سرینگر// جماعت اسلامی نے اپنے ایک بیان میں نظر بندوں کے تئیں غیر انسانی سلوک پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اُن کی فوری اور غیر مشروط رہائی پر زور دیاہے۔بیان میں کہا گیا کہ وادی کے اندر اور بیرون وادی ہزاروں کی تعداد میں بزرگ اور نوجوان صرف اس وجہ سے نظر بند یا قید ہیں کہ وہ مسئلہ کشمیر کا ایک ایسا حل چاہتے ہیں جو یہاں کے عوام کی اُمنگوں اور خواہشات کا ترجمان ہو۔ ۷۴۹۱ءمیں برصغیر کی آزادی کے ساتھ ہی یہ مسئلہ اُس وقت اُبھرا جب یہاں کے عوام کی خواہشات کو جانے بغیر ہی جموںوکشمیر کا الحاق بھارت سے کردیا گیا لیکن الحاق کے بعد ہی بھارت نے براہ راست اور اقوام متحدہ کی وساطت سے یہاں کے عوام کے ساتھ یہ وعدہ کیا کہ اُن کی خواہشات کے مطابق ہی یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے طے کیا جائے گا اور تب سے اب تک یہاں کے عوام مسلسل یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ انہیں اس مسئلے کے دیرپا حل کے حوالے سے اپنی خواہشات کے اظہار کا ایک آزادانہ اور غیر جانبدارانہ موقعہ فراہم کیا جائے لیکن انہی حکمرانوں نے لیت و لعل سے کام لے کر کچھ مدت گزرنے کے بعد ہی یہ جائز مطالبہ کرنے والوں کو ہی علیحدگی پسند قرار دے کر اُن کے خلاف حکومتی طاقت کے ذریعے تادیبی کارروائیاں کرنے کا سلسلہ شروع کیا جو کسی بھی انسانی اصول یا قانون کے لحاظ سے برحق نہیں ہے بلکہ سراسر ایک ظلم اور زیادتی ہے۔ ۰۹۹۱ءمیں جیلوں اور تعذیب خانوں کے دروازے کھول کر ان میں ہزاروں بے گناہ کشمیریوں کو صرف اس وجہ پر قید یا نظر بند کردیا کہ وہ اس جائز مطالبے کو پورا کرنے کی حمایت کررہے ہیں ۔ کشمیریوں کو نہ صرف ریاست کے جیل خانوں میں نظر بند کیا گیا بلکہ بھارت کے دور دراز مقامات کے جیلوں میں بھی ان کو بہت ہی خستہ حالات میں رکھا گیا تاکہ اُن کے گھر والے بھی اُن کا چہرہ دیکھنے کو ترسیں۔ اس وقت بھی جموںوکشمیر کی تمام جیلوں کے علاوہ دہلی کے تہار و دیگر جیلوں میں ہزاروں بے گناہ کشمیری قید ہیں اور وادی سے باہر جیلوں میں اُن کے ساتھ وحشیانہ سلوک کیا جاتا ہے، نہ ان کو کافی غذا فراہم کی جاتی ہے اور نہ ہی طبی سہولیات فراہم ہیں۔ گھر والوں سے ملاقات میں اتنی قانونی پیچیدگیاں رکھی گئی ہیں کہ یہ ملاقات جوئے شیر لانے کے مترادف بن گیا ہے۔ نیز رہائی سے متعلق عدالتی احکامات کو ردی کاغذ کی طرح ٹھکرادیا جاتا ہے اور انصاف حاصل کرنے کی تمام راہیں مسدود کرکے رکھ دی گئی ہیں۔