سرینگر//پردیش کانگریس کے سابق صدر پروفیسر سیف الدین نے کہا ہے کہ کشمیر کے حالات پر بھارت کی سول سوسائٹی بہت ہی پریشان ہے۔ پروفیسر سوز نے کہاکہ حالیہ دنوں کے دوران وہ نئی دہلی یہ بات جانے کیلئے گئے کہ بھارتی کی سول سوسائٹی کشمیر کے بار میں کیاسوچتی ہے جہاں (وادی) میں قتل وغارت کا بازار گرم ہے اور نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اور طلباءو طالبات نہایت ہی اضطراب کی زندگی گذار رہے ہیں ۔اس صورتحال کا ایک منظر یہ بھی ہے کہ انتظامیہ کبھی نیٹ ورک بند کرتی ہے اور کبھی سوشل میڈیا پر ٹوٹ پڑتی ہے۔پروفیسر سوز نے کہاکہ ’یہاں دہلی میں مجھے یہ جانکاری ہوئی کہ ہندوستان کی سول سوسائٹی کشمیر کے بارے میں بہت ہی پریشان ہے، اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ حالیہ سرینگر پارلیمانی ضمنی انتخابا ت میں صرف 7 فیصد لوگوں کی شرکت سے گویا دہلی پہلی بار ہل گئی ہے ‘۔انہوںنے کہاکہ اس پس منظر میں سول سوسائٹی حیران ہے کہ وزیر اعظم مودی کشمیر کی طرف کیوں متوجہ نہیں ہے۔ جہاں اُن کو چلینج کے ساتھ ساتھ کشمیر کی گتھی کو سلجھانے کا ایک اہم موقع بھی فراہم ہو سکتا ہے۔ پروفیسر سوز نے کہاکہ یہاں سول سوسائٹی کا خیال ہے کہ سیاسی اختلافات کے باوجود یہ ماننا پڑے گا کہ بحیثیت وزیر اعظم نریندر مودی کے ہاتھ میں ہی ٹرمپ کارڈ ہے اور اُس کو آگے بڑھ کر براہ راست کشمیر کی طرف پوری توجہ دینی چاہئے۔ دہلی کی صورت حال کا ایک منظر یہ بھی ہے کہ قومی سطح کی اپوزیشن جماعتیں کشمیر کے مسئلے کا حل نکالنے کےلئے مودی کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنے گی بلکہ کانگریس پارٹی سمیت اپوزیشن کی ساری جماعتیں نریندر مودی کو کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کےلئے تعاون دیںگی۔ دہلی کی سیول سوسائٹی نے اس بات کا بھی نوٹس لیا ہے کہ کشمیر میں جہاں مین سٹریم جماعتیں خاک چاٹ رہی ہیں ، وہاں حریت یک جھٹ ہوکر ایک آواز میں بول رہی ہے۔ یہاں کے سیاسی حلقے یہ بھی سوچ رہے ہیں کہ حریت کا یک زبان ہوکر بولنا فائدہ مند ہے کیونکہ اس صورت میں حریت کے ساتھ مفید اور فیصلہ کن بات ہو سکتی ہے۔ “