رشید پروینؔ سوپور
اب جب کہ سرکاری ذرائع رات دن اس بات کا اعادہ کرتے رہتے تھے کہ کشمیر میں ملی ٹینسی کا خاتمہ ہوچکا ہے اورامن و اماں اور شانتی کی فضائیں محو رقص ہیں ،پھر ایک بار کشمیر کے نازک اور سیمیں بدن کو لہو لہاں کیا گیا ہے ،یہ خونین اور وحشیانہ ، انسانیت سوز واقعہ پہلگام سے صرف سات کلومیٹر دور ایک پُر فضا اور سیاحتی مقام پر پیش آیا ہے جہاں ہمارے مہمان ٹھنڈی ہواؤں اور فضاؤں سے لطف اندوز ہونے کے لئے آئے تھے ، یہ مہماں جن کے ہم صدیوں سے اس جنت بے نظیر میں مہماں نوازی کرتے آئے ہیں اور اپنے خلوص ، محبت اور اپنائیت سے ساری دنیا کے لوگوںکے لئے نہ صرف مشعل راہ ہیں بلکہ مہاتما گاندھی بھی اس بات کا اقرار کر چکے ہیں کہ یہاں اس محبت اور پیار کی آماجگاہ میں امن و شانتی اوربھائی چارے کے دیپ اُن حالات میں بھی فروزاں رہے ہیں، جب ہند وپاک منافرت کی آگ میں ہرسُو جل رہا تھا۔ اس تازہ وحشیانہ قتل عام میں ۲۷سے زیادہ ہمارے مہماں اپنی جانیں کھو چکے ہیں اور ابھی کئی زخمی موت و حیات کی کشمکش سے جھوج رہے ہیں۔ انسانیت شرمسار ہے اور ہماری فکرو عمل اس لحاظ سے ماوف ہے کہ انسان اس قدر بے رحم اور سنگدل کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ ان لوگوں کا قتل عام کرتے پھریں ، جنہیں یہ معلوم نہیں کہ انہیں کیوں قتل کیا جارہا ہے اوربالکل اسی طرح کہا جاسکتا ہے قاتل بھی اس بات سے بھی بالکل بے خبر ہے کہ وہ کیوں معصوموں کی جانیں بے دریغ لے رہا ہے۔آپ کو یاد ہوگا کہ ۵ جنوری ۲۰۰۹ کو عمر عبداللہ صاحب چیف منسٹر جموں و کشمیر کی حیثیت سے تاریخ میں جگہ پا چکے ہیں اور اب دوسری بار اکتوبر ۲۰۲۴ میں پھر ایک بار بڑی مدت کے بعد باوقار اور بہتر عوامی سپورٹ کے ساتھ پھر اس پَد پر براجمان ہو ئے ہیں ۔ ماضی کو دہرانے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ ۹ مئی ۲۰۰۹ کووہ افسوسناک اور انسانیت سوز واقع پیش آیا تھا جس نے نہ صرف انسانیت کو شرمسار کیا تھا بلکہ ہماری تاریخ میں ایک وحشیانہ ،بہیمانہ اور درندانہ واقعے کے طور درج ہو چکا ہےاور آج بھی اور آنے والے مستقبل میں بھی اس کے سائے ہمارا پیچھا کرتے رہیں گے ، اور یہ سانحہ نیلوفر ، آسیہ نند بھابی کا ریپ اور قتل تھا جو شوپیاں بونہ گام میں ہوا تھا ،جنہیں راستے میں اغوا کیا گیا اور پھر دوسری صبح کے اُبھرتے سورج نے ان کی لاشیں اُسی کنارے پر دیکھی تھیں ۔ اب کی بار ایک بار پھر اس پَد پر آئے ہیں تو محض چند دنوں بعد ہی گگن گیر خونین قتل عام ان حسین نظاروں اور ٹھنڈی ہواؤں نے دیکھا جہاں دور دور سے آکر لوگ اپنی تپتی اور جھلستی روح کو ٹھنڈک اور فرحت بخشنے کی خاطر ہزاروں میل کا سفر طےکرکے آجاتے ہیں ، گگن گیر مشہور زمانہ صحت افزا مقام سونہ مرگ میں ہے اور یہاں یاتو یاتری یا ہزاروں کی تعداد میں مقامی لوگ بھی اِن ٹھنڈی اور فرحت بخش ہواؤں سے لطف اندوز ہونے کے لئے مسلسل آتے ہیں۔اس بار جو قتل عام ہوچکا ہے ،اُس میں چھٹی سنگھ پورہ سکھ کیمونٹی کے قتل عام سے بھی شاید زیادہ تعداد میں معصوموں کی جانیں گئی ہیں ، اس قتل عام سے چھٹی سنگھ پورہ کا قتل عام یاد آنا اور اُن زخموںکا ہرا ہونا ایک فطری اور قدرتی بات ہے کیونکہ ۲۰ مارچ ۲۰۰۰ءکی شام کو پندرہ سے زیادہ گن مینوں نے سکھ کیمونٹی کو اپنے گھروں سے باہر لا کر گوردوارے میں جمع کرکے بڑی بے رحمی اوربہیمانہ انداز میں گولیوں سے ہلاک کیا تھا ، جس میں ۳۵سے زیادہ سکھ ، ہمارے بھائی لوگ اور صدیوں سے مسلم کیمونٹی کے ساتھ مل جل کر رہنے والے ہلاک ہوئے تھے۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ ان دنوں امریکی صدر بل کلنٹن یہاں کے دورے پر تھے اور آج جب یہ دوسرا بڑا اور تاریخی قتل عام ہوا ہے جس میں بھارت کے مختلف گوشوں سے آئے ہوئے ہمارے ہندو برادری سے وابستہ لوگ تھے ۔ اس وقت امریکی نائب صدر جے ڈی ویسن بھارت کے دورے پر ہیں۔ چھٹی سنگھ پورہ کا ملیٹینسی کے دور میں پہلا واقع تھا، جس میں سکھ کیمونٹی کو ٹارگٹ کیا گیا تھا۔ بھارتی ذرائع نے اس سکھ قتل عام کو فوراً ہی پاکستانی د ہشت گردوں کی کارستانی کہا تھا اور لشکر طیبہ سے جوڑدیا تھا۔ اس پر اوائل میں یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں بنی تھی ، لیکن صرف پانچ دن بعد یعنی ۲۵ مارچ ۲۰۰۰ءکو انڈین آرمی ، سی آر پی ایف اور کشمیر پولیس نے مل کر ایک آپریشن کیا تھا ،جس میں اُن کا دعویٰ تھا کہ چھٹی سنگھ پورہ میں ملوث پانچ پاکستانی ملی ٹینٹ اِنکاونٹر میں ہلاک کئے جاچکے ہیں بلکہ اس ہائیڈ آوٹ کو نذر آتش کیا گیا ہے ، جس کی وجہ سے کسی بھی لاش کی پہچان کرناممکن نہیں رہا تھا ۔ لیکن دوسرے روز سے ہی علاقے کے لوگ بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے ، احتجاج کرنے لگے اور یہ بات کہتے رہے کہ یہ پانچوں نوجوان مقامی تھے ،جنہیں گھروں سے پکڑ کر ملی ٹینٹ ڈب کرکے ہلاک کیا گیا ہے ، کئی مہینوں تک احتجاج چلتا رہا اور اس دوران اشوک بھان انسپکٹر پولیس نے دعویٰ کیا کہ سپر نٹندنٹ پولیس فاروق خان کی قیادت میں ایک جوائینٹ آپریشن کے دوران یہ پانچوں ملی ٹنٹ مارے گئے۔ یہ کہانی بھی آگے نہیں بڑھ پائی تھی ، بہر حال کئی برس تک عوامی سطح اور سرکاری سطح پر یہ موقف اور بیانات آتے رہے ، لیکن اُس وقت کی حریت کانفرنس اور عوام نے سرکاری دعویٰ قبول نہیں کیا تھا ۔ فاروق عبداللہ کی سر کار تھی ، اس نے بھی کمیشن اور انکواریز وغیرہ کا ڈھونگ رچا کر سارا معاملہ گول کردیا ، لیکن اس دوران سب سے اہم بیان نرنجن سنگھ صدر اننت ناگ گوردوارہ پر بندھک کمیٹی کا آیا ،جنہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ’’یہ پانچوں نوجوان مقامی تھے اور ان کا اس واقعے سے کوئی لینا دینانہیں تھا، ( اس سارے خونین قتل عام کو گوگل سے تفصیل کے ساتھ پڑھا جاسکتا ہے ) ۔کس نے کیا کہا اور کس کمیشن نے اس معاملے کو کیسے نمٹایا، اس پر اب کسی رائے زنی کی کوئی گنجائش نہیں ۔لیکن وقت یا شب و روز کے آنچل میں ہر چیز محفوط ہو جاتی ہے اور پھر دانے دانے کا حساب بھی ہوتا ہے، پہلے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ آپکو یاد دلائوں کہ سر زمین وادی کشمیر کوکشمیری زباں میں (پیر وار ) کہا جاتا ہے ،جس کا ترجمہ صوفی ،سنتوں ، فقیروں ،اولیاکرام ، غوث و اقطاب کا صحن یا آنگن ہی ہوسکتاہے ، ان بلند وبالا سادات اور غوث و اقطاب کی یہاں کثرت اور بڑی تعداد کو اس پس، منظر میں آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانی ؒ کے بارے میں تاریخی شواہد ہیں کہ ان کے ساتھ ختلان ، ا زبکستان ، سمر قند ، یار قند ، ، پکھلی وغیرہ سے سات سو سے زیادہ سادات باکمال، درویش و مومن واردِ کشمیر ہوئے ،جنہوں نے اسی سرزمین کی مٹی اپنی آخری آرام گاہوں کے لئے بھی پسند کی ،اپنے حسن اخلاق ، پاکیزہ کردار سے ایمان اور اسلام کی شمعیں روشن کیں ۔ آج بھی ان کے مزارات اسی طرح مرجع نور اور محبت و خلوص کی آماجگاہیں بنی ہوئی ہیں، جس طرح سے اجمیر شریف میں خواجہ محی الدین چستیؒ اور دہلی میں حضرت بختیار کاکی ؒ اور حضرت نظام ا لدین ؒ ا تنی صدیوں سے آفتابِ امن و امان بنے ہوئے ہیں۔جن کے درِ آستاں آج بھی بلا تفریق مذہب و ملت ، رنگ و نسل ، ذات پات ، اونچ نیچ اور کسی بھی قسم کی چھوت چھات کے سبھی روئے زمین کے بسکینوںکے لئے وا ہیں ۔ میں نے یہ چند سطور صرف اس لئے قلمبند کی ہیں کہ آ پ سر زمین کشمیر کی امن و امان اور محبت و خلوص کی ان خوشبووں کا تھوڑا سا احساس ضرور کریں جو یہاں کے ذرّے ذرّے میں رچی بسی ہیں ۔ جموں و کشمیر سے متعلق ماضی قریب میں اور ابھی تک کہیں کہیں کچھ فرقہ پرست لوگ ایسے بیانات داغتے رہتے ہیں ،جو کشمیر کی ہزاروں برس کی تاریخ کے ساتھ کسی بھی طرح مطابقت نہیں رکھتے ۔ تاریخی طور پر ۴۷ ۱۹ سے کشمیر کی اکثریتی مسلم آبادی کئی ایسے مرحلوں سے گذری ہے، جنہیں انتشار ، اضطراب اور عذاب مسلسل سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہاں آج تک کی تاریخ تک کسی ایک بھی ہندو مسلم فساد کا ریکارڈ موجود نہیں۔ یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ یہاں کی مسلم اکثریت منافرت ، تعصب اور بغض سے آشنا ہی نہیں ۔ اب جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ایک طویل مدت ، انتہائی صعو بتوں اور مصائب اور جابجا قبرستانوں کو آباد کرنے کے بعد کشمیری عوام نے تھک ہار کے امن کی تلاش شروع کی ہے تاکہ ایک نئی صبح کی شروعات کی جاسکے ،جہاں امن اور شانتی کی ہوائیں چلنے کی توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں ۔ ظاہر ہے کہ کشمیری عوام کو امن کی تلاش ہے ، اس سے شانتی اور محفوظ شب و روز کی تلاش ہے اور وہ اپنے ان تجربات سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں جنہوں نے بے پناہ قبرستان آباد کئے اور ا ب ا پنی تاریخ میں نئے باب رقم کرنا چاہتے ہیں، جہاں امن ہو شانتی ہو اور جینے کے مساوی حقوق حاصل ہوں ۔اس حالیہ انتخابات میں اس قدر ووٹ اور اس قدر یکسویت اسی امن کی منزل کو سامنے رکھتے ہوئے جمہوری اور آزادانہ طریق پر عمل پیرا ہونے کی نشاندہی ہوسکتی ہے ۔ کشمیری عوام نے بھر پور طریقے پر انتخابات میں حصہ لے کر یہ بات صاف کی ہے کہ وہ کوئی دہشت گرد یا وطن دشمن نہیں بلکہ وہ اپنے دائرے میں امن کے متلاشی بھی ہیں اور اپنے حقوق کی پاسداری کا مطالبہ جمہوری انداز میں کرتے ہیں۔ لیکن اس طرح کے خونین واقعات اور سانحات اس کے وجود کو ہلادینے کے لئے کافی ہوتے ہیں ، کیوں ایسا ہوتا ہے کہ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد کہیں نہ کہیں اور کوئی نہ کوئی بہت بڑا سانحہ پیش آتا ہے ،جس میں معصوم لوگ مارے جاتے ہیںاور ظاہر ہے کہ یہ واقعہ جہاں ہوچکا ہے وہ ایک سیاحتی مقام ہے، جہاں دیس بدیس سے لوگوں کی بڑی تعداد چند روز امن ، سکھ چین سے گذارنے کی خواہش اور آرزو لے کریہاں آجاتی ہے۔ آج کل ہندوستان کیا بلکہ باہر ی ممالک سے بھی بڑی تعداد میں یہاں موجود تھے، جن سے ہماری یہ اہم انڈسٹری رواں دواں رہتی ہے ۔ لیکن کہیں نہ کہیں کچھ ایسا ہے جو کشمیر کی آڑ میں گھناونے کھیل اب بھی جاری ہیں۔ مرکزی سرکار کو بہر حال ایسے اندہناک اور کرب ناک سانحات کی شفاف طریقے پر تحقیق کرکے اصل حقائق سامنے لانے چاہئیں اور تمام سیاسی جماعتوں کو بھی اس انسانیت سوز قتل عام کی آڑ میں اپنے پوائنٹس سکور کرنے کے بجائے شفاف اور غیر جانبدار نہ تحقیقات کا مطابہ کرنا چاہئے۔