مسلٔہ کشمیر میں زمانہ گذرنے کے ساتھ ساتھ جو پیچیدگیاں دیکھنے کو ملتی رہی ہیں اُس کے پس منظر میں وہ جغرافیائی حقیقتیں کار فرما ہیں جو قدرت کی عطا کردہ ہیںاور جنہیں بدلا نہیں جا سکتا۔جغرافیائی حقائق سے کشمیر کی تاریخ بھی تخلیق ہوئی ہے جیسا کہ دنیا کے کسی بھی خطے کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ جغرافیائی محل و وقوع تاریخی حقائق کی تشکیل کا سبب بنتا ہے۔قوموں کی تقدیرجہاں قدرتی فرمان کے تابع ہے وہی اُس کی نوشت میں رہبری کا خاصہ رول رہتا ہے بشرطیکہ رہبری قدرت کے اُن تعین کردہ اصولوں پہ عمل پیرا رہے جن سے قوموں کی صیح ساخت یا تعمیر ہوتی ہے۔ کہاوت ہے سوختن و ساختن یعنی کسی بھی ساخت میںپہلے سوخت ہے یعنی جلنا پڑتا ہے جس کا مفہوم یہ ہے ساخت میں انتہائی محنت و تدبر سے کام لینا پڑتا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ جہاں بھی کشمیر کو ایسی رہبری نصیب ہوئی جہاں تدبر سے کام لیا گیا وہاں قوم کے نصیب میں فراغت ہی فراغت رہی برعکس اِس کے جہاں رہبری کے قدم ڈگمگائے وہاں قومی راہ میںگوناگوں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جیسا کہ پچھلی کئی صدیوں کی تاریخ کے مشاہدے میں عیاں ہے۔
کشمیر کے دور درخشاں میں وادی کے دفاع کو وسعت بخشنے کی شہ نے ملحقہ علاقوں کی قسمت کو وادی کشمیر کی قسمت سے جوڑ دیا اور84 میل طولانی و 20-25 میل عریض وادی کی بلندیاں اُس کے شمال مشرق میںبلند تر ہونے کے ساتھ ساتھ وادی کو گھیرنے والے بلند و بالا پہاڑوں کے دامن میںجنوب مغربی میدانی علاقے کشمیر سے جڑ گئے۔قدیم جغرافیائی و تاریخی حوالات میں وادی کشمیر کا حدود اربع دلچسپ انداز میں بیاں ہوا ہے چناچہ حدوداربع کی تفصیلات کچھ یوں بیاں ہوئی ہیں:شمال میں (تبت خورد ،تلیل، بلتستان، حصورہؔ، اسکردو)جنوب میں (اکھنور، جموں، پونچھ،نو شہرہ،کشتواڑ،بھدرواہ،جہلم، گجرات و سیالکوٹ) مشرق میں (دراس، زنسکار،سورو،لداخ)مغرب میں (مظفر آباد)۔یہ علاقے کم و بیش یا ایسا کہیں کبھی ایک طرف سے تو کبھی دوسری جانب کشمیر سے منسلک رہتے ہوئے دفاعی تحفظ فراہم کرنے میں ساز گار و مدد گار ثابت ہوئے۔
ملک کشمیر کے ساتھ جموں بھی جڑا رہا لہذا تاریخ کے ایسے ادوار بھی آئے جہاں ریاست کو ریاست جموں و کشمیرکا نام دیا گیا۔آج بھی ریاست اِسی نام سے جانی جاتی ہے۔ ماضی میں اِس ریاست کو ریاست جموں و کشمیر و تبت ہا نامیدہ (نام دیا)گیا۔تبت کی اصلاح پرانے حوالوں میں دلچسپ انداز میں بیاں ہوئی ہے ۔اِسے عالمی چھت [Roof of the World] کہا گیا ہے یعنی جس سیارے [Planet] میں ہم رہ رہے ہیں اُسکی چھت ! اِس سیارے کو لغت انگلیسی میں [Planet Earth] کہا جاتا ہے ۔ تبت جو کہ کشمیر کے شمال میں بڑا ملک ہے اُس کے بہت سے حصے ہیں ایک تو تبت خاص [Mainland] جس کا دارلخلافہ لاسا[Lhasa] ہے ،دوسرا تبت کلاں یا بھوٹان اور تبت خورد لداخ و گلگت (جو کہ بلتستان کے وسط میں واقع ہوتے ہوئے بھی انفرادی حثیت کا حامل ہے) تبت خورد کا دارلخلافہ قدیم حوالوں میں اسکردو ذکر ہوا ہے اور سچ تو یہ ہے کی بلتستان کا ذکر آتے ہی اسکردو ذہن میں آ جاتا ہے۔چین بھارتی صوبے اروناچل پردیش کو جس کو وہ ملک متنازعہ مانتا ہے جنوبی تبت کہتا ہے۔یہ صوبہ بھارت کے شمال مشرق میں واقع ہوا ہے۔
کشمیر کے جغرافیائی محل و قوع نے وادی کشمیر اور اُس سے منسلک خطوں کو رسہ کشی کا سبب بنایا۔تاریخی حادثات و جغرافیائی حقیقتوں نے کشمیر کو وادی تک محدود نہیں رکھا اورمنسلک خطوں کا وادی میں شامل ہونے کو ایک قدرتی تحریک بھی مانا جا سکتا ہے اور اُس کی وجہ یہ ہے کہ 84 میل طولانی اور چوڑائی ) میں شمال مغرب سے جنوب مشرق تک20-25 میل وادی کا دفاع منسلک خطوں کی شمولیت کے بغیر نا ممکن تھا ۔دفاع کی اِنہی مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے للتا دتیہ مکتا پیڈ کے زمانے سے ہی کشمیر کے ہندو دور کے سمجھ بوجھ رکھنے والے راجاؤں اور مسلم دور میں ذہین سلاطین نے کشمیر کی سرحدوں کو وسعت دینے کی کوشش کی تاکہ منسلک خطوں کی شمولت سے کشمیر کو دفاعی گہرائی فراہم ہو اور وادی کسی کی میلی آنکھ کا شکار نہ ہو سکے۔ہندو راجاؤں میں سر فہرست ہیں للتا دتیہ مکتا پیڈ اور مسلمان سلاطین میں شہاب الدین شہمیری (1354-1373 A.D) بعد مسیح ؑجن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ وسط ایشیا کی گہرائی میں کشمیر کے دفاع کے متلاشی رہتے تھے ۔ شہاب الدین کی عظمت کو علامہ اقبالؒ نے یوں خراج عقیدت پیش کیا ہے:
مدتہا گل رخت بر بست و کشاد
خاک ما دیگر شہاب الدین نزاد!
مدتوں پہلے گل (پھول البتہ فارسی میں گل اکثر و بیشتر گلاب کو کہا جا تا ہے) نے رخت (سامان زیست۔زندگی گذارنے کا وسیلہ) بر بست (باندھ لیا) و کشاد (مخفی یا راہ کو چھوٹا کرگیا) مطلب لفظی نہیں بلکہ معنوی ہے ، گل کا مطلب قومی روح ہے جو روٹھ کے چلی گئی ہے اور ہماری خاک سے دوسرا شہاب الدین پیدا نہیں ہوا! جو بات صفحات کے صفحات سیاہ کر کے کئی کتابیں رقم کر کے تشنہ بیاں رہ جائے اُسے گہرے تاریخی طنز یہ لہجہ اپنائے ہوئے ایک قطعہ شعر میں باندھنا علامہ اقبالؒ کا ہی کمال ہے ! شہاب الدین کے بعد بڈ شاہ سلطان زین العابدین کے پچاس سال دور سلطنت[1420-70 A.D] بعد مسیح ؑکاذکر ہمارا درخشاں تاریخی سرمایہ ہے۔1470 ء سے 1586ء تک 116 سالہ دور تاریخی کو ایک سیاہ باب ہی قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ اِس دوراں 23بارتاج و تخت کی بدلی ہوئی اور 16سلاطین سریر آرائے مملکت قرار پائے جن میں کئی دو بار اور ایک تین بارسلطان مقرر ہوئے۔اِن میں سے کچھ تو مہینہ بھر کیلئے بھی سلطانی کا بوجھ سنبھال نہ سکے۔سلاطین کی فہرست اتنی لمبی ہو گئی کہ مزار سلاطین میں اُن کو دفنانے کی جگہ ہی نہیں رہی چناچہ اِن بد بخت سلاطین میں سے ایک شہمیری شاہی خاندان کے آخری تاجدار سلطان حبیب [1554-55 A.D] بعد مسیح ؑجو شاعرانہ ذوق رکھتے تھے جب اپنے اجداد کے روضہ کی زیارت کو گئے تو حسرت سے کہہ بیٹھے:
در زیارت روضہ اجداد خود سلطان حبیب
دید و گفت انجا جائے تنگ گردد عنقریب
صفہ و دروازہ دیگربہ پہلویش فزود
تا از این روضہ نگردد ہیچ شاہے بد نصیب!
اپنے اجدادکے روضے کی زیارت کو گئے ہوئے سلطان حبیب (در زیارت روضہ اجداد خود سلطان حبیب) نے روضہ دیکھ کے کہا (دید و گفت) یہاں جگہ جلدی تنگ ہو جائے گی ( تنگ گردد عنقریب) ایک اور جائے با صفا بنانی پڑے گی اور ایک اور دروازہ (صفہ و دروازہ دیگر) اِس جگہ کے پہلو یا بغل میں کھولناپڑے گا (بہ پہلویش فزود) تاکہ یہ روضہ (تا این روضہ) کسی اور بد نصیب شاہ کے حصے میں نہ آئے (نگردد ہیچ شاہے بد نصیب)! حبیب شاہمیری کو کیا معلوم تھا کہ تاریخ اُن جیسے ضعیف شاہوں کا ساتھ نہیں دیتی نہ ہی قسمت کی دیوی اُن پہ مسکراتی ہے ۔ سلطان حبیب کے بعد شاہمیریوں میں سے نہ کوئی سلطان بنا نہ ہی کسی اور کو مزار میں جگہ ہی ملی!1555ء میں درباریوں میں سے سب سے زورآور غازی چک نے تاج و تخت پہ قبضہ کیا اُن کے بھائی علی چک نے بھرے دربار میں تاج سلطان حبیب کے سر سے اٹھا کے غازی چک کے سر پہ رکھا اور سلطان حبیب دیکھتے ہی رہ گئے ۔1586ء تک چک خاندان نے حکومت کی جن میں آخری شاہ کشمیر یوسف شاہ بھی شامل رہے، چک خاندان میں بھی تخت و تاج کے کئی دعویدار پیدا ہوئے اور انجام کار یوسف شاہ چک و لوہار چک کی باہمی زور آزمائی نے شہنشاہ اکبر کے لئے کشمیر پہ مسلط ہونے کی راہ ہموار کی۔ یوسف شاہ کو ملکی امنیت سے زیادہ سازکی فکر رہتی تھی جس سے ہماری تقدیر ہی ہم سے روٹھ بیٹھی۔بقول اقبالؒ:
میں تم کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول طاوس و رباب آخر!
چکوںکے دور حکومت تک پہنچتے پہنچتے کشمیر کی وسعتیں سمٹ کر وادی تک ہی محدود ہو چکی تھی اور وہ دفاعی گہرائی جو للتا دتیہ جیسے سورماؤں و شہاب الدین جیسے دلیر و جانباز سلاطین نے وادی کو عطا کی یاد پارینہ بن چکی تھی۔قومی روح کی باز یابی کی راہ میں بڈ شاہ کے بعد کوتاہ بین شاہاں کشمیر نے تو پہلے ہی سے کانٹوں بوئے تھے اور خارجی حکمرانوں نے راہوں کو مزید خاردار بنایا اور محدالدین فوق جیسے محب وطن چلا اٹھے:
لوٹ ایک بار پھر اے روح زین العابدین
جنت کشمیر کو پھر دیکھ اے جنت نشین!
کوہ ہمالہ سے وابستہ سلسلہ پامیر کے بارے میں ایک معروف تاریخ داں ہٹن بیک کا قول ہے (تصنیف۔Great Game of Pamirs) کہ کوئی بھی چھوٹا ملک اگر اِس پہاڑی سلسلے کے اطراف میں بڑی قوتوں کے بیچ میں جغرافیائی حدود منسلک ہونے کے سبب پھنسا ہوا ہو تو وہ اِن بڑی طاقتوں کے تسلط سے بچ نہیں سکتا ۔کوہ ہمالیہ کا ہندو کش و قراقرم کا پہاڑی سلسلہ پامیر سے قریب ہی واقع ہوا ہے اور اِن پہاڑی سلسلوں میں پامیر کے حدود میں سنٹرل ایشیائی ریاستیں،ہند و کش میں افغانستان کی وسعتیں اور قراقرم کے دامن میں گلگت بلتستان واقع ہے اور یہ علاقہ جات وادی سے وابستہ رہے ہیں۔ایک اور مشہور مصنف نائٹ نے اپنی تصنیف [Where three empires meet] یعنی جہاں تین طاقتیں ملتی ہیں میں تین طاقتوں کے بیچ کشمیر کے پھنس جانے کا تفصیلی ذکر کیا ہے ۔یہ طاقتیں گذشتہ صدیوں میںبرطانوی ہند،روس و چین کی وسیع و عریض سلطنتیں تھیں اور آج کل بھارت، چین ، روس و پاکستان کشمیر کے ارد گرد کی طاقتور طاقتیں ہیں۔پچھلے دو تین سو سالوں کی تاریخ گواہ ہے کہ کشمیر سے منسلک یہ پہاڑی سلسلے یہاں کی سیاست کو اِس حد تک متاثر کرگئے کہ کشمیر پہ قابو پانا اِن عظیم طاقتوں کیلئے حیاتی بن گیا۔
ہمالیائی سلسلہ جات یعنی کوہ ہمالیہ کی بلندیوں نے قدرتی دفاع کا جو سلسلہ قائم کیا ہوا ہے اُس نے کشمیر و اُس سے ملحقہ علاقہ جات کی اہمیت اِس لئے بڑھا دی ہے کہ یہاں کم سے کم خرچے میں دفاعی ضروریات پوری ہونے کا سارا سلسلہ قدرت نے ترتیب دیا ہوا ہے۔ زمانہ جدید میں وادی کشمیر سے اوپر جاتی ہوئی شمالی و مشرقی بلندیوں سے نہیں البتہ جنوب و مغرب میں دامن کوہ کے میدانی علاقوں سے ملحقہ سطح سمندر تک پھیلی ہوئی میدانی وسعتوں میں رہتی ہو ئی بڑی طاقتوں نے اپنی دفاعی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے وادی کشمیر کو اپنے ساتھ وابستہ رکھنے کو اپنا قومی وقار مانا۔چناںچہ 25 اکتوبر 1947 کے روز جب کہ دو نو زائیدہ مملکتوں ہند و پاک میں رسہ کشی عروج پہ تھی ایک برقی تار پنڈت جواہر لال نہرو کی جانب سے برطانوی وزیر اعظم کلیمنٹ اٹیلی کے نام ارسال ہوئی جس کا متن یہ تھا’’ کشمیر کی شمالی سرحد تین ملکوں سوؤیت یونین،چین و افغانستان سے ملی ہوئی ہے لہٰذا کشمیر کی داخلی امنیت جس کی ضامن ایک مستحکم حکومت ہی ہو سکتی ہے بھارت کی سلامتی کیلئے حیاتی ہے‘‘ بہ معنی دیگر پنڈت جی کا مطلب یہ تھاکہ کشمیر کو اپنے ساتھ رکھنا بھارت کیلئے حیاتی ہے۔اِس میں یہ عندیہ بھی دیا گیا کہ سوؤیت یونین،چین و افغانستان سے نبٹنے کا دم بھارت میں ہی ہے اور دیکھا جائے تو کمیونسٹ چین و سوؤیت یونین برطانیہ سمیت مغربی ممالک کیلئے خطرہ بنے ہوئے تھا اور بہت سارے مبصرین کا ماننا ہے کہ برصغیر کی دفاعی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے اور کمیونسٹ قوتوں کی روک تھام کیلئے بھارت کو نسبتاََ چھوٹے ملک پاکستان پہ ترجیح دی گئی ہے البتہ کچھ ہی سالوں کے بعد بھارت کمیونسٹ سوؤیت یونین کے قریب ترین دوستوں میں شمار ہونے لگا۔اِن عالمی سازشوں کے بیچوں بیچ مسلہ کشمیراُلجھتا گیا اور اِس اُلجھن کو سلجھانے کی راہ دور دور تک نظر نہیں آتی مگر اینکہ قدرتی اسباب سلجھاؤ کا سبب بن جائیں۔
Feedback on: [email protected]