کشمیر خون آشامیوں کے بھنورمیں

Kashmir Uzma News Desk
18 Min Read
جولائی 2016 ء میں کشمیر برہان وانی کے دلدوز سانحہ ٔارتحال کے پس منظر میں شدید بحران سے دوچار ہوا اور یہ بحران آج تک کسی نہ کسی صورت میں وادی کی صورت حال پہ حاوی ہے ،گر چہ 2016-17ء کے سرمائی مہینوں میں حالات میں نسبتاََ بہتری دیکھنے کو ملی لیکن یہ ایک عارضی کیفیت تھی۔ سال رواں میںبہار کی آمد کے ساتھ ڈگری کالج پلوامہ میں طلباء کے ساتھ فورسز کی زیادتی کے بعد وادی بھر کے طلباء باری باری پُر زور احتجاج پہ اتر آئے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔مئی کے اختتامی ہفتے کے دوراں ترال میں ایک خونریز تصادم کے دوران معروف حزب کمانڈر سبزار احمد بٹ سیموہ ترال میں ایک خون ریز جھڑپ جاں بحق ہوگئے۔برہان کے بعد سبزار کا شمار جنگجو تحریک کے جانے پہچانے چہروں میں ہوتا تھا۔پچھلے کئی عرصہ سے جنوبی کشمیر کے طول و عرض میں فورسز نے کریک ڈاؤنوں اور بندشوں کا جال بچھائے رکھا ہے اور کئی مقامات پہ انہیںسوائے عوامی غم وغصہ کے کچھ ہاتھ نہ آیا ۔ کمانڈر سبزار کے جاں بحق ہونے کے بعد حالات نے یکسر پلٹا کھایا ، وادی کے طول وعرض میں عوامی احتجا روکنے کے لئے فورسز نے کرفیو اور بندشوں کا نفاذ کیا ، سکول اور کالج بند کر دئے گئے کیونکہ ریاستی حکام طلبا کے احتجاج سے خائف ہیں ۔عوام الناس پہ گوناگوں پابندیاں عائد کرنے سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ریاست حکومت عوامی اعتماد کاملاََ کھو بیٹھی ہے ۔ریاست جموں و کشمیر میں گوناگوں منفی اثرات کے علاوہ ریاستی حالات نے بر صغیر ہند و پاک کے تعلقات کو شدید مشکلات سے دوچارکیا ہے اور اُس کا ایک عالمی رپورٹ کارڑ بھی ہے۔آج کے مقالے میں اِن سب موضوعات پہ ہماری نظر رہے گی۔
جولائی 2016 ء سے مئی 2017 ء کے دوران ریاستی دہشت گردی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ سال رفتہ کے عوامی انتفاضہ میں اعداد و شمار کے مطابق کم و بیش 100 افراد اپنی جاں گنوا بیٹھے ،17,340زخمی ہو گئے6,000افراد پیلٹ گن کا شکار ہو گئے360افراد اپنی ایک آنکھ گنوا پیٹھے جب کہ 30 افراد دونوں آنکھوں کی بینائی کھو چکے ہیں 19,500گھر آتش زدگی کا شکار ہو گئے 8,000افراد نے اپنی املاک جیسے کہ گاڑیاں کھو دیں 11,700افراد پابند سلال کر دئے گئے۔ریاستی دہشت گردی کی اِس فضا میں بر صغیر کے آر پار کے ممالک ہند و پاکستان کے آپسی رشتے شدید تیرگی کا شکار ہو چکے ہیں ۔ بھارت کا یہ ماننا ہے کہ کشمیر کی مزاحمتی تحریک کی پشت پہ پاکستان ہے۔پاکستان کبھی بھی اس سے منکر نہیں رہا ہے کہ کشمیر کی مزاحمتی تحریک کو اُس کی ا خلاقی،سیاسی و سفارتی حاصل ہے البتہ پاکستان جنگجو یانہ تحریک کی حمایت سے ہمیشہ ہی منکر رہا ہے۔ بھارت جنگجو یانہ تحریک کو کراس بارڈر ملی ٹنسی کا لیبل چسپاں کر کے اسے انتہا پسندی سے جوڑنے کی سعیٔ نامشکور میں مشغول ہے۔جہاد افغانستان اور انقلاب ایران کے بعد اسلامی انتہا پسندی کا لیبل لگانا مغرب کے سیاسی مشاغل میں شامل ہو گیا ہے ،حالانکہ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جہاد افغانستان کے دوراں دنیا بھر کے مسلمین کی اِس جہاد میں شمولیت کو امریکا سمیت مغرب کی پشت پناہی شامل رہی۔امریکہ کی رہبری میں مغرب نے سوؤیت یونین کے بکھرنے میں اپنی مراد پا لی ۔ بعد ازیں جونہی یہ اسلامی دستے امریکہ سے نبرد آزما ہو گئے تو اُن کیلئے اسلامی انتہا پسندی کا لیبل لگانا مغرب کی روش بن گئی ۔یہ روش بہ گذشت زماں نئے نئے روپ لے رہی ہے۔کشمیر میں نہ صرف جنگجویانہ تحریک پہ یہ لیبل لگایا جا رہا ہے بلکہ خالص سیاسی جدوجہد کو بھی اسلامی انتہا پسندی سے تعبیر دی جاتی ہے۔آج کی دنیا میں کسی بھی سیاسی تحریک پہ یہ لیبل لگایا جائے تو اُسے دبانے میں آسانی رہتی ہے ،بھلے ہی یہ حقوق البشر کی خلاف ورزیوں پہ منتج ہو جائے۔کشمیر کی مزاحمتی تحریک جہاں گونا گوں مشکلات سے دو چار ہے ،وہی  انڈیا کی طرف سے  چسپاںیہ لیبل بھی اس کی مشکلات میں بے انتہااضافہ کر رہا ہے۔
کشمیر کے عوام کی اپنی دینی عقائد سے وابستگی کو سیاسی تحریک سے جوڑنے میں اُن حلقوں کے مقاصد پورے ہوتے ہیں جو یہ نہیں چاہتے کی کشمیری عوام کی سیاسی امنگوؤںکی آبیاری ہو۔جہاں تک دینی عقائد کو سیاست سے جوڑنے کا تعلق ہے تو اُس کا مقصد صرف و صرف یہ ہے کہ سیاسیات میں اخلاقیات کا عمل دخل رہے تاکہ غیر اخلاقی عنصر ہماری اجتماعیت میں شامل نہ ہو جائے۔ دین اور سیاست یا ایسا کہیں ریاستی امور میں دین کا عمل و دخل سیدنا ابراہیم ؑ کے دور سے چلا آ رہا ہے جنہوں نے نمرود کے غیر اخلا قی ریاستی اقدامات کی مزاحمت کی ۔کہتے ہیں ’ہر فرعونی را موسیؐ است‘ یعنی ہر فرعون کے مد مقابل موسیؐ ہے۔حضرت عیسی ؐ نے خدائی بادشاہت (Kingdom of God)کی بات کی جو ریاستی ادارات میں خدائی فرمودات کے اجرا ء کی دلیل ہے۔یہ تو رہی اُن مذاہب کی بات جنہیں اہل کتاب یا ابراہیمی مذاہب کا عنواں دیا گیا۔جہاں تک ہندی مذاہب کی بات ہے وہاں بھی رام راجیہ کا ذکر ہے جس کی تقلید کی بات گاندھی نے بھی کی اور جس کی گونج آج بھی بھارت کے طول و عرض میں سنائی دیتی ہے البتہ عملاََ یہاں چانکیہ کی سیاست کا بھول بھالا ہے جہاں اخلاقی قدروں کو پاؤں تلے روندا جاتا ہے اور جہاں دشمن کے دوست کو دوست کا درجہ دیا جاتا ہے بھلے ہی اُس میں اخلاقی قدروں کا فقدان ہو۔
کشمیر میں عوام کی اکثریت مطلق ایک پُر امن مزاحمتی تحریک کی حامی ہے، البتہ ازیں کہ اس پُر امن تحریک کی عوامی حمایت کا برملا اظہار نہ ہونے پائے ریاست تشدد کا راستہ اپناتی ہے ۔تشدد کی اس فضا میں جو ریاست کا پیدا کردہ ہے پُر امن سیاسی اقدامات کی جگہ بتدریج تنگ ہو جاتی ہے ۔لہٰذا کچھ نوجواں سیاسی امنگوں کی بر آوری کیلئے تشدد کا جواب تشدد سے دینے پہ مجبور ہو جاتے ہیں۔ثانیاََ پُر امن احتجاج پہ روک تھام لگانے کیلئے ریاستی ادارے پی ایس اے اور افسپا جیسے کالے قوانین کے اجرا ء سے نو جوانوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ مرنے مارنے کا راستہ اپنائیں۔ ان کالے قوانین کے اجرا ء سے ریاست جموں و کشمیر میں جہاں پکڑ دھکڑ کا سلسلہ جاری ہتا ہے، وہی جیلوں میں ٹارچر،   زیر حراست گمشدگی کی وارداتوں میں روز افزوں اضافہ، بے نا م قبروں کی دریافت، منجملہ جنسی تشدد کی خبریں منظر عام پہ آ جاتی ہیں ۔اِن دلخراش واقعات کی عدالتی تحقیق نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے اگر کہیں کہیں عدالتیں رو بعمل ہو بھی جاتی ہیں تو فیصلہ لینے میں اتنی تاخیر ہوتی ہے جہاں یہ بات صادق آتی ہے کہ عدالتی فیصلے میں تاخیر انصاف نہ ملنے کے متراوف ہے۔عدالتیں کسی فیصلے پہ پہنچ بھی جائیں تو فیصلہ جرم کی سنگینی کی مناسبت سے نہیں ہوتا۔ایسی فضا میں ایک پُر امن سیاسی تحریک کی جگہ روز بہ روز سکڑ جاتی ہے اور اُس کے بجائے ریاستی تشدد کے مد مقابل جنگجو تنظیمیں وجود میں آ جاتی ہیں حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ جنگجوؤں کی تعداد ریاستی سیکورٹی فورسز کے مد مقابل برائے نام ہوتی ہے نہ ہی اِن جنگجو تنظیموں کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ وہ فورسز کے بے شمار دستوں کا مقابلہ کر سکیں۔واضح عدم توازن کے باوجود جنگجو تنظیموں کا وجود جاری ہے۔مارا ماری کی اس فضا میں ہزاروں جانیں تلف ہوئیں ہیں بلکہ آج بھی ہو رہی ہیں۔اِس جاری سلسلے کے باوجود ریاستی ادارے اِس بات پہ آمادہ نظر نہیں آتے کہ کشت و کشتار کے بجائے امن وآشتی کے راستے کو اپنائیں اور ایک مسلسل اور نتیجہ خیزڈائیلاگ کے ذریعے مسلٔہ کشمیر کا ایک پُر امن حل نکالیں۔
دہلی سرکار ماضی میں کانگریس پہ مشتمل تھی اور اِس سیاسی تنظیم کا اعلانیہ نصب العین سیکولر ازم رہا، حالانکہ سیکولر ازم کے نام پہ مسلمانانِ ہند کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا گیا، اُس کی جانچ کے لئے کئی مرکزی کمیشنوں کی رپورٹوں کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ان میں راجندر سچر کی رپورٹ مسلمانانِ ہند کی بد حالی کی ایک کھلی کتاب ہے۔کشمیر کے ضمن میں یہ کہا گیا کہ بھارت اِس متنازعہ ریاست میں اپنے سیکولرازم کے دعوؤں کو ثابت کرنے کیلئے کچھ بھی کر گذرنے کیلئے آمادہ ہے اور بار بار یہ دعویٰ دہرایا گیا کہ کشمیر بھارتی سیکولرازم کی لیبارٹری ہے۔ سیکولرازم کی اِس تجربہ گاہ میں نصب العین کے تحفظ کیلئے ریاستی آئین کی دھجیاں اڑا دی گئیں اور کشمیر کو بھارتی سیکولرازم میں مدغم کرنے کیلئے اُس الحاق کا مذاق اڑایا گیا جس کو بنیاد بنا کر بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ ثابت کرنے کیلئے کچھ بھی کر گذرنے کے لئے آمادہ نظر آتا ہے۔اس مشروط الحاق کو ایک قابل احترام دستاویز مانا بھی جائے، تب بھی یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اِس الحاق کی جزؤئیات میںیہ منعکس ہوا ہے کہ مسلٔہ کشمیر کے حتمی فیصلے تک صرف و صرف تین امور ،دفاع،خاجی امور و رسل و رسائل دہلی سرکار کے تابع رہیں گے ۔بھارتی حکومت خصوصاََ سیکولرازم کے علمبردا ر کہلانے والے پنڈت نہرو نے بارہا رائے شماری کو حتمی فیصلے کا ذریعہ قرار دیا اور یہی یقین دہانی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی کروائی گئی۔
ریاست جموں و کشمیر کو بھارتی یونین میں مدغم کرنے کی پیہم کوششوں کے باوجود جب بھی ریاست میں احتجاجی صدائیں شدت اختیار کر گئیں تو بھارتی آئین کے دائرے میں بات چیت کرنے کے کئی آفر دئے جاتے رہے ۔یہ آفر بھی ٹال مٹول کی سیاست کا حصہ بنتے گئے۔اٹل بہاری واجپائی نے اِسے اپنے شاعرانہ رنگ میں رنگتے ہوئے ’انسانیت کے دائرے‘ میں بات چیت کرنے کا عنوان دیا گیا۔ اِس دوراں انسانیت کے ساتھ جمہوریت اور کشمیریت کے خوشنما نعروں کو بھی جوڑا گیا۔اٹل بہاری واجپائی کے واجپائی کے سیاسی جانشین نریندر مودی نے اِن خالی خولی نعروں کو تو یاد رکھا بلکہ بار بار دہراتے بھی رہتے ہیں ، البتہ جہاں پہلے ڈائیلاگ کا ڈھونگ رچایا جاتا تھا وہاں اب نوبت یہاں تک آ چکی ہے کہ کسی بھی قسم کے ڈائیلاگ سے ہی انکار کیا جاتا ہے اور شرط یہ لگائی جاتی ہے کہ جب تک کہ امن بحال نہ ہو جائے مذاکرات ہوں گے ہی نہیں ۔ جب کہ امن کی بحالی ریاست دہشت گردی کے روزافزوں اضافے میں نا ممکن نظر آتی ہے اور ایک پُر امن سیاسی تحریک کی کوئی گنجائش ہی نظر نہیں آتی۔ کشمیر ایک سیاسی دلدل میں پھنسا رہے ،دہلی کے موجودہ حکمرانوں کو اِسی میں اپنی بھلائی نظر آتی ہے۔کشمیر کی مزاحمتی تحریک کو مذہبی انتہا پسندی کا عنوان دے کر اُس کی شب و روز ٹیلی ویژن کے سکرینوں پہ بھر پور منفی تشہیر کی جاتی ہے۔اِس فرضی انتہا پسندی سے نبٹنے کیلئے ریاستی اقدامات کو بڑھا چڑھا کے پیش کیا جاتا ہے۔سخت گیر ریاستی اقدامات کو ہندتوا کے فروغ کیلئے ایک سیاسی ہتھیار کے طور پہ استعمال کیا جا رہا ہے، جس سے بھاجپا انتخابات میں مثبت نتائج حاصل کرنے کی سعی میں مشغول نظر آتی ہے۔ کشمیر کی سیاسی صورت حال آج بھاجپا کے ہاتھ میں اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل میں ایک موثر ہتھیار کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے۔
دہلی کے موجودہ حکمرانوں کے کشمیرمیں ریاستی اقدامات سے خط متارکہ کے آر پار سرحدی کشیدگی بھی بڑھ گئی ہے اور ہند و پاک کے مابین کشیدگی کے بڑھنے سے جو کشیدگی اور تناؤ کی صورت حال روزسامنے آتی ہے اُس سے بھی بھاجپا بھارت میں بھرپور سیاسی نتائج حاصل کرنے کی سعی میں نظر آتی ہے۔کبھی سرجیکل سٹرائیک کی تصاویر ٹیلی ویژن سکرینوں پہ نظر آتی ہیں ، کبھی ایسے ویڈیو دکھائے جا رہے ہیں جن میں ’’پاکستان کی سرحدی چوکیاں‘‘ آگ اور دھوئیں کی لپیٹ میں نظر آتی ہیں۔پاکستان نے تو پہلے پہل سرجیکل سٹرائیک سے صریحاََ انکار کیا بلکہ آج تک یہ انکار دہرایا جا رہا ہے، البتہ حال ہی میںپاکستان نے بھی بھارتی سرحدی چوکیوں کو آگ اور دھوئیں کی لپیٹ میں دکھانا شروع کیا ،تاکہ حساب برابر رہے۔ البتہ برابری کا یہ فوجی حساب کتاب کشیدگی کو ایک ایسی سطح پہ لئے جا رہا ہے جہاں خدانخواستہ دونوں ممالک کیلئے پیچھے مڑنا نا ممکن بھی بن سکتا ہے۔امریکی جاسوسی اداروں کے سربراہان نے حال ہی میں امریکی کانگریس کے ارکان کے سامنے ہند و پاک سرحدی کشیدگی کی جو منظر کشی کی ہے وہ انتہائی خوفناک ہے۔ اس منظر کشی میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ سرحد پار کے حملے اور خط متارکہ کے آر پار کی گولہ باری کہیں ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ممالک کے مابین ڈائرکٹ تصادم کا سبب نہ بن جائے۔اس کے علاوہ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں یہ ذکر آیا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک:CPEC ) بھارت کے ساتھ کشیدگی کا سبب بن سکتی ہے یعنی یک نہ شد دو شد چونکہ جہاں پہلے مسلٔہ کشمیر موضوع بحث تھا ،وہاں اب سی پیک بھی تناؤ کا سبب بن گیا ہے ۔بھارت کا ماننا ہے کہ یہ راہداری گلگت بلتستان سے گذرتی ہے جس پہ اُس کا انوکھا دعویٰ قائم ہے۔بالفاظ دیگر علامہ اقبالؒ کے بقول ’یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری‘ اور میرزا غالبؔ کے بقول ’کوئی بتلائے ہم بتلائیں کیا‘ کا عملی اظہار اس وقت ہند وپاک رسہ کشی اور کشیدگی کی صاف صاف عکاسی  کر تی ہے ۔عالمی رپورٹ کارڈ چاہے وہ امریکہ کا ہو یااقوام متحدہ کا رپورٹ کارڑ کی حد تک محدود ہے ۔جہاں تک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس دو ممالک کو جنگ سے روکنے اور کشمیر کے دائمی حل کی تلاش کا مسلٔہ ہے، اس میں عالمی اقدامات کا فقدان صاف نظر آ رہا ہے جب کہ اس بے نیازی کا ثمرہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ باہمی تنا تنی ان دو جوہری ملکوں کو خدانخواستہ ایٹمی ٹکراؤ کی طرف دھکیل دے جس سے نہ صرف بر صغیر متاثر ہو گا بلکہ یہ عالمی بربادی کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
 رابطہ [email protected]   

 
 
Share This Article
Leave a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *