دیکھتے ہی دیکھتے مودی حکومت کے تین برس پورے ہوگئے۔اخبار اور برقی میڈیا میں اس حکومت کی کارکردگی اور حصول یابیوں کے دعوؤں کا سلسلہ دراز سے دارز تر ہورہا ہے۔ چند ایک کو چھوڑ کر خامیاں گنوانے والا کوئی نہیں اور جوخامیاںبتلا رہے ہیں وہ بھی آٹے میں نمک کے برابر ہیں ۔ بالفاظ دیگر تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ ان تین برسوں میںسب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے۔حکومت روز بروز ترقی کر رہی ہے، بدعنوانی ختم ہو رہی ہے، لوگوں میں اعتماد بحال ہوا ہے، فوج کے حوصلے بلندہوئے ہیں۔ یہ سب کچھ جو صرف کاغذ پر دکھائی دیتاہے جب کہ حقیقت سے اس کا کوئی واسطہ نہیں۔سچ پوچھئے تومیڈیا نے کمال کر دیا ہے ،اسی لئے ہندوستانی میڈیا کا مقام ۱۸۰؍ ملکوں کے جائزے میں۱۷۸؍ ویں پوزیشن پر ہے۔ پھر بھی ہمارے عوام اسی پر تکیہ کئے جا رہے ہیںاور کر بھی کیا سکتے ہیںکیونکہ ان کے پاس دوسرے آزادذرائع اطلاعات ہیںہی نہیں ۔ میڈیا کے اس چلن یا بدچلنی کہئے ، سے انحراف کرنے والوں کوفوری طور پر غدار وطن قرار دیاجاتا ہے،جن کا فیصلہ پھر بپھری ’’بھیڑ ‘‘کرتی ہے۔
بہر کیف قومی میڈیا اور حکومت جو بھی کہے لیکن کم از کم دو محاذوں پر یہ حکومت ناکام نظر آتی ہے، جنہیں ہم اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اول ملک کی خارجہ پالیسی ،دوم داخلہ پالیسی ۔خارجہ پالیسی پر پھر کبھی گفتگو ہو گی،آئیے داخلی پالیسی کا جائزہ لیتے چلیںجس کے زیر اثر کشمیر میں لگی آگ سرد ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔کشمیر پالیسی روزِ اول سے ( خاص کراِن تین برسوںمیں ) ہمارے لئے وبال جان بنی ہوئی ہے اور ساتھ ہی کشمیریوں کے لئے بھی کافی تکلیف دہ ہے ۔ ہم لاکھ کہیں کہ کشمیر اور کشمیریوں کو سنبھالنے میں ہم’’ کامیاب‘‘ رہے ہیںلیکن یہاں سے’’طاقت کا استعمال‘‘ اگر خارج کر دیں تو اِس کا تجزیہ کرنے میں آسانی ہوگی کہ ہم کتنے کامیاب ہیں ۔بی جے پی کے قومی صدر امت شا جب یہ کہتے ہیں کہ جموںکشمیر میں صرف ’’دو ڈھائی اضلاع ‘‘ شورش زدہ ہیں اور باقی پوری ریاست شورش سے پاک ہے تو ان کے اس بیان سے کشمیر ی اختلاف کرتے ہوئے بھی تھوڑی دیر کے لئے اتفاق کر لینا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب امت شاکو اپنے مذکورہ بیان پر اعتماد ہے توپھر مسئلہ کیا ہے؟ صرف دو ڈھائی اضلاع ہی شورش زدہ ہیں ،مطلب یہ کہ بقیہ اضلاع اور لوگ ان کے ساتھ ہیں اور ان کی پالیسی کو ہری جھنڈی دکھا رہے ہیں۔
منی شنکر ایئرایک پرائیوٹ ٹیم لے کر کشمیر جاتے ہیں اور جب دوسروںکے علاوہ حریت کے لیڈروں سے ملتے ہیںتو میڈیا انہیں ’’دلالوں سے ملاقات‘ ‘کا طعنہ دیتا ہے اور کانگریس کو بھی غدار اور دھوکے باز ٹھہرانے سے باز نہیں آتالیکن جب یشونت سنہا ان سے ملتے ہیں اور متعدد بار ملتے ہیں تو وہ نہ غدار کہلاتے نہ دلال۔اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قومی میڈیا کا ایک بڑا حصہ حکومت کاترجمان بن گیا ہے۔کشمیر کے مسئلے کو اس نے اس طرح سے پیش کیا ہے اور کر رہا ہے جن کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ۔کشمیر کے تمام شہر بلکہ دیہات بھی رواں دواں ہیں ،زندگی سڑکوں پر دوڑ رہی ہے،تمام کاروبارِحیات حسبِ سابق چل رہاہے ۔ کشمیری نہایت ہی ملنسار، مدد گار اور محبت کرنے والے ہیں اور مہمان نوازی میں تو سب سے آگے۔ایک گھوڑا چلانے والا بھی(پہاڑوں پر سیاح گھوڑوں سے ہی جاتے ہیں )چائے کے پیسے دینے کی بات کرتا ہے جب کہ وہ مزدور ہے یعنی گھوڑے کا مالک وہ نہیں بلکہ وہ دہاڑی پر کام کرتا ہے۔ہم نے گزشتہ ہفتے کے اپنے سفر میں بیشتر کشمیریوں کو نارمل دیکھا۔’’نارمل‘‘ سے مراد یہ ہے کہ وہ غصہ نہیں کرتے،تشدد کی بات نہیں کرتے اور بہتوں نے تو یہاں تک کہا کہ ’’دیکھئے، غور سے دیکھئے!کیا میں دہشت گرد لگتا ہوں‘‘؟اس کے علاوہ کبھی بھی یہ نہیں سنا گیا کہ کشمیریوں نے سیاحوں کوکسی طرح کا کوئی نقصان پہنچایا ہو۔
کشمیر کے چند علاقوں میں حالات خراب ہو سکتے ہیں،یقیناً وادی میں امن عامہ غارت ہوا ہے لیکن ہندوستان کے دوسرے شہروں میں اسی طرح کے واقعات تقریباً روز رونما ہو رہے ہیں ۔بندوق دکھا کر مظفر نگر(یوپی) کے قریب چار مسلم خواتین کی اجتماعی عصمت دری اور احتجاج کرنے پر خاندان کے ایک مرد کو گولیوں سے بھون دیا جانا ،کیا یہ لاقانونیت نہیں ؟ واضح رہے کہ یہاں پر میڈیا متاثرہ افراد کا نام فوری نہیں بتلاتا کیونکہ اسے یوگی حکومت کا دفاع مقصود ہے۔یہ ابھی کاواقعہ ہے ۔اسی طرح چند روز قبل ہی جھارکھنڈ کے جمشید پور میں بچہ چوری کے الزام میں ہجوم کے ذریعے ۷؍افراد کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالا گیا جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ قتل عمد کے ان دل دہلانے والے المیوں کو کس زمرے میں رکھیں گے؟ابھی ابھی سہارن پور میںدلتوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے،اس انتہائی ظلم وتشدد کا کیاعنوان دیں گے؟اس سے پہلے بھی اسی قبیل کے بے شمار واقعات مختلف شہروں میں رونما ہوچکے ہیں۔دوسری جگہوں پراس طرح کے فعل ِشنیعہ انجام دینے والے’’ گمراہ‘‘ کہلا سکتے ہیں تو کشمیر کے مشتعل وناراض نوجوانوں کے ساتھ ایسارویہ کیوں نہیں اختیار کیا جا سکتا؟ہماری اس تفریق کی وجہ ہی سے یہ مسئلہ طول پکڑتا جا رہا ہے۔
تمام دنیا کو یہ معلوم ہے کہ کشمیر کی معیشت سیاحت پر منحصر ہے۔جس طرح ابھی اننت ناگ کے ضمنی انتخاب (لوک سبھا) کو ملتوی کیا گیا ہے، اُسی طرح دونوں ضمنی انتخابات یعنی سرینگر اور اننت ناگ کو شروع ہی میں ملتوی کر دینا چاہئے تھا۔حکومت کو یہ بات معلوم تھی کہ ضمنی انتخابات سے ماقبل اور مابعد امن و قانون میں بگاڑ پیدا ہو سکتا ہے کیونکہ انٹیلی جنس بھی کوئی چیز ہے اور اس کا اپنا ایک نیٹ ورک ہے۔اُس وقت انتخابات کاانعقادکیا جانا ناقدین کے اس شبہ کو تقویت دیتا ہے کہ یہ سارا معاملہ سیاحت کو بالراست سبوتاژ کرنا تھا اور ہوا بھی یہی۔خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم۔ عام کشمیریوں کا یہ خیال ہے کہ مرکز جان بوجھ کر اُن کی روزی روٹی پر ڈاکے ڈال رہا ہے۔اس کا مقصد کشمیر کی سیاحت کو ملک کے دوسرے سیاحتی مقام مثلاً کلو منالی ،مسوری ،شملہ و،دارجلنگ ،شیلانگ،گنگٹوک وغیرہ کی جانب منتقل کرنا ہے۔ان کا شبہ اس لئے ہے کیونکہ اس موسم گرما کی چھٹی میں کشمیر کے بیشترہوٹل خالی پڑے رہے اور اب بھی خالی ہیں ،اس وجہ سے کاروبارِ سیاحت سے وابستہ افراد اور ادارے گھروں میں بے کار پڑے ہیں۔مرکز کی انہی بحث طلب پالیسیوں کے سبب کشمیری یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ حکومت چاہتی ہے کہ اہل کشمیر بھوکوں مریں تاکہ تنگ آکریہ اپنی سیاسی کاز کوچھوڑ کرصرف پیٹ کی فکر کریں۔مرکزی حکومت کے ذریعے اس کے ملازمین کو ہر برس ایک خصوصی سیاحتی پیکج دیا جاتا ہے جس میں کشمیر کی سیاحت بھی درج ہے ۔ یہ منموہن سنگھ حکومت کی دین ہے ،لیکن مرکزی حکومت کا شاید ہی کوئی حکومتی اہل کار کشمیر کی سیاحت پر جانے کو تیار ہوکیونکہ وہ دوسری جگہوں پر جانے کو ترجیح دے رہا ہے ۔اس کی ایک بڑی و جہ کشمیر کے تعلق سے میڈیاکا منفی پروپیگنڈہ ہے جس میں وہاں کے حالات ہمیشہ خراب بتائے جاتے ہیں ،چاہے اس کا عشر عشیر بھی وہاں زمینی سطح پر موجود نہ ہو۔ظاہر ہے یہ سب دیکھ اور سن کر کوئی اپنی جان جوکھم میں کیوں ڈالے؟افسوس ہوتا ہے جب ملک کے وزیر اعظم کی جانب سے اس طرح کا بیان جاری کیا جاتاہو کہ کشمیری ٹورزم یا ٹیررازم (سیاحت یا دہشت گردی) میں سے کسی ایک کو چن لیں ۔اس طرح وہ تمام کشمیریوں کو ایک صف میں لا کھڑا کرتے ہیں ۔اب یہی دیکھئے کہ میجر گوگوئی کو انعام سے نواز دیا گیا۔انعام دینے سے پہلے اس بات کا خیال بھی نہیں رکھا گیا کہ قومی اور ریاستی حقوق انسانی کمیشنوںمیں ان پر مقدمہ زیر سماعت ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ جموں کشمیر کے ڈائریکٹر جنرل پولیس کے پاس اس کیس سے متعلق ایک ایف آئی آر بھی درج ہے ۔
اس طرح کے واقعات کشمیر ہی نہیں بلکہ کسی بھی شہریا ریاست کے حالات خراب کرسکتے ہیں۔میڈیا ئی رپورٹیں بتلاتی ہیں کہ گزشتہ تین برسوں میں مقامی جنگجوئیت میںخاصا اضافہ ہوا ہے۔یہ جنگجوئیت کافی مدت تک ناپید تھی۔اس ’’پیش رفت ‘‘پر مودی سرکار کو غور کرنا چاہئے کہ ایسا کیوں ہے اور یہ کہ یہ کس کا ’’کارنامہ‘‘ ہے؟ویسے محب وطن عوام حکومت پر چوٹ کر تے ہیں کہ اگر کشمیر کے جلنے سے مودی حکومت اور بی جے پی کو فائدہ مل رہا ہو تو آگ بجھانے کے جتن کیوں کر کئے جائیں گے؟
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو،نئی ممبئی کے مدیر ہیں رابطہ9833999883)