PMSS( پرائم منسٹرس اسپیشل اسکالرشپ ا سکیم) جس کا اجراء مرکزی سرکار نے ۲۰۱۰ء میں کشمیری طلبہ کیلئے اس مقصد کے لئے کیا تھا کہ اس اسکیم کے ذریعے ایسے طلبہ کی مالی مدد کی جائے گی جو تعلیم کے حصول کا شوق رکھنے کے باوجود مالی تنگی کی وجہ سے بیچ میں ہی تعلیم کو خیرباد کہہ دیتے ہیں ۔ایسے طلبہ کو مرکزی سرکار کی طرف سے مالی مدد کی جاتی تھی تا کہ وہ اپنی تعلیم کو جاری رکھ سکیں ۔اسی سلسلے کے دوران سال ۲۰۱۰ء سے اب تک ایسے ہزاروں طلبہ و طالبات ہیں جن کو اس اسکیم کے تحت ہندوستان کے مختلف تعلیمی اداروں میں داخل کرایا گیااور طلبہ کو اس بات کا اطمینان بھی دلایا گیا کہ آپ کو کسی بھی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، بس آپ دل لگا کر اپنی تعلیم کو جاری رکھیں ،مگر بدقسمتی سے یہ اسکیم کشمیری طلبہ کے لئے ایک ڈرائونا خواب ہی ثابت ہوئی۔وہ اس لئے کہ سال ۲۰۱۰ء سے لے کر آج تک ہزاروں طلبہ کو ہندوستان میں جن تعلیمی اداروں میں داخلہ کرایا گیا تھا، ان میں سے چند سو طلبہ کو ہی اس اسکیم کے تحت مالی معاونت کی گئی اور باقی ماندہ طلبہ آج دردر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں ۔
کشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے جس کی وجہ ہے یہاں افراتفری کا ماحول قائم رہتا ہے اور اس سارے پر آشوب دور میں سب سے زیادہ نقصان طلبہ برادری کاہورہا ہے ۔ان نامساعدحالات کی مار طلبہ کو بھی سہنی پڑتی ہے اور اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ طلبہ کشمیر کو چھوڑ کر ریاست سے باہر کے تعلیمی اداروں کا رخ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ حالانکہ ان کو اس بات کا بھی بخوبی علم ہے کہ ہمارا ریاست سے باہر جانا خطرات سے خالی نہیں ہے اور انہیں آگے کنواں اور پیچھے کھائی جیسا معاملہ درپیش ہوجاتا ہے ۔یہ ایک کھلا راز ہے کہ ہندوستان کی جن ریاستوں میں کشمیری طالب علم تعلیم وتربیت حاصل کرتے ہیں ، وہاںلگاتار کسمپرسی کی حالت میں گئو رکھشکوں اور ہندو بلوائیوں کا خطرہ ان کے سر وں پر منڈلاتارہتا ہے ۔آج تک بہت سارے ایسے قابل مذمت واقعات ہمارے سامنے آچکے ہیں کہ کہیں گئو رکھشکوں یا کرکٹ میچ پر تاؤ کھانے والے ہند وؤں نے کشمیری طالب علموں پر نزلہ گرایا ۔ کہیں ان نہتے طلبہ سے’ وندے ماترم اور بھارت ماتا کی جے ‘‘جیسے نعرے لگوانے کے لئے ان کو ہراساں کیا جاتا رہا اور کہیں پاکستانی ٹیم کے میچ جیتنے پر ان کی مارپٹائیاں کی جاتی ر ہیں ۔ اس سارے وحشیانہ ظلم و ستم کے باوجود اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر کشمیری طلبہ وادی سے باہر کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے لگارتار جارہے ہیں ۔جیسا کہ پہلے ہی اوپر عرض کیا کہ مرکزی حکومت چند سال سے کشمیر کے غریب مگر ذہین طلبہ کے لئے تعلیمی اسکالر شپ فراہم کرتی ہے تاکہ تعلیم کا شوق رکھنے والے یہ طلباء وطالبات بغیر کسی رکاوٹ کے اپنی تعلیمی کیر ئر جاری رکھ سکیں مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ اسکالر شپ کے نام پر حکومتی سطح پر بھی اور چند غیر سرکاری تنظیمیں بھی اس اسکیم کو ایک کاروبار کی شکل دے چکے ہیں اور لاکھوں روپے اڑاکرنو دو گیارہ ہو جاتے ہیں ۔
ایسے ہی ایک بد قسمت طلبہ گروپ کے ساتھ راقم الحروف کو ان کی درد بھری کہانی سننے کا موقع ملا ۔نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ایک طالب علم نے کہا کہ ہم بائیس ۲۲؍ لڑکوں پر مشتمل ایک گروپ نے مذکورہ اسکیم کے تحت پنجاب کی ایک یونیورسٹی (دیش بھگت)میں داخلہ لیا اور ہم نے تین سال تک وہاں تعلیم حاصل کی مگر اس پورے عرصے میں ہم میں سے ایک بھی طالب علم کو اسکالر شپ نہیں ملی ۔اس دوران ادارے کی انتظامیہ نے ہمیں تین سال تک کچھ نہیں کہا اور جب ہماری ڈگری کے آخری سمسٹر کی باری آئی تو یونیورسٹی انتظامیہ نے ہمیں فارم بھرنے سے روک کر کہا کہ آپ پہلے اپنی فیس ادا کریں تب جا کر آپ امتحان میں شرکت کر سکتے ہیں ۔ہمارے ذہنوں میں اس سے قدرتی طور شکوک و شبہات اور خدشات نے جنم لیا کہ آج تک ان لوگوں نے فیس نہ مانگی اور جب ہم ڈگری مکمل کرنے جا رہے ہیں تو یہ اب ہمیں امتحان میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔ یہ ایسا معمہ ہے جس کو سلجھانے کی سخت ضرورت ہے۔
اصل میں یونیورسٹی انتظامیہ نے پہلے ہی چندسرکاری اور غیر سرکاری دلالوں کے ساتھ بات پکی کی ہوتی ہے کہ آپ ہمیں اتنے لڑکے دیں جن کو اسکالر شپ کے نام پر ہم یہاں داخلہ دیں گے اور جب ڈگری مکمل ہونے کو ہو گی تو ہم ان سے فیس مانگیں گے۔ چونکہ اس وقت ہرطالب علم مجبور ہوتا ہے کہ کہیں میرے تین چار سال ضائع نہ ہو جائیں،لہٰذا مجھے کسی نہ کسی طریقے سے فیس ادا کرنی ہے تا کہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکوں۔ طلبہ سے بھاری بھرکم فیسیں وصول کر کے انتظامیہ اس رقم کو ان سرکاری اور غیر سرکاری دلالوں میں تقسیم کرنے کے علاوہ خود بھی ہڑپتی ہے جو شروع میں ان کے شراکت دار بنے ہوتے ہیں۔ یہ نرالا بزنس ہندوستان کے متعدد شہروں خصوصاً کشمیر میں روز بہ روز اپنی جڑیں مضبوط کر تا جا رہا ہے۔ اس طرح کچھ مجبورطالب علم کبھی زمین زراعت فروخت کر کے اور کبھی گھر کی کوئی قیمتی شئے کوڑیوں کے دام بیچ کر بھاری فیس کو ادا کر تے ہیں ،جب کہ کچھ بد نصیب غربت کی وجہ سے ادا ئیگی نہیں کر پا تے اور ان کا مستقبل تباہ و برباد ہو کر رہ جاتا ہے ۔ ایک اور طالب علم نے اپنا دکھڑا سناکرکہا کہ میں نے اسکالر شپ کی بنیاد پر سال ۲۰۱۴ء میں سرینگر کی ایک غیر سرکاری تنظیم کے ذریعے ایک تعلیمی ادارے میں داخلہ لیا اور اس دن مجھے وہاں پر جانے کے لئے پیسے بھرنے پڑے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔اس طرح سے معصوم طلبہ کو بہلا پھسلا کراُن سے پیسے بٹورتے ہوئے ان کے ساتھ اسکالر شپ کے نام پر کھلواڑ کیا جاتا ہے ۔متاثرہ طلبہ کا مزید کہنا تھا کہ اب ہماری ڈگری مکمل ہونے کو ہے لیکن ہمیں امتحان میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے ۔حالانکہ ہم نے حکومت وقت کی نوٹس میں یہ بات لائی مگر وہ بھی ٹس سے مس نہیں ہو رہی ۔ا س وجہ سے ہم ذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہو گئے ہیں ۔اس صورت حال سے بات واضح ہو گئی کہ ایک طرف وادی کے تعلیمی اداروں کو ایک منظم سازش کے تحت مقفل کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف حکومتی چیلے چانٹے اور دلال ایک منظم سازش اور دھوکہ دہی کا حصہ بن کر طلبہ کو ریاست سے باہربھیج کر ان کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کرر ہے ہیں ۔ ان کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ وادیٔ کشمیر کے نوجوان تعلیم سے دور رہیں اور جموں کشمیر کا مستقبل تاریک ہوجائے ۔ایسے اور بھی بہت سارے نوجوان ہیں جنہوں بیرون ِ کشمیر اپنی ڈگریاں مکمل کی ہوئی ہیں مگر اپنی ڈگریاں حاصل کرنے سے اس لئے قاصر ہیں کہ وہ غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیںاور لاکھوں روپے ادا کر نے کی پوزیشن میں نہیں ۔ آج ویہ طلبہ وطالبات در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں جب کہ ان کی مجبوریوں کا ناجائز فائدہ حکومتی کارندے اُٹھا رہے ہیں ۔
چونکہ طلبہ کے یہ سارے مسائل مرکز او ریاستی حکومتوں کے تحت آئے ہیں مگر اس کے باوجود بھی حکومت ان بے کس و مجبور طلبہ وطالبات کے مسائل کے حل نہیں کر رہی ہے۔ لہٰذا ضروری ہو گیا ہے کہ یہاں کی سیاسی و مذہبی جماعتیں، فلاحی ا نجمنیں اور سول سوسائٹی عوام الناس میں اس حوالے سے ایک بیداری مہم چلائیں تاکہ طلبہ برادری اس سازش کا مزید شکا ر ہونے سے بچ جائے ۔کشمیر کی سماجی تنظیموں اور سماج کے ذمہ دار طبقے کا بھی رول اہم بنتا ہے کہ وہ متاثرہ بے نوا طلبہ وطالبات کی مدد کریں اور اس حوالے سے حکومت کے خلاف ایک پریشر گروپ تشکیل دے کر اصلاح حوال کر یں۔ ایسے طلبہ وطالبات اور ان کے والدین سے بھی گزارش ہے کہ خود بھی آگے آئیں اور ایسے استحصالی عناصر کو بے نقاب کریں جو کشمیریوں کے ساتھ یہ اتیا چار کر تے ہیں۔ اگر ہم اب بھی نہ جاگے تو تعلیمی اسکالرشپ مافیا کا یہ گھنائونا مشن جاری رہے گا اور ہمارے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو ’ اُڑان یا حمایت‘‘ جیسی اسکیموں کے تحت بیرون ریاست لے جا کر خالی گمراہی کے سوا ان کے ہاتھ کچھ نہ آئے جب کہ وزیراعظم اسکالر شپ یوجناکے نام پر ہمارے ہونہار بچوں اور بچیوں کی تعلیمی زندگیاں تباہ وبرباد کر دی جائیں۔ہمیں چاہے کہ ہم ایسے سرکاری و غیر سرکاری دلالوں کو ننگا کر یں تاکہ ہمارے نوجوان طلبہ وطالبات کا مستقبل تاریکیوں کی نذر ہونے سے بچ جائے۔ اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو وہ دن دور نہیں جب ہمیں زندگی کے ایک ایک شعبہ میںا غیارکی مدد مانگنی پڑے گی بلکہ ہمیں ان کے رحم وکرم پر جینا ہوگا ۔ اپنوں اور غیروں کی ان ریشہ دوانیوں سے اپنے نوجوانوں کو با خبر رکھنا ہماار فرض اول ہے تاکہ ان کی سنہری صلاحتوں کو اسکالرشپ کے نام پر بے موت نہ مارا جائے ۔
رابطہ نمبر۔8492862632