گر فکر زخم کی تو خطا وار ہیںکہ ہم
محوِ مدح خوبی تیغ روا نہ تھے
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دُکھ تھے بہت لا دوا نہ تھے
(فیض)
وادی کشمیر کی صورت حا ل کئی برسوں سے تشویشناک بنی ہوئی ہے لیکن چند ماہ پیشتر برہان وانی کے سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں جاں بحق ہونے سے لے کر اب تک اُس نے جو شدید صورت حال اختیار کی ہے۔ اس سے ہرکوئی بخوبی آگاہ ہے۔ کئی ماہ سے متواتر وادی کشمیر کے عوام خاک و خون کے گرداب میںزندگی بسر کررہے ہیں۔ ایک طرف سیکورٹی فورسز کی گولیاں نہ صرف سینے چھلنی کرکے بے شمار ہلاکتوں اور زخمیوں کا موجب بنی ہوئی ہیں۔ بلکہ متواتر تقریباً کرفیو کے نفاذ سے ساری زندگی کی چہل پہل ختم ہوچکی ہے۔ سڑکیں اور بازار ویران نظرآتے ہیں۔ کاروبار معطل ہے۔ عوام اشیائے ضروریہ کی کمی اور قلت کی وجہ سے پریشان ہیں۔ تو دوسری پتھر بازوں کی سرگرمیاں بھی عروج پر ہیں۔ نوجوان تعلیمی اداروں کو ترک کرکے پتھر بازی میںمصروف ہیں۔ مزاحمتی تحریک کی آواز پرہڑتالیں روزمرہ کادستور بن چکاہے۔ سارا نظم و نسق درہم برہم ہوچکاہے۔ سیاحتی سیزن جو کہ وادی کشمیر کے روزگا ر کاسب سے بڑا ذریعہ ہے۔ برباد ہوچکاہے۔ غرضیکہ ایک ہوُ کا عالم ہے اور ہر طرف آئہ و بکا کی آوازیں بلند ہورہی ہیں۔ مین سٹریم سیاسی پارٹیوں کا وجود عملی طورپر ختم ہوچکاہے۔ بے شک کاغذی طورپر اخبارات میںان کے بیان ان کی زندگی کا ثبوت مہیا کرتے ہیں۔ ان پارٹیوں کی عوام میں ساکھ کا اندازہ حالیہ لوک سبھا کے ضمنی انتخابات میںعوام کی عدم شمولیت سے لگایا جاسکتا ہے ۔ احتجاجی تحریک کے باعث جس میں متعدد نوجوان ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں کے اننت ناگ حلقہء انتخاب کے انتخابات کے ملتوی کرنا پڑا ہے اور سرینگر حلقہء انتخاب میں فقط سات فیصدی لوگوں نے شمولیت کی۔ جس میںسے نیشنل کانفرنس کے فاروق عبداللہ کل ووٹوں کا تقریباً چار فیصدی حصہ حاصل کرکے لوک سبھا میںسرینگر کے نمائندے بن گئے ہیں۔ اتنے کم ووٹ حاصل کرکے نمائندگی کا فاروق عبداللہ بے شک دعوے کریں۔ لیکن یہ کامیابی شرمناک ہی قراردی جاسکتی ہے۔ کہنے کامطلب یہ ہے کہ وادی کشمیر میں مین سٹریم انتخابی پارٹیوں کی ساکھ ختم ہوچکی ہے۔ وہ کسی بھی صورت میں نمائندہ کہلانے کی مستحق نہیںہیں۔ ان میںنیشنل کانفرنس، کانگرس، پی ڈی پی، بھاجپا اور دیگرانتخاب لڑنے والی سبھی پارٹیاں شامل ہیں۔ غرضیکہ غور سے دیکھئے تو جموں کشمیر میں سارا نظام کوئی قدرت کی کرشمہ سازی کے باعث ہی چل رہاہے۔ زندگی کے تقریباً تمام پہلو معطل اور موقوف ہوچکے ہیں۔ یہ تشویشناک صورت حال نہ صرف جموںوکشمیر کے عوام بخوبی سمجھتے ہیں بلکہ ہندوستان، پاکستان اور دُنیا بھر کی رائے عامہ بھی اس سے اچھی طرح آگاہ ہے۔
وادی کشمیر کی اس تشویشناک صورت حال کے علاوہ ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں کے درمیان تلخی ، کڑواہٹ، تعلقات میں گراوٹ نے بھی مخاصمانہ صورت اختیار کرکے ہر روز جنگ بندی لاین پر خطرناک صورت حالات پیدا کررکھی ہے۔
یہ حالات جموں وکشمیر کے عوام کے لئے تو ہی ہیں تشویشناک جو کہ ان حالات کا سامنا کررہے ہیں۔ لیکن ہندوستان اور پاکستان کے عوام بھی ان کی وجہ پریشان ہیں اور ایک بار پھر دونوںہمسایہ ممالک کے درمیان جنگ کے بادل چھائے نظرآتے ہیں۔ عالمی رائے عامہ بھی پریشان ہے۔ کیونکہ دونوں ممالک ایٹمی قوت کے مالک ہیں اور دیگر ممالک کو بھی جنگ کی لپیٹ میں لے کر عالمی امن کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔
اس وقت تشویشناک صورت حال کو معمول پر لا کر کوئی دیرپا حل دریافت کرنے کے لئے طرح طرح کے فارمولے اورتجاویز پیش کی جارہی ہیں۔ دائیںبازو کے رجعت پسند عناصر وادی کشمیر کی احتجاجی اور مزاحمتی تحریک کو فوجی اور جابرانہ طریقہ سے کچل دینے کی تجاویز پیش کررہے ہیں اور پاکستان کو فوجی سبق سکھانے کی باتیں کررہے ہیں۔ احتجاجی اور مزاحمتی تحریک کے لیڈر رائے شماری کے مطالبہ پر اڑے ہوئے ہیں۔ ملی ٹینٹ عناصر بندوق کی نوک پر آزادی حاصل کرنے کے موقف پر قائم ہیں۔ کچھ عناصر محبوبہ مفتی کی سرکار کو ہٹا کر گورنرراج قائم کرنے کی تجویز پیش کررہے ہیں۔ کچھ اور عناصر ڈکسن پلان کی بنیاد پر مسئلہ کے حل کی تجویز پیش کررہے ہیں ۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ تجاویز پر تفصیلی غور وخوض کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فی الحال اس صورت حال کے سارے فریق اور طرفین ہٹ دھرمی کو ترک ہمہ جہت چو طرفہ، غیر مشروط مذاکرات کا آغاز کریں تو کوئی خاطر خواہ حل ضرور دریافت کیا جاسکتاہے۔ وگر نہ اگر سارے فریق اور طریفین باہمی مذاکرات پر رضامند نہیںہوتے تو نہ صرف جموں وکشمیر کی تشویشناک صور ت حال اس ریاست پر مزید تباہی و بربادی نازل کردے گی۔ بلکہ برصغیر ہندوپاک کو جنگ کی بھٹی میں دھکیل کر عالمی امن کے لئے بھی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔
جنگ وجدل کے ذریعہ مسائل حل کرنے کے لئے ہندوستان اور پاکستان باقاعدہ طورپر تین بار زورآزمائی کرچکے ہیں اور نتیجہ ڈھاک کے تین پات ہی نکلاہے۔ اور آخر کا ردونوں ممالک کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنا پڑاہے۔ تو کیوں نہ ایک اور جنگ سے پیشتر ہی مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر اختلافی مسائل کاحل تلاش کرلیا جائے او ر برصغیر کو ایک اور جنگ کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھا جائے۔ ہندوستان اور پاکستان کے حکمرانوں کو گزشتہ تجربات کی روشنی میں تو سبق حاصل کرکے جنگ بازی کی بجائے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ یہ دُرست ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جموں وکشمیر سمیت کئی متنازعہ معاملات پر شدید اختلافات اور تنازعات موجود ہیں۔ دونوں ممالک کے حکمرانوں نے ا س سلسلہ میں متعدد بار مذاکرات کئے ہیں اور مذاکرات کے لئے راہیں نکالی ہیں۔ جنگ بازی سے دونوں میںسے کوئی بھی کامیابی حاصل کرنے کی پوزیشن میںنہیں ہے اور دونوںممالک کے حکمران کئی بار اس امر کا اعادہ کرچکے ہیں کہ جنگ کوئی آپشن نہیں ہے۔ تو جنگی تیاریاں کیوں ۔ ابھی کچھ دنوں کے اندر شنگھائی اتحاد کے نام پر بنی کچھ ممالک کی تنظیم کا اجلاس 8,9 جون کو قزاقستان کی راجدھانی آستانہ میں منعقد ہورہاہے۔ جس میں ہندوستان کے وزیراعظم نریندرمودی اور پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف دونوں شرکت کررہے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوکہ پہلے کی طرح کئی موقعات کی مانند اس کانفرنس شامل ہونے والے ہندوستان اور پاکستان کے وزرائے اعظم باہمی ملاقات کرکے دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کو از سر نو شروع کرنے کا آغاز کردیںا ور جموں وکشمیر کے علاوہ برصغیر میںخوشی کی ایک لہر دوہرادیں۔
کشمیر کے علیحدگی پسندوں کے ساتھ بھی بات چیت کا آغاز کیا جاناچاہیے۔ پیشترازیں بھی حریت کانفرنس کے لیڈروں سے نریندرمودی کے لیڈر اٹل بہاری واجپائی اور لال کرشن ایڈوانی بات چیت کرچکے ہیں۔ اب بھی اس جمود کو توڑ کرکشمیر میںبحائی کی ضرورت ہے۔ کشمیر کی مین سٹریم پارٹیاں پی ڈی پی ، نیشنل کانفرنس اور کانگرس بھی اس بات چیت اور مذاکرات کا مطالبہ کررہی ہیں۔ جموںو کشمیر کی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے مذاکرات کی کُنجی نریندرمودی کے ہاتھ ہونے کی جو بات کہی ہے وہ سچائی پر مبنی ہے۔ نریندرمودی کو اپنے بند تالا میں اس کُنجی کوگھمانا چاہیے ۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بھی اور حکومت ہند
اور علیحدگی لیڈروں کے درمیان مذاکرات کا آغاز کرنا چاہیے۔ یہ تقاضہ وقت ہے جس کی کسی دوربین لیڈر سے یہ توقع کی جاسکتی ہے۔
اس امر میںکوئی شک نہیں کہ حریت کانفرنس پوری ریاست جموں وکشمیر کی ہر گز نمائندگی نہیںکرتی۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وادی کشمیر کے غالب حصہ کے احساسات کی ترجمان بن گئی ہے۔ اس لئے اس کے ساتھ بات چیت کے علاوہ مین سٹریم پارٹیوں پی ڈی پی، نیشنل کانفرنس، کانگرس اور بی جے پی کوبھی مذاکرات کا حصہ بنا یاسکتاہے۔ ان مذاکرات میں ان پارٹیوں کے علاوہ جموں ، لداخ ، پہاڑی بولنے والے لوگوں کی بھی شمولیت لازمی ہے۔ تنازعہ جموںوکشمیر کے حل کے مذاکرات میں ہندوستان کے زیرِ انتظام علاقہ کے نمائندوں کے علاوہ پاکستان کے زیرِ انتظام جموںوکشمیر کے علاوہ گلگت اور بلتستان کے نمائندوں سے مذاکرات ضروری رہے ہیں۔
بہرصورت ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تنازعات حل کرنے اور وادی کشمیر میںبحائی امن کی خاطر پاکستان اور علیحدگی پسند عناصر سے مذاکرات کا آغاز تو شروع کرنے کے لئے ہندوستان کی زیادہ تر اپوزیشن پارٹیاں بھی اسی نظریہ کی حامی ہیں اور اب تو وہ اس سلسلہ میں فاروق عبداللہ کی ایماء پر اس سلسلہ میں کنکلیو بھی منعقد کررہی ہیں تو لازمی ہے کہ حکومت ہند اور نریندرمودی بغیر تذبذب کے پاکستان اور کشمیر کی علیحدگی پسند حریت کانفرنس سے مذاکرات کا آغاز کریں۔
لیکن یہ تبھی ممکن ہوگا جب مذاکرات شروع کرنے کی حامی سبھی پارٹیاں اس سلسلہ میں پورا زور لگائیںگی اور عالمی رائے عامہ بھی اس سلسلہ میں اپنا دبائو استعمال کر ے گی۔
جب 1989میںکشمیر میں ملی ٹینٹوں کی جدوجہد شروع ہوئی تو اس وقت بھی ہم نے واضح کیا تھا کہ موجودہ بین الاقوامی حالات اور جموں وکشمیر ریاست کی ہیت ترکیبی کے پیش نظر نہ تو جبر وتشدد سے ملی ٹینٹ علیحدگی پسندتحریک کا نپٹارا کیا جاسکتاہے اور نہ ہی بندوق کی نالی سے آزادی حاصل کی جاسکتی ہے۔ بات چیت اور مذاکرات کے ذریعہ اس مسئلہ کا نپٹارا کیا جاناچاہیے۔ 2008اور 2010کی تحریکات کے درمیان طویل تحریکات اور ہلاکتوں کے باوجود ہمارا یہی موقف رہاہے اور آج بھی 28برس کے بعد بھی ہمارا موقف واضح ہے کہ موجودہ بین الاقوامی حالات اور مختلف علاقائی و لسانی خطوں پر مشتمل جموںوکشمیر میںکسی تحریک کو نہ جبر وتشدد سے ختم کیا جاسکتاہے اور نہ ہی بندوق کے بل بوتے پر مختلف خطوں پر مشتمل جموں وکشمیر کو آزاد کرایا جاسکتاہے۔ اس کا واحد حل فریقین کے درمیان مذاکرات کے ذریعہ دریافت کیا گیا منصفانہا ور قابل قبول حل ہی دیرپا اور امن مہیا کرسکتا ۔ اس لئے مسئلہ سے جڑے تمام فریقوںکوہٹ دھرمی اور غیر حقیقت پسندی چھوڑ کر مذاکرات برائے حتمی حل کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔