سرینگر// محاذِ آزادی کے سینئر رُکن اعظم انقلابی نے کہا ہے کہ بھارتی حکمران ایشیائی تحفّظ کی تحریک میں ایک بنے ہوئے ہیں، کشمیر ایک انسانی مسئلہ ہے، کشمیر کی مزاحمتی تحریک بنیادی طور ایک خالص پرُ امن جمہوری مزاحمتی تحریک ہے،افسوس کہ دہلی دربار کو کشمیریوں کی یہ سیاسی تحریک راس نہیں آتی ۔انہوں نے کہا’’ آپ نے ہماری پہلی مزاحمتی تحریک یعنی محاذرائے شماری تحریک کو بزورِ بازو زیر کرنے کی کوشش کی تو یہاں شیرِ ترہگام بطلِ حریّت مقبول بٹ کی قیادت میں متشدّدمُزاحمتی تحریک شروع ہوئی، آپ نے اس عظیم دانشور کے سیاسی نظریات کی اہمیّت کو نظر انداز کرتے ہوئے اُسے 11فروری 1984ء کو دہلی تہار جیل میں تختہ تک پہنچایا اور 11فروری 1984ء کو ہی یہاں کے انقلاب پسند نوجوانوں نے عملاً ایک عسکری مزاحمتی تحریک شروع کرنے کا قصد کیا، اب تو مقبول بٹ، افضل گورو، اشفاق مجید وانی، مقبول الہٰی، برہان وانی یہاں ہر گھر کی پہچان بنے ہوئے ہیں، اِس اوُلُوالعزم قوم کے چھ لاکھ شہداء کی صف میں ہمارے عظیم سیاسی رہنما بھی شامل ہیں،ہاں پوری قوم میرواعظ مولوی فاروق،ڈاکٹر قاضی نثار، خواجہ عبدالغنی لون، شیخ عبدالعزیر، ایس حمید، جلیل انداربی، ایڈووکیٹ حسام الدین ، مولانا شوکت شاہ، ڈاکٹر غلام قادر وانی، ڈاکٹر گورو اور ڈاکٹر عشائی کو صبح و شام عقیدت اور احترام کے جذبات کے ساتھ یاد کرتی ہے۔ انقلابی نے کہا کہ یہ کشمیر کے لاکھوں شہیدو ں کی یاد ہی ہے جس کی وجہ سے جنگ بندی لائن پر پاک فوج کے کشمیری نژاد فوجی افسر صبح و شام کرگل جنگ کی یاد دلانے کے لیے impulsiveness کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں اور یہی وہ حالات ہیں جن کی وجہ سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل مضطرب ہوتے ہیں اور بھارت اور پاکستان کو مسئلہ کشمیر کے پرُامن تصفیہ کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں،’’آپ ہمارے 3-D فریڈم فارمولا پر ضرور غور کریں، اِس میں کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کی وکالت کرتے کرتے بھارت اور پاکستان کی face-saving کا بھی خیال رکھا گیا ہے‘‘۔