جو لوگ مسلسل ظلم وجبر کے اندھیاروں میں بھٹک رہے ہوں‘ جن کا وجود اپنے ہی گھرمیں مشکوک ٹھہراکر شناختی کارڈ اور وردی والوں کے موڈ سے مشروط ہو‘ جن کی نجی زندگیاں اور شہری آزادیاں دائو پر لگی ہوں،جن کی چہاردیواری اورچادر کا تقدس بلا توقف پامال کیا جارہا ہو‘ جنہیں پُر امن احتجاج کے حق سے محروم کیاجارہا ہو، جو اپنے مرے ہوؤں کا ماتم منانے سے سوگواری کے عالم میں پا بہ زنجیرہوں۔۔۔ ایسے لوگوں کے لئے واقعی جدوجہد ، کشمکش ا ورآزادی ایک خاص معنی رکھتی ہے ۔ ان کم نصیب لوگوں کے لئے آزادی کسی سیاسی بادشاہت کا نام نہیں بلکہ اپنے دین ، اپنے تہذیب وتمدن اور تشخص کی حفاظت کا ہم معنی او ر اپنے بقائے نسل کا ضامن ہے چاہے اس کے لئے انہیں کٹنا پڑے یا مٹنا پڑے۔ وہ یہ شعوری طور سے سمجھتے ہیں کہ آزادی ہی واحدراستہ ہے جس پر چل کر وہ اپنی انسانی حیثیت منواسکتے ہیں ، اپنی قومی شناخت کوتحفظ دے سکتے ہیںاور امن وامن کے ماحول میں ا پنا مستقبل تعمیر کرسکتے ہیں۔ کشمیر کی حزنیہ کہانی کا یہی وہ پہلو ہیں جو سب سے زیادہ نظر انداز کئے جاتے رہے ہیں ۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ حل طلب مسئلہ ہونے کے سبب گزشتہ ستر سال سے کشمیر کا رُواں رُواں آتش ِ زیر پا ہے اور ا س وقت یہ سب کشمیر کچھ زیادہ ہی شدت کے شعلہ فشاں ہے۔اس حقیقت حال کی سچی آئینہ داری آئے دن کشمیری نوجوانوں کی شہادتیں، پیلٹ سے بینائیاں کھونے والے ہیبت ناک مناظر ، سنگ بازیوں کے واقعات اور مارے گئے پیرو جوان کی نماز جنازہ میں لاکھوںافراد کی شرکتیں اور جذباتی نعرہ بازیوں سے ہورہی ہے۔ ایسے میں جب دلی اور سری نگر کے حکمران عوامی جذبات اوراجتماعی احساسات کے نرم ونازک گلدستے پر ہاتھیوں کی دوڑ لگاکر یہ آگ بجھا نے پر کمر بستہ ہوجائیں تو نہ وادی میں کوئی دیر پا امن قائم ہو سکتا ہے، نہ یہ چین کی نیند سوسکتے ہیں۔ حکمرانوں کو سمجھناہوگا کہ عوام کی رضامندی سے عسکری کاروائیاں نہ بھی ہوتی ہوں مگر زیر محاصرہ سرفروشوں کو راہ ِ فرار دلانے کے لئے نوجوانوںکا جھڑپ کے مقام پر اپنی جان پر کھیل کر پتھراؤ کرنا آخرکس بات کا اشارہ ہے؟ مزاحمتی عناصر پر سرکاری قدغنیں عائد ہیں ، حکمران انہیں نہ سیاسی جلسے جلوس کر نے دیتے ہیں اور نہ اپنی الیکشن بائیکاٹ مہم کو کامیابی سے چلانے کی اجازت دیتے ہیں مگر پھر بھی لوگ حریت کے اخباری بیانات پر عمل درآمد کرکے ہڑتالیں بھی کر تے ہیں اور پولنگ بوتھوں سے میلوں دور بھی رہتے ہیں، یہ صورت حال کس حقیقت کی غمازی کر تی ہے؟ نہ صرف مظاہرین پر راست گولیاں چلاکر موت بانٹنا اور پیلٹ گنوں سے بینائیاں چھین لینا معمول بنایا چکاہے بلکہ پیر مرد سے لے کر نابالغ بچوں تک کو جیلوں میں ٹھونسا جارہاہے مگر پھر بھی مظاہرے بند ہوتے ہیںاور نہ احتجاجی مہمیں مدہم پڑجاتی ہیں،یہ لوگوں پرکس جادو کا اثر ہے؟ کشمیر میں حکومت کی رِٹ سیکر ٹریٹ کی عمارت تک محدود ہے اور میدان میں عوامی ناراضگی کا ودر دورہ ہے، اس صورت حال کا سیاسی پیغام کیا ہے؟ چاہے اچھا لگے یا برا مگر دلی اور سری نگر کے اربابِ اقتدار کا ان منہ بولتے حقائق سے آنکھیں موند ھ لینا کسی بھی زاویہ ٔ نگاہ سے ٹھیک نہیں۔
ان تمام حالات و واقعات کو ذہن میں رکھ کر اس بات کا اندازہ کرنا بہت ہی آسان ہوتا ہے کہ کشمیری عوام ہی کشمیر کاز کے پس پردہ اصل قوت و طاقت کا منبع ہیں کیونکہ ان کا ہی مستقبل تو ابھی طے ہونا باقی ہے۔ لہٰذا یہ فسانہ تراشی ہانکتے رہنا کہ کشمیر میں سب کچھ سرحد پار کے ا یماء پرہورہا ہے اور یہ کہ سبھی کشمیری دہشت گرد ہیں ،اس لئے ان کی آوازکو زو رزبردستی یا وحشیانہ طاقت کے استعمال سے ختم کر نا ہوگی ، یہ سیاسی فلسفہ ایک بہت بڑی حماقت پر مبنی ہے جس کے اثرات اور مضمرات سری نگرا ور دلی کے لئے یکسان طور مضرت رساں ہیں۔ بدیہی حقیقت یہی ہے کہ بھارت کی بھاجپا سرکار اور ریاست کی مخلوط سرکار دونوں کشمیر میں ابتر ہورہے حالات کے پیچھے کار فرما سیاسی اسباب و محرکات کی اَن دیکھی کر رہے ہیں ،وہ اس فکر میں پڑی ہیں کہ کسی نہ کسی طرح قوت بازو کے بل پر اس عوامی تحریک کو خاموش کردیا جائے مگر یہ بلا شبہ ان کی سادہ لوحی اور کج فہمی ہے کہ اصل مسئلہ کو ایڈریس کئے بنا ہی وہ طاقت کی لاٹھی گھمانے سے کشمیر کی سیاسی بے چینی کا نپٹارا چاہتی ہیں۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ جہاں کشمیر میں ظلم وتشدد ڈھانا بھاجپا کی سخت گیر پالیسی کے ساتھ ساتھ اس کے ووٹ بنک سیاست کا جزو لاینفک ہے ، وہاںاس کی حلیف پی ڈی پی صرف طاقت کی حریص ہے اور جوں توں کرسی پر براجمان ہونا چاہتی ہے ۔ اس کے پاس سوائے ہوس ِ اقتدار کے کوئی واضح پالیسی ، ہدف یا کوئی ’’مفتی وژن‘‘ ہے ہی نہیں ۔گرچہ اس نے ایجنڈا آف الائنس میں دلی کو حریت اور اسلام آباد کے ساتھ گفت وشنید کرنے پر اپنا سارازورِ گفتار خرچ کیا تھا مگر جس طرح مفتی سعید کے منہ پر پرائم منسٹر مودی نے سری نگر میں اپنی تقریر میں صاف صاف لفظوں میں کہا کہ انہیں پاکستان سے بات چیت کے لئے کسی سے ( یعنی مفتی سے ) مشورہ لینے کی کوئی ضرورت نہیں ، اسی طرح اب بھاجپا نے محبوبہ مفتی کو علانیہ طور سندیسہ دیا کہ دلی کشمیر مدعے بات کر ے گی تو صرف ہندنواز پارٹیوں سے ، بالفاظ دیگر حریت کے ساتھ مکالمہ آرائی کی پی ڈی پی شرط کو ردی کی ٹوکری کی نذرکر دیا گیا ۔ یہ پی ڈی پی پر ایک زناٹے دار طمانچہ ہی نہیں بلکہ بغیر کسی ابہام کے دلی کا یہ عندیہ بتاتا ہے کہ مر کز کے پٹارے میں کشمیر کے لئے سوائے ماردھاڑ ‘ زور زبردستی و سینہ زوری کے کچھ اور نہیں ہے۔ یہ منموہن سنگھ کی طرح گول میز کانفرنس یا واجپائی کی طرح حریت سے بات چیت کا کوئی دکھاوا بھی نہیں چاہتی بلکہ اس کا کشمیر کے لئے ایک ہی اُ پدیش ہے کہ کشمیریو! سرینڈر کرو ، ورنہ ہم ایسی مار مار دیں گے کہ دوبارہ اٹھ کھڑے ہونے کے قابل بھی نہ رہوگے۔
کشمیر کی موجو د ہ عوامی تحریک کا بغور مطالعہ کرنے سے یہ واضح ہوجاتاہے کہ کشمیری عوام کا سواد اعظم شعوری طور سے یہ سمجھتا ہے کہ وہ ہندوستانی نہیں ہیںنہ کبھی ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ محاذ ائے شماری تحریک سے لے کر آج تک کئی دہائیوں سے کشمیریوں کے احتجاج اور جہد مسلسل سے واضح ہوتا رہاہے کہ انہیں دلی سرینڈر کے لئے مجبور نہیں کرسکتی ہے ماسوائے اس کے فورسز کشمیر کو انسانی حقو ق کی پامالیوں سے جہنم زار بناتے پھریں ۔ کشمیری قوم کی سخت جانی کا توڑ یہ بھی نہیں کہ سبھرامنیم سوامی کے الفاظ میںا نہیں پناہ گزین کیمپوں میں منتقل کیا جائے یا پروین توگڑیا کی تجویز کے مطابق کشمیر پر کارپٹ بمباری کر کے قضیہ زمین بر سر زمین کیا جائے، اس طرح کی الٹی سیدھی باتیں سنگھ پریوار کی ا ندھی سیاست کا ہمیشہ سے اوڑھنا بچھونا رہا ہے بلکہ وہ اس طرح کی متشددانہ سوچ کو ہی اپنی ہندوستانیت اور قوم پرستی کی علامت سمجھتی رہی ہے ۔ اس بار بھاجپا کشمیر میں لوگوں کودبانے کے لئے سابقہ حکمرانوں کی طرح اپنے فولادی ہاتھوں پر کوئی دستانہ پہنی ہوئی ہے نہ اپنے ارادوں کو چھپانے کے لئے زبانی گورکھ دھندے کا سہارا لے رہی ہے ۔ بایں ہمہ کشمیر کی زمینی صورتحال کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے تو یہ بات سمجھنے میں کوئی مشکل نہیںآتی کہ کشمیری عوام کیا مانگ رہے ہیں اور انہیں کیا مل رہاہے۔ حق بات یہ ہے کہ کشمیر تصفیہ تک اہل کشمیر کو سیاحت سے کوئی دلچسپی ہے نہ ٹولپ گارڈن کے سرسبز و شاداب خوبصوت پھولوںمیں انہیں اپنے لئے کوئی کشش نظر آتی ہے ۔ وہ پتھر یا بندوق ہاتھ میں تھامے سربکف ہوکر آزادی کے خواب کی تعبیر میں خود موت کوکشمیرکی گلی کوچوں میں تلاشتے نظر آرہے ہیں۔ انہیں سڑک‘ پل ‘ سرنگ ، فلک بوس عمارات سے بھی کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ کسی ایسی چیز کی تلاش میں سرگردان ہیں جوانہیں ابھی تک انمول قربانیاں دے دے کر بھی تاایںدم حاصل نہ ہوسکی۔ سوال یہ پیدا ہوتاہیے کہ آزادی کا نشہ انہیں کس نے دیا ؟ اس کے لئے انہیں کس نے بندوق یا پتھر اٹھانے پر مجبور کردیا؟ وہ زندگی سے زیادہ موت سے کیوں پیار کرتے ہیں؟ میں جب کبھی ان سوالوں پر سوچتا ہوں تو میرے سامنے ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘کے ایک مشہور و معروف مضمون نگار مدھو کشور کی وہ باتیں یاد آتی ہیں جو انہوں جولائی 2000ء میں تحریر کی تھیں۔ وہ لکھتی ہیںکہ ’’ کشمیر میں ہمارے فوجی جوانوں یا محافظ دستوںکو اپنا محافظ نہیں بلکہ جلاد تصور کرتے ہیں ۔ ان پر عورتوں کی عصمت دری‘ تشدد اور معصوم افراد کے قتل کا الزام عائد کیا جاتاہے لیکن اگر اس میں تھوڑی بہت ہی حقیقت ہے تو یہ ہمارے اخلاقی زوال کا بدترین ثبوت ہے‘‘میرے خیال میں ان کی یہ حق بیان کشمیر کی موجودہ صورتحال پر زیادہ شدت کے ساتھ صادق آتی ہے ۔
یوں توریاست جموں و کشمیرکے مظلوم عوام ایک طویل عرصہ سے بھارت کے مختلف النوع ظلم وجبر کی چکی میں پس رہے ہیں اوریہ سب کچھ مقامی حکومتوں کے مشورے اور تعاون کے بغیرممکن نہیں، اس لئے یہ کہنا کوئی خلاف ِ حقیقت امر نہیں کہ دلی کے جبرو تشدد میں کشمیر کا حکمران طبقہ برابر شریک ہے۔ افپسا سے لیس فورسزچاہیے گولیوں ، پیلٹ گنوں، گرفتاریوں ، خانہ تلاشیوں ، گھروں کو خاکستر کر نے کی کارروائیاں ہوں یا تشدد وجبریت کی آندھیاں ہوں ، اس میں مقامی حکومتوں نے ہمیشہ دلی کے اعانت کاروں کا کردار شیخ عبداللہ سے لے کرموجودہ مفتی سرکار تک ادا کیا ہے۔ بہر صورت آج کشمیری نہتے نوجوانوںکے ا جسام کاانگ انگ اور ان کی روحیںزخموں سے چور ہیں، ان کا بدن خون سے لہو لہاںنظر آرہاہے ، ان کو آنکھوں سے معذرو بنایا جارہا ہے‘ اب تو حد یہ ہے کہ انہیں آرمی کی گاڑیوں سے باندھ کر گائوں گائوں انسانی ڈھا ل کے طور گھمایا جارہاہے‘ کہیں انہیں زمین پرگھسیٹا جارہا ہے‘ کہیںہاتھ پائوں باندھ کر تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے!!! وہ کونسا اوچھا حربہ ہے جو ان کوزیرکرنے کے لئے آزمایا نہیں جارہا ہے ۔ اس بارے میں بھارتی میڈیا سے جو خبریں چھن چھن کر سامنے آتی ہیں ان سے بدن پر لرزہ طاری ہوجاتاہے۔ اس سب کے باوصف کشمیریوں کے جذبہ کو سرد نہ کیا جاسکا اور نہ ہی ان کے جذبۂ مزاحمت میں کوئی کمی لائی جاسکی۔وہ اپنی جدوجہد کو منطقی انجام تک پہنچانے میں پرعزم نظر آتے ہیں۔ مغلوب کشمیری قوم نے ہر دور میں غالب قوتوںکے خلاف قربانیوں اوراستقامت کی جوسنہری تاریخ رقم کی ، موجودہ تحریک ان پر بھاری نظر آتی ہے۔کشمیر میں جو عوامی تحریک میں شامل بچوں‘ خواتین اور طلبہ کے سیلاب نے دلی میں کھلبلی مچارکھی ہے، یہاں تک کہ ہوم منسٹر راجناتھ سنگھ کو یہ کہنا پڑا کہ کشمیر کے حالات انتہائی پریشان کن ہیں اور یہ ہمارے کنٹرول سے باہر جارہے ہیں، بھارتی وزیراعظم مودی نے بند کمرے میں کشمیر پر آف لائین کمیرہ میٹنگ کی جس میں آرمی چیف کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ میڈیا کے ذریعے اس حوالے سے جو اشارے ملے، ان سے یہ مجموعی تاثر ملتا ہے کہ حکومت ہند محبوبہ مفتی کو چھٹی کرنے پر بھی غور کر رہی ہے اور ریاست میں گورنر راج پر سوچ بچار ہورہا ہے۔ اس تجویز پر فی الحال عمل درآمد ہونا قرین امکان نہیں کیونکہ بھاجپا کا اپنی انتخابی جیتوں اک نشہ کرکرا نہیں کرنا چاہتی اور اسے محبوبہ جی سے کچھ اور کام لینے کی اشد ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیاگورنر راج مسئلہ کشمیر کا کوئی دیرپا حل ہے ؟ ایسے اقدمات پہلے بھی آزمائے جاچکے ہیں جوعملاً یہ بے اثر ثابت ہوئے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت کے مسلح دستوں کی بربریت اوروحشت سے وادی میں ہرروز نئے نئے جوان سال جان بازوں کی صفوں میں جا ر ہے ہیں۔ یہ جنگجونوجوان اور اہل خانہ اس تلخ حقیقت سے بخوبی واقف ہوتے ہیں کہ انہیں دیر سویر جان کی قربانی دینا ہوگی مگر یہ خیال کہ مارے جانے سے وہ مرتے نہیں بلکہ حیاتِ جاوداں پاتے ہیں اور کبھی لاکھوں کبھی ہزاروں سوگواروں کے درمیان پورے عوامی اعزاز کے ساتھ وہ سپردخاک ہوجاتے ہیں ۔ا ن سوچ کے حامل نوجوانوں پر قابو پانا خواب وخیال کی بات ہے ۔ ہندوستانی نیتا ‘ ملٹری انٹلی جنس اور اہل دانش واربابِ سیاست اس سے بخوبی واقف ہیں کہ کشمیری کیا چاہتے ہیںاور کیا نہیں چاہتے۔ وہ یہ بھی محسوس کر تے ہیں کہ ان کی چاہت اور آرزو پر ملٹری کی پہرہ داریاں، غلامانہ ذہنیت رکھنے والے حکمرانوں کی پینترابازیاں اور سیاسی اداکاروں کی ڈرامہ بازیاں فیصلہ کن ثابت نہیں ہوسکتی ہیں بلکہ کشمیر کا فیصلہ خود کشمیریوں کے پاس ہے اور وہ اپنے سیاسی فیصلے کے حق سے کسی صورت دستبردار ہو نے کو تیار نہیں ، چاہے وہ مٹ جائیں یا آتشیں حالات میں بھسم ہو کر رہ جائیں۔اس لیے بلا کسی سمت ادھر اُدھر لڑ کھڑانے کے بجائے بہتر یہی ہے کہ کشمیری عوام اور یہاں کے رہنے والوں سے پوچھا جائے کہ وہ اپنا مستقبل کن خطوط پر حل کرنا چاہتے ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے حق میں یہی بہتر ہے کہ وہ اپنا وقت ، اپنا سرمایہ اور اپنے انسانی وسائل ضائع کئے بغیر کہ اپنا اپنا مقدمہ کشمیری عوام کی عدالت میں پیش کریں ،وہ جو فیصلہ دیں وہ سب کو خوش دلی سے قبول ہونا چاہے۔ بہر کیف گذشتہ ستر سال سے کشمیر میں ہلاکتوں کا جو نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے، اس حوالے سے ہندوستانی حکمرانوں پر یہ ذمہ داری کجھ زیادہ ہی عائد ہوتی ہے کہ وہ کشمیر کو طاقت سے پامال کر نے کی پالیسی کو ترک کر کے سیاسی افہام وتفہیم کو فوقیت دیں۔ اسے دفعہ 370 کی تنسیخ ، سہ طلاق اور رام مندر جیسے غیر ضروری تنازعات میں پڑنے کے بجائے اگر سچ مچ سب کا ساتھ سب کاوکاس چاہیے تو سب سے پہلے اسے کشمیر کا قضیہ سیاسی سوجھ بوجھ سے کام لے کرمسئلے سے جڑے تینوں فریقوںکے اجماعی حل کے لئے سامنے آ ناہوگا۔بھارتیہ جنتا پارٹی کے پاس اس کے لئے درکارسیاسی طاقت ہے ،وہ چاہے تو اس مسئلہ کا کوئی قابل قبول اور دیریا و پائیدار پُر امن حل نکال کر برصغیر کی تاریخ کا ورق سنہرے دور کی جانب اُلٹ سکتی ہے ۔یہی وقت کی ضرورت اور اہل کشمیر اور برصغیر کے امن پسندوں کی پکار ہے۔
رابطہ؛[email protected]