پروین سہانی اور غزالہ وہاب دو ہندوستانی مصنف ہیں جنہوں نے حال ہی میں اپنی ایک کتا ب Dragon on our doorstepکے نام سے شائع کی۔ اس کتاب کا reviewیہاں کے ایک معروف انگریزی روزنامے میں آیا تھا ،کتاب مختلف موضوعات پر مشتمل ہے اور چند حقائق کشمیر پر مبنی ہیں۔ ان دونوں مصنفین نے مسلٔہ کشمیر کے بارے میں ایک اہم نقطہ بیان کیا ہے کہ ہندوستان کشمیر میں فوج کو استعمال کر کے حالات کو قابو میں رکھ رہا ہے اور اس دوڑ میں ،ہندوستان کے بہت ایسے طبقے شامل ہیں جنہوں نے کشمیر کو ایک میدان جنگ میں تبدیل کیا ہوا ہے۔ اس ریس میں ہندوستانی آرمی نے یہاں جو بھی کام کیا اس کے عوض جمہوری ملک کی فوج کو جو انعامات یہاں ملے وہ انہیں ملک کے کسی بھی سخت سے سخت ترین سرحد پر ڈیوٹی دینے پر نہیں ملے۔ بقول مصنفین ہندوستانی فوجی افسران خود کو کشمیر میں ڈیوٹی انجام دینے میں زیادہ ہی مزالیتے ہیں اورانہی افسران کو ہی یکے بعد دیگر اہم عہدوں پر فائز کیا جاتا رہا ہے ۔ پروین اور غزالہ چاہتے ہیں کہ مسلٔہ کشمیر کا حل سیاسی طور پر کیا جائے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ فوج کو افسپاکے تحت حاصل خصوصی اختیارات چھین لئے جائیں تا کہ بات چیت کے لئے راہ ہموار ہو جائے۔ کتاب میں اس بات کی تلقین کی گئی ہے کہ بھارت کو چاہیے کہ وہ کشمیر کے بارے میں اپنی ملٹری اور اسٹرٹیجک پالیسی میں تبدیلی لائے ۔ جہاں تک اس تصنیف کا تعلق ہے یہ کہنا بالکل دُرست ہو گا کہ ہندوستان میں بیٹھے چند باشعور اوربا ضمیر آدمی بھی مسلٔہ کشمیر کے دیر پا حل کے خواہشمند ہیں ۔حا ل ہی میں کانگریس کے سینر لیڈر منی شنکر آئیر نے یہاں مزاحمتی خیمے سے تعلق رکھنے والے لیڈران سے بات چیت کی اور اس کے بعد اپنے تاثرات مثبت انداز میں بیشتر اخبارات کی وساطت سے ظاہر کئے ۔اپریل 2014میں میر واعظ مولوی عمر فاروق نے بھارتیوں کو ایک کھلا خط اسال کیا اور یہ خط ملک کے مشہور روزنامے میں شائع ہوا تھا ۔ خط بھارت کے لئے لمحہ فکریہ اور ایک بہت بڑا پیغام بھی تھا۔ میر واعظ لکھتے ہیں کہ بھارت اس وقت دُنیا میں ایک طاقتور ملک بننے کے خواب دیکھ رہا ہے اور اس بھاگم دوڑ میں بھارت کروڑوں پیسہ جدید ہتھیار خریدنے میں خرچ کر رہا ہے ۔ بھارت خود کو فوجی طاقت دینے کے لئے جو بھی طور طریقے آزما رہا ہے ، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسے کس قدر مسلٔہ کشمیر کے سبب سیکورٹی خطرات درپیش ہیں۔ ان خطرات کی وجہ سے بھارت پانی کی طرح اپنے شہریوں کا ٹیکس پیسے کی صورت میں غیر پیداواری امور پر بہارہا ہے ۔اس وجہ سے ترقیاتی کاموں کے لئے بہت کم وسائل اور خرچہ دستیاب رہتے ہیں۔بھارت اس وقت 2لاکھ 75ہزار کروڑ روپے سالانہ اپنے فوج پر خرچ کر رہا ہے ، اور ساتھ میں barc,isro, drdo,اور دیگر دفاعی ادارے مزائیل ٹیسٹ کی اس دوڑ میں لگے ہیں۔ 2016میں بھارت نے فرانس کے ساتھ ایک اعلیٰ درجے کے معاہدہ پر دستخط کئے جس کی رُوسے بھارت نے فرانس سے 36 rafale fighter jetsخریدنے کی ڈیل سائین کی۔ ان جنگی جہازوں کی قیمت آٹھ بلین ڈالرس ہے اور انہیں بھارت لانے میں پانچ سال کا وقت لگے گا۔ یہ جہاز بھارت نے صرف اس لئے خریدے ہیں کیوں کہ حکومت ہند کا ماننا ہے کہ پاکستان اور چین سے درپیش سیکورٹی خطرات کا مقابلہ کیا جاسکے۔یہ صرف پاکستان اور چین کی بے چینی ہے جس نے بھارت کو اضطراب میں مبتلا کیا ہے اور اس کے لئے دنیا میں سپر پاور بننے کا خواب انہی دو ملکوں کی وجہ سے ٹوٹ جاتا ہے ۔ ساتھ میں انہی دو ملکوں کی وجہ سے بھارت اتنی بڑی تعداد میں رقم خرچ کر رہا ہے کہ اگر یہ پیسہ لوگوں کی فلاح کے لئے خرچ کیا جاتا تو بھارت میں آج 194؍ملین بھوکے لوگ نہیں ہوتے، 1.7؍ملین لوگ رات کو سڑکوں پر نہیں سوتے،2000لوگوں کے لئے صرف ایک ہی ڈاکٹر میسر نہیں ہوتا،86ملین لوگ اَن پڑھ نہیں ہوتے اور نہ ہی یہاں بھارت میں جاہلوں کی اتنی بڑی تعداد ہوتی ، جنہیں میڈیا کی طرف سے اصلی حقیقت سے بالکل مختلف کہانیاں سنائی جاتی ہیں ۔ مسلٔہ کشمیر کا دیر پا حل نہ صرف بھارت کے لئے امن و خوشحالی کا دروازہ کھول سکتا ہے بلکہ ایشیاء میں بھی اس کے خوش گوار سماجی اور معاشی اثرات سودمند ثبت ہو سکتے ہیں۔ کشمیر بھارت کے لئے کوئی بھی بیش بہا خزانہ نہیں ہے ، بلکہ جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے پاکستان اور انڈیا کے مابین sandwich valleyبنا ہے ۔ یہ دو ہاتھیوں ہندوستان اور پاکستان کے بیچ میں اُگی وہ گھاس ہے جس پر اگر دوسانڈ لڑیں تو گھاس ہی کی شامت آجانی ہے۔ یہ دو نوں ملکوں کے لئے crazy itemہے اور اس کا متنازعہ رہنا اقوام متحدہ سے لے کر امریکہ تک ہر کس وناکس کو پسند یدہ ہے ۔کسی بھی سپر پاور ملک کی یہ خواہش نہیں ہے کہ مسلٔہ کشمیر حل ہو یا ہند پاک کے درمیان امن کی بحالی ہو۔انہیں یہ پیش بینی ہے کہ اگر ان دو ملکوں کے بیچ میں دوستانہ تعلقات رہے تویہ چین ،امریکہ،برطانیہ،فرانس اور روس کو معیشت میں پچھاڑ سکتے ہیں،ساتھ میں اگر ایشیائی ممالک ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، مینمار، افغانستان،نیپال وغیرہ میں امن کا بول بالا ہوا تو مغربی ممالک کے مہنگے ہتھیار اور جنگی جہاز کون خریدے گا؟ ان ترقی یافتہ ملکوں کی صرف ایک ہی سازش یاکوشش ہے کہ یا تو خود ترقی کرو یا ہی دوسرے ملکوں کو ترقی کرنے سے روک دو ۔ یہی عمل یہاں برصغیر میں بھی ہو رہا ہے ۔ ہندوستان مغربی ملکوں سے اعلیٰ درجے کے میزائیل خریدنے لگا ہے اور عوامی ٹیکس کا پیسہ اسلحہ ساز مغربی ملکوں کی طرف روانہ کرتا ہے ، اس کینسر کو ہم اقتصادی ڈرین قرار دے سکتے ہیں۔اگر ہندوستان کو کشمیر کا مسئلہ درپیش نہیں ہوتا تو اس کی دفاعی پالیسی اس قدر بے سود نہیں ہوتی۔ مسلٔہ کشمیر کی وجہ ہندوستان کو پاکستان کا مسلٔہ بھی درپیش ہے اور حکومت ہند کے لئے اس پس منظر میں پاکستان کو دشمن قرار دینا اس قد ر اہم بنا ہے کہ اگر اس ملک کے ساتھ کوئی بھی امن بحالی کی بات کی جائے تو اس پر ہندوستا ن کے لوگ ناراض ہو جائیں گے کیونکہ مائنڈ سیٹ ہی کچھ ان خطوط پر منظم کیا جاچکاہے ۔ پو چھا جا سکتا ہے کہ اگر بھارت پاکستان سرحدیں پنجاب ، گجرات اور راجستھان میں بھی ملتی ہیں تو وہاں یہ تناؤ اور کشیدگی کیوں نہیں ہو جاتی ۔ کشمیر ہی اس سارے جارحانہ کھیل میں idealکیوں بنایا گیا ہے؟ یہ کہنا بجا ہو گا کہ بھارت اس وقت کشمیر میں نامساعد حالات پر قابو پانے کے لئے مختلف طور طریقے آزما رہا ہے ، مگر ساتھ ہی یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر بھارت کی فوج سرحدوں پر اس قدر چوکسی برت رہی ہے اور دلیری کا مظاہرہ کر رہی ہے تو پھر سرحد پار سے جنگ جو نوجوان کہاں سے واردِ کشمیر ہوتے ہیں ؟ کیا ا س سے بھارت کی انٹیلی جنس پر سوالیہ نشان نہیں لگتا؟ یہاں شہیدوں پر پھر بحث کی جاتی ہے کہ کس کے کتنے لوگ جنگ میں شہید ہو گئے مگرمشہور بھارتی صحافی کرن تھاپر نے حال ہی میں کہا کہ کشمیر میں مرنے والے فوجی کو شہید نہیں کہا جا سکتا ۔ جنگ میں شہید اسی کو کہا جاسکتا ہے جو ملک کے دفاع کے لئے لڑے اور یہاں تو لوگ نئی دلی کے مزاج اور دلچسپیوں کے دفاع کے لئے جنگ لڑ ر ہے ہیں اور پچھلے ماہ بھارتی جرنلسٹ شیکھرگپتا نے اپنے ایک کالم میں لکھا کہ ہندوستان کشمیر کو کھو رہا اور اگلے دن ان کی بیوی نے اپنے کالم میں لکھا کہ ہندوستان کشمیر کو نہیں کھو رہا ہے لیکن ہندوستان کشمیریوں کو کھو رہا ہے کیوں کہ اگر لوگ اپنے ہوں تو ان کے خلاف اعلان جنگ نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ جب 2016میں بھارتی ریاست ہریانہ میں جاٹ ایجی ٹیشن شروع ہوئی تو وہ نوکریوں میں reservationکی مانگ کرتے تھے۔ دوران احتجاج مظاہرین نے سو سے زائد سرکاری بسیں نذر آتش کیں، ہزاروں کی تعداد میں پولیس اہلکار زخمی ہوئے اور ایک اخبار میں یہ بھی آیا کہ ہریانہ پولیس کے بیشتر آفسران مظاہرین سے ڈر کے رو پوش ہوگئے ، مگر ان مظاہرین پر کوئی بھی سرکاری آفت نہیں ڈھائی گئی اور نہ ہی پلیٹ یا بلیٹ کا استعمال کیا گیااور اس آندھولن کے بعد اسی سال جولائی میں یہاں بھی مظاہرے اُمڈ آئے تو بیلٹ اور پلیٹ کا آزادنہ استعمال کیا گیا۔اس دوران اپنے اور پرائے لوگوں میں اپنائے جارہے دوہرے معیار کی پالیسی بھی سامنے آئی۔مغربی ممالک ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ ان ایشیائی لوگوں پر راج کرنا ہو تو ان کی پیٹ پر راج کرو ، ان کے دل اور دماغ از خود آپ کے ہو جائیں گے ، بھارت اسی محاورے کو کشمیر کے لئے اپنا رہا ہے اور اس مسئلے کو developmental warقرار دے کر یہاں بد امنی کے سودے میں مال وزر لگارہا ہے ۔ نئی دلی میں راج تاج کی مالک سرکار خود کو حکومت تصور کرنے کے بجائے محض ایک سخت گیر سیاسی پارٹی ہی تصور کر رہی ہے ،جس کے منشور میں ملک کے اہم مسائل کا حل کوئی اہمیت نہیں رکھتا بلکہ اس کے سیاسی نصاب میں تباہی مچانے کا درس لکھا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کا کوئی منصفانہ ا ور سستا حل تلاش کرنے کے بجائے نئی دلی اس کام دھندے میں بری طرح لگی ہے کہ کشمیر میں پلیٹ یا بلٹ استعمال کیا جائے ، یہاں ریاست کی معاشی خو دمختاری کو لوٹ کر جی ایس ٹی لاگو کیا جائے وغیرہ وغیرہ ۔کشمیر کے حل کے لئے یہ چیزیں کوئی خاطر خواہ مثبت نتائج ثابت نہیں لا سکتے ہیں ۔ لوگوں کے دل جیتنے کے بجائے یہاں سب لوگوں کے دل رنجیدہ کئے جا رہے ہیں ۔ ایک مرتبہ یہاں ایک معروف وکیل نے اپنے فیس بک میں بجاطور لکھا کہ مجھے رنجیدہ کرنے کے بجائے اگر ہندوستان میر ا مسئلہ حل کرے گا تو میں سب سے بہترین ہندوستانی ثابت ہو سکتا ہوں۔ وقت کی اشد ضرورت یہ ہے کہ کشمیر مسئلے کا کوئی منصفانہ ا ور لائق تحسین دائمی حل تلاش کیا جائے اور ساتھ میں فوجی جنرل بپین راوت جیسے لوگوں کو کشمیر پر سیاسی بیان بازیاںکرنے سے مکمل طور روکا جائے تاکہ معاملہ فوجی طاقت اور کشمیریوں کے نہتے پن کے مابین میں اٹک کر مزید مصائب وآلام کا باعث نہ بنے۔ بھارت کو بیرون سے زیادہ اندورن سے خطرہ ہے اور یہ چنتا سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ نے بھی ایک بار کھلے عام ظاہر کی۔ بھارت کو شمال میں کشمیر ، پنجاب میں خالصتان ، آسام میں بوڈواور دس ریاستوں میں ماؤ ادیوں سے خطرات لاحق ہیں جو کہ اس کی سلامتی اور ترقی کے لئے کبھی بھی بدشگون ثابت سکتے ہیں ۔ نئی دلی ان سب چیزوں کو کہاں تک ٹال سکتی ہے؟ بہتر یہی ہے کہ اس قضیہ کو حل کر کے بھارت کے تمام مادی وسائل کو تعمیر وترقی کے لئے بروئے کار لایا جائے۔ یہی ایک واحد راستہ جس سے نہ صرف کشمیر کے شہر ودیہات میں ملک سرحدوں پر بھی امن وآشتی کے چراغ روشن ہوسکتے ہیں ۔
نوٹ :مضمون نگار کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ صحافت سے فارغ ہیں [email protected]پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔