سرینگر//حریت(گ) نے بھارتی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کے بیان کہ ’’وہ کشمیر کی صورتحال کو نارمل بنانے کے لیے تمام متعلقین کے ساتھ بات چیت کے لئے تیار ہیں اور یہ کہ سارا ہندوستان چاہتا ہے کہ کشمیر کے حالات ٹھیک ہوں‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر کوئی امن وقانون کا مسئلہ ہے اور نہ حالات کی خرابی کوئی بنیادی پرابلم ہے، بلکہ یہ لوگوں کے بنیادی اور پیدائشی حق، حقِ خودارادیت کا مسئلہ ہے، جس کی واگزاری کا بھارت نے ان کے ساتھ وعدہ کیا ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ راجناتھ سنگھ نے راجیہ سبھا میں کشمیر کے حوالے سے جو بیان دیا ہے، اُس میں نئی بات کوئی نہیں ہے، بلکہ یہ وہی رسمی باتیں ہیں، جن کا اعادہ وہ بار بار کرتے رہتے ہیں۔ بھارتی وزیر داخلہ کا یہ کہنا ’’وہ کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لیے تین بار وہاں گئے تھے اور انہوں نے اس سلسلے میں ٹویٹ بھی کیا‘‘ نہ صرف بچگانہ اور مزاحیہ ہے، بلکہ اس سے غرور اور گھمنڈ کی بُو بھی آتی ہے، راجناتھ سنگھ ایسے بیان دیکر اصل میں ہندوستانی عوام کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں اور انہیں کشمیر سے متعلق حقائق نہیں بتانا چاہتے۔ترجمان نے کہا کہ 2016کی عوامی تحریک کے دوران میں راجناتھ سنگھ تین بار کشمیر آئے تو انہوں نے ایک بار بھی اصل مسئلے پر روشنی نہیں ڈالی اور نہ کشمیر سے متعلق تاریخی سچ بولنے کی جُرأت کی، وہ یہاں آکر صرف سی آر پی ایف (CRPF)کی مزید کمپنیاں اور کارتوس بھیجنے کے اعلانات کرتے رہے، حالانکہ وہ بچے نہیں ہیں، خوٗب جانتے ہیں کہ کشمیر کوئی لاء اینڈ آرڈر کی پرابلم نہیں ہے، جس کو گولیوں اور پیلٹ کے ذریعے سے حل کیا جاسکتا ہے۔ حریت بیان میں کہا گیا کہ جس پارلیمانی وفد کا وہ بار بار تذکرہ کرتے ہیں اور اس کے آزادی پسندوں کے دروازے سے واپس لوٹنے کا راگ الاپتے ہیں، اس کو کوئی منڈیٹ دیا گیا تھا اور نہ اس کے ممبران کوئی مخصوص ایجنڈا لیکر آئے تھے، راجناتھ سنگھ نے ان کے بھیجنے سے پہلے ہی بھارتی آئین کے اندر رہنے کی شرط لگائی تھی اور کہا تھا کہ حکومت نے انہیں بھیجا ہے، بلکہ ان کی خواہش پر انہیں صرف جانے کا اختیار دیا گیا ہے، ایسی صورت میں ان کے ساتھ کیا بات چیت کی جاتی اور اس کے کیا نتائج نکلتے؟