جو بے جگری میں اپنی مثال آپ ہے ۔اس مرحلے پر کبھی وہ آپریشن موقوف کرتے ہیں اور کبھی گولیاں اور پیلٹ چلا کر اس دیوار کو پار کرتے ہیں ۔ اسی مرحلے پر خونریزی کا سانحہ رونما ہوتا ہے ۔
اس صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے کوئی تجزیہ نگارصحیح اورغلط کی نشاندہی کرنے سے قاصر ہے وہ نہ فورسز کوخونریزیوں کا ذمہ دار قرار دے سکتا ہے نہ جنگجووں کو ۔لیکن یہ صرف واقعاتی صورتحال ہے اس صورتحال کے پیچھے بہت سارے عوامل، بہت ساری وجوہات اور بہت سارے سیاسی نشیب و فرازہیں جو موجودہ صورتحال کے اصل محرک ہیں ۔جنگجووں اور جن ہاتھوں میں پتھر ہیں ان کے پاس لڑنے کا یہ جواز ہے کہ وہ اس قوم کے غصب شدہ پیدائشی حقوق کی بازیابی کیلئے میدان میں کود گئے ہیں جن کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے او رفورسز اس ملک کے لئے لڑرہے ہیں جس کی قیادت وعدوں سے مکرنے اور اصولوں کو روندھنے کے ریکارڈ قائم کرچکی ہے اس کے نتیجے میں اخلاقی برتری اس فریق کو حاصل ہوجاتی ہے جس کے پاس تربیت اور ہتھیاروں کی کمی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک بڑے ملک کی منظم فوج مٹھی بھر کلاشنکوف برداروں کا خاتمہ کرنے کا حدف پورا کرنے سے معذور ہے ۔تیس سال تک ایک عظیم ملک کی عظیم فوج ، بے پناہ وسائل اور سیاسی طاقت اس چھوٹی سی ، غیر منظم اور معمولی تربیت یافتہ عسکری قوت کو مکمل شکست دینے میں ناکام ہے ۔جس کو ایک اور ملک کی تائید و حمایت ، تربیت اور ہتھیار حاصل تو ہیں لیکن ارادہ اس کا اپنا ہے اور عزم اس کا اپنا ہے شاید اس عزم و ارادے کے باوجود بھی اس کے لئے لڑنا ممکن نہیں تھا اگر اسے عوام کی حمایت حاصل نہیں ہوتی اور عوام کی حمایت اسے اس لئے حاصل ہے کہ اسے اسی میں اپنی نجات نظر آتی ہے ۔
غیر سرکاری عسکری قوت جہاں بھی ہوتی ہے اس سے زیادتیاں بھی ہوتی ہیں اور غلطیاں بھی ۔ کشمیر میں بھی جنگجووں سے بھاری غلطیاں بھی سرزد ہوتی رہیں اور زیادتیاں بھی جب وہ پولیس اہلکاروں پر حملے کرتی ہے تو اسی عوام کے ایک طبقے پر حملہ آور ہوتی ہے جو اس کا ساتھ دیتی ہے اور اس کے لئے اپنی جانیں تک نچھاور کرتی ہے ۔ عمر فیاض بھی کشمیر کا ہی باشندہ تھا جسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا لیکن اس کے باوجود بھی اس کے لئے عوام کی تائید و حمایت میں ذرا بھی کمی ہونے کے بجائے اس میں اضافہ ہی ہوتا رہا ۔اس کے پیچھے بھی وہی جذبہ کارفرما ہے جو عسکری تحریک کے پیدا ہونے کے پیچھے ہے ۔وہ جذبہ اس قدر شدید ہے کہ کوئی معقول وجہ بھی اس میں کمی کا باعث نہیں ہوتی ہے او ر دوسرے فریق کی ناکامیوں کی بھی یہی بڑی وجہ ہے کہ وہ اس جذبے کو سمجھنے اور ناپنے میں آج بھی ناکام ہے ۔
ایسے حالات میں آل آوٹ آپریشن کو اس طرح سے وسعت دینا کہ ایک ہی وقت میں مختلف مقامات پر آپریشن ہو ں بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کو دعوت دینا ہے اور بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا وقوع پذیر ہونا اس مقصدکے خلاف اثرات پیدا کرنے کا ہی باعث ہوتا ہے جس کے لئے یہ آپریشن عمل میں لائے جاتے ہیں ۔ آپریشن آل آوٹ کی عمل آوری سے پہلے اگر زمینی سطح پر حالات کو بہتر بنانے کے لئے کام کیا جاتا تو شاید حالات مختلف ہوتے ۔ بنیادی مسئلہ نوجوانوں کا عسکری محاذ میں شامل ہونا نہیں بلکہ وہ بے اعتباری اور بداعتمادی ہے جس کی وجہ سے نوجوانوں کے بندوق ہاتھ میں اٹھانے کو سماجی قبولیت حاصل ہوتی ہے اور بندوق ہاتھ میں اٹھانے والے نوجوان کی تصویریں ہاتھوں ہاتھ لی جاتی ہیں ۔ ایسے نوجوان ہیرو کا درجہ حاصل کرتے ہیں تو دوسرے نوجوانوں کے دلوں میں بھی ہیرو بننے کا شوق پیدا ہوتا ہے ۔اس روئیے کی جڑ کہاں ہے اس کی کھوج کئے بغیر عسکری جنون کو نہیں روکا جاسکتا ۔اس کی جڑ وہ بے اعتباری ہے جو سیاسی دھوکے بازیوں نے پیدا کی ہے اور اسے دور کرنے کا علاج بڑی اور جرات مندانہ سیاسی پہل میں ہی پوشیدہ ہے ۔
پاکستان کے ساتھ جب پہلے بات چیت کرنے میں کوئی مشکل نہیں تھی تو آج کیوں ہے ۔ اور اندرونی سطح پر بھی بات چیت کی فضاء ہموار کرنا کوئی دشوار مرحلہ نہیں اگر دیانتداری اور خلوص کے ساتھ پہل کی جائے ۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ سیاسی سطح پر کام کیا جائے اور عوام کے ساتھ رابطے بڑھا کر اعتماد کی فضاء تیار کی جائے ۔ فوجی اقدامات سے زیادہ سیاسی اقدامات ہی حالات کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں گوکہ عوام کا ٹوٹا ہوا اعتبار اور اعتماد بحال کرنا کوئی آساں کام نہیں لیکن ناممکن بھی نہیں ہے ۔ ایک کٹھن اور طویل جدوجہد کی ضرورت ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ یہ جدوجہد کرنے کیلئے مین سٹریم بھی تیار نہیں اور مرکزی حکومت کا بھی اس پر کوئی زور نہیں ہے ۔ ریاست میں ایک منتخب حکومت قائم ہے اس کی ذمہ داریوں میں سب سے بڑی اور اہم ذمہ داری یہ ہے کہ وہ حالات کا تجزیہ کرکے ان پہلووںکی نشاندہی کرے جن کی وجہ سے لوگوں کے اندر بداعتمادی اور بے اعتباری بڑھتی جارہی ہے اور پھر اعتماد بحال کرنے کے لئے ایک بھر پور منصوبہ بناکر اس پر عمل درآمد کیا جائے لیکن حکومت کی ساری توجہ اس بات پر مرکوز ہے کہ نوجوانوں کو جنگجووں کی صفوں میں جانے سے کیسے روکا جائے گویا جڑ کو نظر انداز کرکے ٹہنیوں کی بیماری تلاش کی جارہی ہے ۔ان پر کتنی ہی دوائیوں کا چھڑکاو کیا جائے جڑ کی بیماری پھر بھی ٹہنیوں تک پہونچ جائے گی ۔گزشتہ تیس سال کے دوران کوئی سنجیدہ سیاسی پہل نہیں کی گئی صرف سطحی مرہم پٹیوں پر ہی ساری توجہ صرف کی گئی اور ان تیس سالوں نے حالات کو بہتر بنانے کی ذرا بھی صورت پیدانہیں کی بلکہ ابتری کو اتنا بڑھایا کہ آج حالات کے بدلنے کا کوئی سرا بھی کہیں نہیں مل رہا ہے ۔
اگر حالات کے اندرونی اور بیرونی پہلووں کو دیکھا جائے اور کوئی ایسی پہل کی جائے کہ کم سے کم عام لوگوں کو یہ احساس ہو کہ حکومت اس پیچیدہ مسئلے کے بارے میں متفکر ہے اور اسے حل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تو تبدیلی کی فضاء پیدا ہونے میں دیر نہیں لگے گی ۔اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اٹل بہاری واجپائی کے دور حکومت میں عوام میں اعتبار پیدا ہونے لگا تھا یہی وجہ ہے کہ آج بھی کشمیر میں اٹل بہاری واجپائی کا نام عزت و احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے حالانکہ وہ بھی بی جے پی کے ہی رہنما تھے اور ان کی حکومت بھی بی جے پی کی ہی حکومت تھی لیکن انہوں نے دیانتداری کے ساتھ مسئلہ کشمیر حل کرنے کی پہل کی تھی اگر چہ وہ بھی یہ مسئلہ حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے لیکن انہوں نے جو تاثر چھوڑا وہ بہت خوشگوار تھا اور اگر بعد میں مرکز میں ایسی تبدیلیاں نہ ہوتیں جو شدید تر ردعمل پیدا کرنے کا باعث ہوئیں تو حالات کی یہ صورت کبھی پیدا نہیں ہوتی ۔آج بھی اگر اس طرح کی پہل کی جائے تو عجب نہیں کہ حالات کافی حد تک بدل جائیں ۔ ریاستی حکومت کو بھی باتوں سے زیادہ عملی طور پر کچھ کرنا ہوگا اور مرکزی حکومت کوبھی تب ہی بہتر نتائج کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں ۔ سیاسی سطح پر قابل ذکر پہل کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ جنگجووں کے خلاف آپریشنوں کے منصوبے اس طرح سے ترتیب دئیے جائیں کہ شہریوں کے ساتھ فورسز کا آمنا سامنا ہونے کا کوئی امکان باقی نہ رہے ۔ ٍابھی تک جتنا خون بہہ چکا ہے بہت ہے اس کے بعد بھی اگر خون بہتا رہے تو کوئی توقع نہیں کی جاسکتی ہے کشمیر میں کچھ بھی ٹھیک ہو ۔نہ سیاحتی سیزن بحال ہوسکے گا نہ ترقیاتی منصوبے آگے بڑھ سکیں گے اور نہ ہی امن و سکون کا ایک سانس بھی میسر آسکے گا بلکہ کشمیر اپنے ساتھ پورے ہندوستان کوہی نہیں بلکہ برصغیر ہند و پاک کا امن و سکون چھین کر رکھ دے گا ۔
( ماخذ: ہفت روزہ نوائے جہلم سری نگر)