کشمیر کو پورے عالم میں دو وجوہات کی بنیاد پر اختصاص حاصل ہے۔ ایک یہ کہ اِسے جنت نما وادی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور ہر سال سرما ، گرما، بہار اور پَت جھڑ میں پوری دنیا سے ہندوستانی و غیرہندوستانی سیّاح ( کشمیر کے بُرے حالات سے نابلد )یہاںکی خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے کے لیے واردِ کشمیر ہوتے ہیں۔ دوسری وجہ جو کہ دنیا کو کشمیر کی جانب متوجہ کرتی ہے وہ سرزمین کشمیر کے خون آشام اور شورش زدہ حالات ہیں ۔ دنیا کا ایک وسیع حلقہ ہے کہ جس کے نزدیک کشمیر ایک ڈرائونی جگہ کا نام ہے جہاں پر آگ و آہن اور قتل و غارت رقصاں ہے اورجہاں پر انسانوں کو مارنے کا کھیل جاری و ساری ہے۔یہ کشمیر کے دو پہلو ہیں اور سچ پوچھئے تو اِن دو پہلو ئوں میں آخر الذکر پہلو ہی کشمیر کی اصل پہچان بن چکی ہے۔
کشمیر میں دراصل آگ و آہن، افراتفری اور قتل و غارت کا یہ کھیل شروع ہوا کہاں سے ؟ تاریخِ کشمیر کے پنے جب پلٹائے جاتے ہیں تو ہم بآسانی اِس سوال کا جواب ڈھونڈپاتے ہیں۔ بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں میں کشمیر کے سیاسی، معاشی، معاشرتی اور مذہبی حالات انتشار، غیر یقینیت اور پژمردگی کا شکار تھے۔ وجہ تھی ڈوگرہ حکمرانوں کی کشمیریوں کے تئیں متعصب اور ظالمانہ حکومتی پالیسیاں۔ کشمیر میں اُس وقت کا دور ڈوگرہ حکمرانوں کا دور دورہ تھاجس میں سیاسی اور معاشرتی حقو ق کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کے مذہبی حقوق پر بھی تیشہ چلایا جاتا تھالیکن متذکرہ صدی کے تیسرے عشرے میں ڈوگرہ حکمرانوں کی صریح زیادتیوں اور ظلم و جبر کے خلاف کشمیریوں نے عَلم بغاوت بلند کیا ۔مسلم کانفرنس کے بینر تلے چند کشمیریوں نے پوری کشمیری قوم کے احساسات و جذبات کی ترجمانی کا بیڑا اُٹھایا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا کشمیر ڈوگرہ حکومت کے خلاف صف آراء ہوا لیکن چند ہی سال بعد اسلامی جذبے سے سرشار ہو کر معرضِ وجود میں لائی گئی مسلم کانفرنس کو شیخ عبداللہ نے نیشنل کانفرنس میں مبدل کر کے سیکولر ازم (لادینیت) میں اسے ضم کر دیا اور مظلوم کشمیریوں کے احساسات و جذبات سے کھلواڑ ہی نہ کیا بلکہ ظالم اور مظلوم کو خلط ملط کرکے اپنا سکہ جمایا مگر کشمیری قوم دو متحارب مکاتبِ فکر میں منقسم ہوگئی: ایک کا مطمح نظر ڈوگرہ حکمرانی اور نظام جبرسے مکمل آزادی تھا ،دوسرے کی منزل کرسی ٔ اقتدار تھی ۔ بعد ازاں ڈوگرہ راج کے خلاف قومیت اور لادینیت پر مبنی نیشنلی تحریک کو مہاراجی حکومت سے کوئی پُر خاش نہ رہی بلکہ اس کی لڑائی اقتدار کی بندر بانٹ تھی ۔ بالآخر تقسیمِ ہند نے برصغیر میں جب سیاسی نقشہ ہی بدل ڈالا تو ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ نے خود کو عوامی مزاحمت کے سامنے خود کو بے دست وپا دیکھ کر رات کے اندھیرے میںلامحالہ کشمیر سے راہ فرار لیناپڑی۔مہاراجہ ہری سنگھ کاکرسیٔ اقتدار کو خیر باد کہنا تھا کہ معاًکشمیر کے مستقبل کاسوال پیدا ہوا کہ آیا کشمیر ہندوستان کے ساتھ الحاق کرے یا پاکستان کے ساتھ اپنا دائمی رشتہ اُستوار کرے۔ آج سے قریب ۷۰ سال قبل کی وہ گھڑی دراصل ایک نازک اور فیصلہ کن گھڑی تھی جس میں وقت کے لیڈر اپنی خود غرضانہ سوچ اور اربابِ حل و عقد کی ڈانواں ڈول پالیسی کے سبب کشمیرکے متعلق کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا جاسکا اور یوںکشمیر ایک بڑی ’’ مصیبت ‘‘ میں مبتلا ہو گیا جس کا خمیازہ آج کل کشمیریوں کی تیسری اور چوتھی پیڑھی بھگت رہی ہے۔
تقسیم ِ ہند کے اس موقع پر ریاست جموں و کشمیر کو ہندوستان یا پاکستان میں سے کسی ایک ملک کے ساتھ اپنا دائمی سیاسی رشتہ قائم کر نے کا موقع نہ دیا گیا۔ اگرچہ قبائلی یلغار کے پس منظر میں مفرور مہاراجہ کے توسط سے ہندوستان نے ’’ الحاقِ ہندوستان‘‘ کو عملی شکل دینے میں کامیابی حاصل کی لیکن اُس دور کے حالات کا غور سے مطالعہ کرکے یہ بات اظہر من الشمس ہوتی ہے کہ وہ الحاق دراصل ایک عارضی اور مشروط الحاق تھا کیونکہ اوّل تو مہاراجہ کشمیر میںعوامی مخالفت کے سبب اپنی Absolute Authority کھو چکا تھا، لہٰذا ُسے کشمیر کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کا کوئی قانونی اور اخلاقی حق حاصل نہیں تھا۔ دوم، یہ مشروط الحاق ’’ تقسیم ہندکے اصول‘‘(علاقوں کی سرحدوںکاتعین مذہب اور جغرافیائی حالات کے پیشِ نظر کیا جائے گا ) کے عین خلاف تھا۔
الغرض کشمیریوں سے اُن کی رائے جانے بغیر ہی کشمیر کا فیصلہ کیا گیا لیکن اس فیصلہ کے خلاف یہاں روزِ اول سے ہی ایک مضبوط عوامی آوازاپنی پوری آب و تاب کے ساتھ بلند ہوتی رہی اور شاید اسی آواز میں ناقابل تسخیر زورکے نتیجے میں ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت نہرو کو ازخود مسئلہ کشمیر اقوامِ متحدہ میں لے جانا پڑا۔ علاوہ ازیں سرینگر کے تاریخی لالچوک میں وزیر اعظم موصوف نے کشمیر یوں سے اُن کی رائے کا احترام کرکے اُنھیں حقِ خود ارادیت دینے کا وعدہ بھی کیا لیکن تب سے لے کرآج تک کیا ہوا، یہ ایک کھلی کتاب کی مانند سبھی کے سامنے عیاں ہے ۔اہل کشمیر کے ساتھ کس قدروعدہ خلافیاں، بد دیانتیاں ، دھوکہ بازیاں کی گئیں بلکہ کشمیریوں کی مبنی برحق آواز کو دبانے کے لئے بعد ازاں ظلم وتشدد کے اوچھے حربے اپنائے اور آزمائے گئے جن کے باوجودیہ مظلومانہ آواز مسلسل پنپتی رہی اور ۴۷ء سے لے کر آج تک مختلف ادوار اور محاذوں سے گذر کر یہ آواز اپنی شدت اور تاثیر برقرار رکھے ہوئی ہے۔
یہ عوامی آواز اصل میں ہے کیا؟ اس سوال پرتھوڑاسا غور و فکر کرنے کے بعد خود بخود یہ حقیقت مترشح ہوتی ہے کہ یہ دراصل اُس گھٹا ٹوپ اندھیرے کا ردِ عمل ہے جو کہ ایک عرصہ سے قومِ کشمیر پر چھایا ہوا ہے۔ اس آواز کو معنویت ، وسعت اور تاثیر وتقدس بخشتے ہوئے کشمیری نوجوانوںنے اپنا پاک لہو نچھاورکیا، نونہالوں نے اپنی ننھی ننھی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ، معلوم و نامعلوم قبریں آباد کیں ، تباہیاں برداشت کیں ، مصیبتیں اُٹھائیں ،پیلٹ کھائے اور مائوں بہنوں کی عصمتیں قربان ہوئیں اوریہ اندھ کاری سلسلہ ہنوز جاری ہے۔اس سچی آواز کو پنپنے اور مضبوطی عطا کرنے میں جہاںکئی مخلص لوگوں کو اپنا صبر وخلوص آزمانے کے مواقع نصیب ہوئے،وہاں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اسی آواز کو پائیدان بناکر کئی خود غرض لوگوں اور سیاسی جماعتوں نے اپنے سیاسی محل بنائے اورکشمیریوں کو اس بلاو مصیبت سے نجات دلانے کے جھوٹے وعدے کئے۔ رفتہ رفتہ ــ سیاست کو منافع بخش کاروباربنانے والے ان سیاست دانوں کی مکاری اور دھوکہ دہی کی پول کھلتی گئی۔ اتریخ گواہ ہے کہ اس آواز کوا پنی داشتہ بنانے کے لئے یہاں’’رائے شماری ‘‘کے نام پر کشمیریوں کو متحد ومنظم کرنے والوںاور ان سے بیش بہا قربانیاں لینے والوں نے آخر پر رائے شماری کی ساری کی ساری جدوجہد کو ’’ سیاسی آوارہ گردی‘‘ سے تعبیر کر کے اپنی کرسی کو بوسے دئے اور لوگوں کے اصل جذبات کو تھوک بھاؤ میں نیلام کیا۔ کشمیر یوں کے مسئلہ کو اقوامِ متحدہ میں لے جانے والے بھارتی نیتاؤں نے انہی اقتداری مجنونوں اور گھر کے بھیدیوںکے سہارے وعدہ خلافیاں اورظلم و جبر کے پھاٹک کھول کر کشمیریوں کو اتنا ڈسا کہ آج سات لاکھ فوجیں افسپا کی آڑ میں کشمیر کے اندر بشری حقوق کی تمام حدیں پار کر رہی ہیں۔ اٹانومی والوں کی تو بات ہی نہیں سیلف رول کا نعرہ بلند کرنے والے بھی کشمیریوں کے جذبات و احساسات پر کند چھری پھیر کر اب جن سنگھ کی گود میں بیٹھے ہیں اور ناگپورکا کشمیر مشن پورا کر رہے ہیں ۔ آج سیلف رول والوں کی ہم نوائی میں کشمیر کی آئینی شناخت بلاتامل مسخ ہوتی چلی جارہی ہے جب کہ آئے روز مسلمانوں کے سیاسی مفادات کی اَن دیکھی کے ساتھ ساتھ ان کے مذہبی اقدار پر بھی پے در پے حملے کئے جا رہے ہیں۔
نوے کی دہائی میں حالات سے تنگ آکر کشمیریوں نے عوامی احتجاج کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کیا لیکن ان کی معقول اور مبنی بر انصاف آواز سننے کے بجائے ان پر تیر وتفنگ اور نسلی تطہیر یہودی کے حربے آزمائے جارہے ہیں ۔ ۲۰۰۸ء۲۰۱۰ء اور ۲۰۱۶ء میں اس کے ردعمل میں نظام جبریت ومحکومیت کے خلاف عوامی غیظ و غضب بھڑک اٹھا کہ لوگ سڑکوں پر فوج درفوج آکر اپنا صدائے احتجاج بلند کرتے رہے مگر اس کا جواب گولیوں اور چھروں سے دیا گیا کہ دنیا ئے انسانیت ہل گئی ۔ عوام کی اس سیاسی جدوجہد سے مسئلہ کشمیر کو ایک نیا رُخ ملا اور تحریک کشمیر چوتھی نسل میں منتقل ہوگئی۔ کشمیر کا مسئلہ دنیا میں نئے سرے سے وسیع پیمانے پر متعارف ہوا، عالمی الیکٹرانک ا ور پرنٹ میڈیامیں یہ مسئلہ سرفہرست زیر بحث رہا۔میڈیا سے گزرتے ہوئے یہ کہانی سوشل میڈیا پربھی بحث وتمحیص کا گرماگرم موضوع ہوا اور اِسی سوشل میڈیا کے توسط سے برہان وانی کے منظر پس منظر کشمیر کا قضیہ اقوام متحدہ تک کے لئے ایک لمحہ ٔ فکریہ بنا۔ برہان وانی تو خود کشمیر کاز کی راہ میں جاںبحق ہو گئے لیکن ان کی قربانی سے نوجوانوں کی عسکریت میں شمولیت کا نیا سلسلہ شروع ہوا ۔ اس سے یہ مفروضہ ٹوٹ گیا کہ کشمیر نارملسی کی پٹری پر آگیا بلکہ پڑھے لکھے نوجوانوں کا عسکریت میں شامل ہونا اور’’ آوپریشن آل آؤٹ ‘‘ کی غیر معمولی دھوم دو ایسی تلخ حقیقتیں ہیں جس پر ایک سابقہ اعلیٰ فوجی کمانڈر کا یہ تبصرہ کہ کشمیر میں ملی ٹنٹوں کا ماراجانا ہماری ہار کا اعلامیہ ہے ۔ انڈیا کی سیاسی قیادت کو سمجھنا چاہیے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ دسویں جماعت کے کم عمر طالب علم سے لے کرپی ایچ ڈی کے اسکالرس تک عسکریت میں شمولیت کا رحجان پروان چڑھ رہاہے۔ گزشتہ سال ۱۵؍ اگست کے موقع پر وزیراعظم مودی نے لال قلعہ کی فصیل سے اپنے خطاب میں صحیح کہا کہ ’’ کشمیر کو گولی اور کالی سے نہیں کشمیری کو گلے لگانے سے حل کر نا ہوگا‘‘ لیکن کام اس کے برعکس ہورہاہے ، ڈائیلاگ کے راستے پر ڈیڈلاک کی پسیاں ہیں ، سرحدوں پر جنگ کا سماں ہے ، ماراماری کا جنوں عروج پر ہے ۔ اسی فضا میں ہم اور آپ دیکھتے ہیں کہ پی ایچ ڈی کر نے والا منان وانی مسئلہ کشمیر کا تازہ پروڈکٹ برانڈ بن رہاہے۔منان کوئی عام نوجوان نہیں کہ بے روزگاری نے ستایا بلکہ شاید ا ُسے وطن میں حال کی تاریکی اور مستقبل کی بے جہتی نے اتنا دلبرداشتہ کیا کہ بندوق کی راہ پکڑلی۔ وہ ہندوستان کی ریاست اُترپردیش کی عالمی شہرت یافتہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کر رہا تھا،تعلیمی اعتبار سے انتہائی ذہین اور علومِ ارضیات کا ایک کامیاب اسکالر تھا لیکن سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر عسکری تنظیم حزب المجاہدین میں شمولیت اختیار کر کے اس نے حیدر آباد کے دلت ریسرچ اسکالر روہت ویمولا کی طرح دنیا کو سوچنے سمجھنے کا کوئی ٹھوس پیغام دیا ۔ منان وانی کو لے کر میڈیائی مباحثہ جاری ہے۔ ایک بڑی یونیورسٹی کا اسکالر ہونے کے باوجود عسکریت کا پُرخطر راستہ اختیار کرنے پر اُس کے اساتذہ اور دوست واحباب انگشت بدنداں ہیں بلکہ اُس کے اپنے والدین تک اُس سے اپنے فیصلہ پرنظر ثانی کرکے واپس لوٹنے کے لیے منت سماجت کر رہے ہیں۔
(بقیہ سنیچر کے شمارے میں ملاحطہ فرمائیں)