۔20فیصد میوہ باغات میں ہی سڑ گیا،کولڈ سٹوروں کے باہر گاڑیوں کی لمبی قطاریں
بلال فرقانی
سرینگر//وادی کشمیر کی سیب صنعت، جسے مقامی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے، اس سال شدید بحران سے دوچار ہے۔ سیب کی قیمتوں اور مانگ میں کمی، کولڈ سٹوریج سہولیات کی شدید قلت اور مال برداری کے اخراجات میں اضافہ نے ہزاروںباغبانوں اور تاجروں کو مالی بحران کی طرف دھکیل دیا ہے۔ اکثر کسان مجبوراً اپنی محنت سے پیدا کی گئی فصلیں انتہائی کم نرخوں پر فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ تاجروں اور کسانوں نے بازار میں گراؤٹ کی بڑی وجہ ایران، امریکہ اور جنوبی افریقہ سے درآمد ہونے والے سستے سیب کو قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق شاہراہ کی بندش اور وقت پر کشمیری میوہ منڈیوں تک نہ پہنچنے سے غیر ملکی سیب بیرون ریاستوں کی منڈیوں میں بڑی تعداد میں پہنچے ، جس سے کشمیری سیب کی مانگ اور قیمتوں پر شدید منفی اثر پڑا۔باغ مالکان اور تاجروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس کے مقابلے میں سیبوں کی قیمت میں40 فیصد کمی دیکھنے کو ملی جبکہ ہائی ڈینسٹی سیب بھی جہاں گزشتہ برس150روپے فی کلو کے حساب سے فروخت ہوتے تھے وہیں امسال انکی قیمت بھی70روپے فی کلو تک سمٹ گئی۔ایشیا کی سب سے بڑی فروٹ منڈی سوپور، کے صدر فیاض احمد کاکا جی نے کہا’’اگست کے وسط سے اب تک قیمتوں میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ کرایہ تو بڑھ گیا، لیکن سیب کے نرخ اب بھی 300 سے 400 روپے فی ڈبہ ہے۔ انکا کہنا تھا کہ اعلیٰ معیار کے سیب کیلئے بھی زیادہ سے زیادہ 600 سے 800 روپے مل رہے ہیں، جبکہ پچھلے سال یہی ڈبہ 1000 روپے سے زائد قیمت میں فروخت ہوتا تھا۔انہوں نے کہا کہ جہاں15روز قبل سوپور سے روزانہ کی بنیادوں پر قریب400گاڑیاں بیرون ریاستوں کی منڈیوں کو روانہ ہوتی تھیں،وہیں انکی تعداد اب250کے قریب پہنچ گئی ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ باہر کی منڈیوں نے صاف کہا ہے کہ سیب نہ بھیجیں، کیونکہ وہاں خریدار ہی نہیں ہیں‘‘ ۔شوپیاں فروٹ منڈی کے صدر محمد امین نے واضح کیا کہ سیب کی قیمتوں میں گرائوٹ کی وجہ سے کاشتکار پریشان ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ برس سیب کا ایک کریٹ(قریب17کلو) کی قیمت جہاں 900 سے 1000روپے تک جاتا تھا وہیں امسال وہ300سے 500روپے تک فروخت ہورہا ہے‘‘۔ محمد امین نے کہنا تھا کہ اصل میں سرینگر،جموں شاہراہ قریب2ہفتوں تک بند ہونے کی وجہ سے5ہزار کے قریب میوہ گاڑیاں بیرون منڈیوں میں نہیں پہنچ سکیں،جو قیمتوں میں گرواٹ کا ایک بڑا سبب بن گیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ جہاں2ہفتے قبل منڈی سے روزانہ کی بنیادوں پر250سے 300میوہ گاڑیاں بیرون منڈیوں کو روانہ ہوتی تھیں وہیں یہ تعداد اب150سے200تک رہ گئی ہے۔ باغ مالکان کا کہنا ہے کہ بہت سارے علاقوں میں ہزاروں ٹن سیب کو درختوں سے اتارا بھی نہیں گیا ہے کیونکہ کم قیمتوں کی وجہ سے باغ مالکان اس کیلئے مزید اخرجات اٹھانے کیلئے تیار نہیں ہیں۔انکا مزید کہنا تھا کہ دیہات میں ہر جگہ میوہ باغات میں سڑا ہوا میوہ دیکھا جاسکتا ہے جسے اتارا نہیں گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ صرف جنوبی کشمیر میں ہی قریب 20فیصد میوہ باغات سے نہیں اتارا گیا ہے، کیونکہ اتارنے، پیکنگ کرنے اور منڈیوں تک پہنچانے میں جو لاگت آتی ہے اسے بہت کم فی ڈبہ فروخت ہورہا ہے۔ٹرانسپورٹ کے اخراجات میں بھی اس سال غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے، جس کی ایک بڑی وجہ سرینگر،جموں شاہراہ کی بندش اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔جبلی پورہ منڈی کے تاجرشبیر احمد نے کہا’’باغ مالکان کی حالت زار کا اندازہ لگائیں، وہ نہ تو مال باہر بھیج سکتے ہیں کیونکہ کرایہ زیادہ ہے اور نہ ہی کولڈ سٹوریج میں رکھ سکتے ہیں کیونکہ جگہ نہیں ہے۔ بازار کی مندی، مال برداری کے اخراجات، غیر ملکی درآمدات، کولڈ سٹوریج کی کمی اور انتظامی چیلنجز اس میں نمایاں وجوہات ہیں۔ وادی میں کولڈ سٹوروں کی تعداد89ہیں جہاں پر جگہ کی قلت کی وجہ سے مال بر دار گاڑیاں قطار در قطار اپنی بھاری کا انتظار کر رہے ہیں تاہم کولڈ سٹوروں میں جگہ ہی نہیں ہے۔