حال ہی میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا72واں جنرل اجلاس امریکہ میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں حسب روایت بھارت اور پاکستان کی نمائندگی کرنے والے پاکستانی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کی جانب سے ایک دوسرے پر الزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ دیکھنے کو ملا۔ پاکستانی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بھرپور انداز میں مسئلہ کشمیر کی وکالت کرنے کے علاوہ اپنی تقریر میں کشمیر میں انسانی حقو ق کی بدترین صورت حال اور فورسز کے مظالم کی جانب عالمی ادارے کی توجہ مبذول کر اتے ہوئے یواین سے مطالبہ کیا کہ وہ کشمیر میں زمینی حقائق کی جانچ پڑتال کے لیے اپنا مشن وہاںبھیج دے۔ پاکستانی وزیر اعظم کی تقریر کو تجزیہ نگار وں نے جارحانہ قرار دیا جب کہ کشمیری لیڈروں نے عبوری وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی مسئلہ کشمیر پر جاندار مؤقف اختیار کرنے پر اطمینان کا اظہار کیا۔بھارتی وزیر خارجہ سشماسوراج نے اپنی باری پر عالمی ادارے سے خطاب کر تے ہوئے پاکستان پر پلٹ وار کرکے اُس ملک کو’’دہشت گردی‘‘ کی ماں ہونے کا الزام دیا اور کہا کہ آزادی کے بعد ہندوستان نے بڑے بڑے تعلیمی ادارے قائم کئے، ڈاکٹر اور انجینئر تیار کئے جب کہ پاکستان نے خالص’’دہشت گرد‘‘ تیار کئے ہیں۔ جنرل اسمبلی کے دوسرے سیشن میں بھی دونوں ممالک کے نمائندوں نے جی جان سے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کی بھرپور کوشش کی۔ پاکستانی مندوب ملیحہ لودھی نے کشمیرمیں بھارتی فورسز کی جانب سے پیلٹ گن کے قہر ناکیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے دنیا کو یہاں کی صحیح صورتحال سے آگاہ کرنے کی اَحسن طریقے سے کوشش کی ۔ یہ ساری باتیں ہمیشہ سے اقوام متحدہ میں دونوں ملکوں کے درمیان کبھی گرم ،کبھی نیم گرم اور کبھی سرد ماحول میں ہوتی رہی ہیں۔ عالمی ادارے میں اس بار ایسا نہ ہوتا یہ ناممکن تھا کیونکہ دونوں جانب یہی مخصوص مائنڈ سیٹ مستقلاً گزشتہ ستر سال سے پروان چڑھتا رہاہے۔
اس موضوع کو ذرا وسعت نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ سب جانتے ہیں کہ امریکہ کسی کا مستقل دوست ہے نہ کسی کا مستقل دشمن ۔ یہ اپنے قومی مفاد کو جیو پولٹیکل حالات کے بدلتے تناظر میں ملکی پا لیسیاں نئے قالب میں ڈھالنے میں ید طولیٰ رکھتاہے ۔ اس لئے جونہی موسم بدل جاتا ہے اس کا رویہ بھی یکایک تبدیل ہوجاتا ہے ۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طور دنیا ڈونالڈ ٹرمپ کا پاکستان کے تئیں امریکی پالیسی میں کافی بدلاؤ دیکھ رہی ہے۔ آج تک ڈونالڈ ٹرمپ نے کئی مرتبہ اشاروں کنایوں میں پاکستان کو دھمکیاں تک دے ڈالی ہیں کہ یہ ملک دہشت گردی کی آماج گاہ بن چکا ہے، افغانستان کے معاملے میں تعاون نہیں کررہا ہے، طالبان کی درپردہ سپورٹ کرنے کے علاوہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی نہیں کررہا ہے۔ حالانکہ کارٹر سے کلنٹن تک امر یکہ اسلام آباد کے ساتھ دلی کے مقابلے میں گرم جوشانہ تعلقات استوار کئے ہوتے تھا ۔ اب خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کو کم کرنے کے لیے امریکہ بھارت کے کافی قریب آچکا ہے، امریکہ نے بھارت کو افغانستان تک رسائی بھی فراہم کر نے کا سب سے بڑا وکیل بناہوا ہے باوجودیکہ پاکستان مسلسل یہ الزام لگاتا رہتا ہے کہ افغانستان میں بھارتی ایجنسیوں کی سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں اور پاکستان میں دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان اور بلوچستان کے شورش پسندوںکو بھارتی ایجنسیاں ہی فنڈنگ اور لاجسٹک سپورٹ کرتی ہیں۔ گزشتہ ہفتے ’’ٹائمز آف انڈیا ‘‘نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں اس بات کاسنسنی خیز انکشاف کیا کہ بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں اور اس بات کے لیے امریکہ نے بھی رسم دنیا نبھاتے ہوئے اپنی فکر و تشویش کا اظہار کیا ہے۔امریکہ پاکستان سے ہر ہمیشہ’’ڈو مور‘‘ کا مطالبہ کرتا رہتا ہے ۔ ڈونالڈ ٹرمپ کی پاکستان مخالف تقریر کے بعد پاکستانی فوج کے سربراہ قمر جاوید باجوہ نے صاف طور کہہ دیا تھا کہ اب بہت ہوگیا ہے، ڈو مور کے جواب میں اُنہوں نے اپنے پیغام میں امریکہ کو واضح طور پرNo More کہہ دیا ۔ پاکستانی مؤقف کی چین او ر روس نے کھل کر حمایت کی ہے۔ تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی منظر نامہ کو دیکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کی تشکیل نو ہورہی ہے، نئی دوستیاں وجود میں آرہی ہیں اور نئی دشمنیاں جنم لے رہی ہیں۔ حریف حلیف بن رہے ہیں اور دوستیاں دشمنیوں میں تبدیل ہورہی ہیں۔ پاکستان کا جنرل اسمبلی میں سخت مؤقف اختیار کرنا اور واضح طور پر کشمیر اور افغانستان کے معاملات پر بات چھیڑنا اس بات کا عندیہ ہے کہ شاید پاکستانی فوج اور وہاں کے پالیسی ساز امریکی غلامی سے چھٹکارا پانے کی سنجیدہ کوششیں کررہے ہیں۔پاکستان امر یکہ کے چنگل سے نکل باہر پائے گا یا نہیں ،یہ آنے والا وقت ہی بتا پائے گا ،البتہ ایک بات طے ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تلخیوں میں کمی آجانے کے بجائے اسلام آباد اور دلی کے درمیان خلیج بڑھتی ہی جارہی ہے اور کسی بھی وقت کوئی معمولی چنگاری پورے برصغیر کو آگ و آہن کی لپیٹ میں لاسکتی ہے۔مسئلہ کشمیر کی صورت میں دبا آتش فشاںکبھی بھی پھٹ سکتا ہے ، اور نہ جانے کتنی بڑی انسانی تعداد اس کی لپیٹ میں آکر جھلس سکتی ہے۔ اس لئے دونوں جانب ہوش کے ناخن لینے کی پہلے سے زیادہ ضرورت آج ہے ۔
بلاشبہ اقوام متحدہ امریکی اشاروں پر چلنے والا ادارہ بن چکا ہے، اقوام متحدہ سے جڑے بیشتر ممالک عالمی مسائل کے حوالے سے وہی مؤقف اور لائن اختیار کرلیتے ہیں جو امریکہ اختیار کرلیتا ہے۔ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ امریکہ اور بھارت ایک دوسرے کے کافی قریب آچکے ہیں، حالانکہ اکثر وبیشتر یہ کہا جاتا ہے کہ امریکہ کی دشمنی سے زیادہ اُس کی دوستی خطرناک ہوتی ہے، جس کی واضح مثال پاکستان کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ برسوں امریکی منصوبوں کو روبہ عمل لانے اور اپنی تمام خدمات امریکہ کے قدموں میں رکھنے کی وجہ سے ہی پاکستان بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں آچکا ہے۔اب جب کہ پاکستان امریکی استعماریت سے نکلنے کی کوشش کررہا ہے بھارت اس کے چنگل میں پھنستا جارہا ہے۔ جس طرح امریکہ نے پاکستان کو روسی طوفان کے سامنے لاکھڑا کردیا،اِسی طرح اب وہ بھارت کو چین کی ترقی کے سامنے کھڑا کرکے اس ملک کو قربانی کا بکرا بنانے کی ٹھان چکاہے تاکہ اپنی سپرپاور والی پوزیشن کو برقرار رکھ سکے۔ اس پس منظر میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے فی الحال دنیا بھر میں نہ ہی کوئی کشمیریوں کی سننے کے لیے تیار ہے اور نہ ہی پاکستان کا واویلا دنیا کو متاثر کرسکتا ہے کیونکہ انکل سام فی الوقت دنیا کو بھارت کی نظروں سے دیکھنے پر مجبور کررہا ہے۔ایسے میں یہ حقیقت اپنی جگہ واضح ہے کہ اقوام عالم مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کررہے ہیں لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ اقوام عالم اپنی نظریں چرانے سے مسئلہ کشمیر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن ہوجائے گا۔ یہ ایک ایسا حل طلب ٹھوس سیاسی مسئلہ ہے جو سات دہائیوں سے گرتے اٹھتے چلا آرہا ہے، جس پر تین جنگیں ہوچکی ہیں، جس کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کی جان چلی گئی ہے، اسی مسئلے کی وجہ سے یہاں ہر گھر کے ساتھ کوئی نہ کوئی درد بھری داستان جڑی ہوئی ہے، ہر گلی او رنکڑ پر کسی بے گناہ کا خون چیخ چیخ کرانسانیت کو پکار رہا ہے، یہاں عصمتیں لٹی ہیں، یہاں دستاریں اچھالی گئی ہیں، یہاں ذلت و رسوائی کو جنگی ہتھیار بنالیا گیا ہے، یہاں عام لوگوں سے زیادہ وردی پوش تعینات ہیں، یہاں کی نئی نسلیں ایک الگ طرح کی سوچ کے ساتھ ہی جنم لے رہی ہیں۔ عجب نہیں اپنی شرافت اور امن پسندی کے لیے مشہور قومِ کشمیر کی آنے والی نسلوں کو حالات دنیا کے خطرنات ترین جنگجو بنادیں۔اس کا اندازہ ہمیں موجودہ زمانے کی نسل نو کو دیکھ کر بخوبی ہوسکتا ہے۔
کشمیر کی یہ ارضی صورت حال کسی بھی حیثیت سے ہندوستان کے لیے مثبت نہیں ہوسکتی۔ فی الوقت یہاں ہورہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ذریعے سے یہ ملک اپنے نامۂ اعمال خراب کررہا ہے، یہ آنے والی کشمیری نسلوں کے دلوں میں نفرت اور عداوت کو فروغ دینے کا سامان فراہم کررہا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ تاریخ کے پنوں میں اپنے اسلاف کے ساتھ ہورہی زیادتیوں کو دیکھ کر ہماری مستقبل کی نسلیں نہ خود چین سے رہ سکتی ہیں اور نہ ہی اپنے اباؤ اجدادپر ظلم کرنے والی طاقتوں کو چین کی نیند سونے دیں گی۔ گویا دلی کے پالیسی ساز جس مسئلے کو امریکی حمایت سے وقتی طور پر دفن کرنا چاہتے ہیں ، وہ دیر سویر ضرور اپنی پوری شدت کے ساتھ پھٹ سکتا ہے اور برصغیر کے کروڑوں عوام کے امن و سکون اور خوشیوں کو چھین سکتا ہے۔مسئلہ کشمیر کے تئیںبی جے پی کی غیر حقیقت پسندانہ پالیسی سے بھارتی سماج کا کوئی بھلا ہونے والا نہیں ہے، بلکہ اس طرح جموں وکشمیر میں بھارت کی رہی سہی اعتباریت بھی ختم ہوجائے گی ۔اس بات کا اندازہ بہرحال بھارت کے ذی حس طبقے کر رہے ہیں اور کرنا بھی چاہیے۔ دنیا اپنی آنے والی نسلوں کو محفوظ بنانے کے لیے کام کررہی ہے اور بھارتی سیاست دان اپنے آنے والی نسلوں کو نیو کلیائی فلیش پوائنٹ کے بھنور میں ڈبو کر اُن کی زندگیاں اجیرن بنانے کے مشن پر مصروف عمل ہیں۔ گزشتہ ستائیس سال سے کشمیری عوام کے خلاف چومکھی لڑائی چھیڑی گئی ہے، لاکھوں فوجی اور نیم فوجی اہلکاروں کو اُن کے خلاف میدان جنگ میں ہیں، جیل خانے بھرے پڑے ہیں ، تحقیقاتی ایجنسیوں کے ذریعے لوگوں کو خوف زدہ اور ہراساں کیا جارہا ہے، نوجوان نسل کو گولیوں سے بھون ڈالا جارہا ہے، پیلٹ گن کے چھروں سے نونہالوں اور معصوموں کی بینائی چھینی جارہی ہے، رات دن لوگوں کو اضطراب اور پریشانیوں میں مبتلا رکھنے کے لئے اب ۹۰ ء کی’’ ڈائن‘‘ کا جدید ایڈیشن چوٹیاں کاٹنے کی شکل میں دہرایا جارہاہے ۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے مشرق و مغرب اور شمال و جنوب میں عزت مآب خواتین اور نابالغ بچیوںکے بال پُر اسرار طریقے سے کاٹے جارہے ہیں ، جب کہ جنوبی کشمیر میں عوام کھلے عام الزام لگا رہے ہیں کہ اس قبیح عمل میں مبینہ طور فوجی اہلکار ملوث ہیں۔ مالون کولگام کے لوگوں نے حالیہ دنوں الزام عائد کیا کہ جب اُنہوں نے ایک ایسے ہی مجرم کو پکڑنے کی کوشش کی جو عورتوں کے بال کاٹنے والا تھا تو پاس میں موجود فوجی اہلکاروں نے ہوائی فائرنگ کی اور اُس مشکوک الحال شخص کو چھڑاکر لے گئے۔یہ گری ہوئی حرکتیں اور اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈے اگر واقعی کشمیری قوم کو اپنے دیر ینہ سیاسی جدوجہد سے ہٹانے کے لئے کیا جارہا ہے تو ان طاقتوں سمجھ لینا چاہیے کہ ان قابل نفرین حرکات سے الٹامنافرتوں اور دوریوں کی ہی مزید تخم ریزی ہوگی اور یہ ٹامک ٹوئیاں قوم کی مشترکہ آوازآواز کو دنبا نہ سکیں گی۔ اربابِ اقتدار کوحقیقت پسند بننے کی اشد ضرورت ہے اورحالات کو دور بین نگاہ سے سمجھنا وقت کا اولین تقاضا ہے۔ انہیں سیاسی چال بازیوں اور پیچ ورکنگ چھوڑ کر انسانی بنیادوں پر سوچیں۔ پاکستان اور بھارت کے پالیسی سازوں کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ جس مسئلے کو طاقت کے بل بوتے پر حل نہیں کیا جاسکتا ہے ، وہ انسانی بنیادوں پر سوچنے سے پل بھر میں حل ہوسکتا ہے۔ہندوستان اور پاکستان کی ترقی اور وہاں کے عوام کو زندگی کی تمام تر سہولیات میسر ہونا کشمیرمسئلے کے حل کے ساتھ مشروط ہے۔ ایک دفعہ یہ دونوں ممالک سنجیدگی کے ساتھ کشمیری عوام کو اُن کے جملہ سیاسی حقوق دیں گے اور اس مسئلہ کو کشمیریوں کی خواہش کے مطابق حل کرنے میں کامیابی حاصل کرلیں، تو ہندوستان او رپاکستان کے کروڑوں غریب عوام کے لیے خوشیوں کے دروازے وا ہوجائیں گے۔ بھارت میں غریبی کی سطح سے نیچے زندگی بسر کرنے والے جن کروڑوں عوام کا استحصال کشمیر کے نام پر ہورہا ہے ، اُن کی رگوں سے محنت کا جو خون نچوڑا جارہا ہے اور بے جاہ سیکورٹی پر جتنی بڑی رقم خرچ کی جاتی ہے اُس سے ہر ہندوستانی کو عزت اور وقار کی زندگی میسر ہوسکتی ہے۔جس دن ہندوستانی عوام فرقہ پرستانہ ، مفاد پرستانہ اور استحصالی سیاستدانوں کے سحر سے باہر نکل آئیں گے، اُس دن سے اُن کی قسمت بدلنی شروع ہوجائے گی۔ ورنہ جب تک مسئلہ کشمیر کو ووٹ بنک سیاست کی کان بناکر ہندوستانی عوام کو بے وقوف بناتا جائے گا تب تک روٹی، کپڑا اور مکان کے بغیر رہنے والی ہندوستانی آبادی میں اضافہ ہی ہوتا جائے گا۔ المختصربھلے ہی دونوں پڑوسی ممالک ایک دوسرے کو عالمی فورموں کو نیچا دکھانے کے لیے دھواں دار تقریریں کرتے رہیں ، سرحدوں کو گرم رکھنے کے لیے سیول آبادیوں پر بمباری کرکے اپنے اپنے عوام کے جذبات ابھارتے رہیں ، اصل مسئلہ سے اُن کی جان چھوٹنے والی نہیں۔ مسئلہ کشمیر حل ہونے کے لیے کبھی نہ کبھی دونوں ممالک کو حالات مجبور کریں گے، وہ وقت آئے گا جب ضد او رہٹ دھرمی کو خیر باد کہنا پڑے گا، البتہ تب تلک کشمیری عوام کو صبر اور حوصلے سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ اس قوم کی جھولی میں قربانیاں ہیں، یہ قوم اصولوں کی بات کرتی ہے، یہ قوم ہر ملک و ملت کی خیر خواہ ہے ۔اور چاہتی ہے کہ ہند پاک عوام پھلیں پھولیں، سب سے بڑھ کر ہمیں اس بات پر یقین ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں کبھی بھی نااُمید اور مایوس نہیں کرے گااورکامیابی کا سورج ضرور طلوع ہو گا البتہ اس کے لیے ہمیں اپنے اصولوں پر یکسوئی کے ساتھ ساتھ اللہ سے رجوع کرنا چاہیے۔
رابطہ9797761908