بشیر اطہر
یہ ایک خوش آئندہ بات ہے کہ دنیا بھر میں 21 فروری کو عالمی یوم مادری زبان منایا جارہا ہے، جس کے پیچھے یہ عوامل کار فرما ہیں کہ لوگ اس دن اپنی مادری زبان کے تئیں محبت کا اظہار کریں۔1999 میں یونیسکو نے جنرل کانفرنس میں اس دن کو منانے کی منظوری دی ہے اور فروری 2000کے بعد سے اس دن کو باقاعدہ طور پر منایا جارہا ہے۔ اس دن کی اہمیت یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد اردو زبان کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا، اس پر21 فروری 1952کے دن ڈھاکہ یونیورسٹی، جگن ناتھ یونیورسٹی اور ڈھاکہ میڈیکل کالج کے طلبہ پاکستان میں اردو کے ساتھ ساتھ بنگالی زبان کو بھی قومی زبان بنانے کےلئے احتجاج کر رہے تھے۔ پولیس نے ان احتجاجی طلباء پر ڈھاکہ میں گولیاں برسائی اور کئی طلبہ کو ہلاک کیا گیا اور کئی طالب علم زخمی ہوئے۔اس کے باوجود بنگالی نوجوانوں نے اپنا احتجاج جاری رکھا ، جس کے نتیجے میںبنگالی زبان کو 1956میں اُردو کے ساتھ قومی زبان کا درجہ دیا گیا۔یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بنگالی طالب علموں نے اپنی مادری زبان کی خاطر قربانیاں دی ہیں ۔اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کشمیٖری زبان بولنے والے ایسا کرسکتے ہیں؟ جواب نفی میں ہی ہوگا۔ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں چالیس فیصد لوگوں کو اپنی اُن مادری زبانوں میں تعلیم فراہم نہیں ہورہی ہے جو وہ اچھی طرح بول اور سمجھ سکتے ہیں ،اگرچہ اب ایجوکیشن سسٹم کو دُرست کرنے کےلئے کثیر اللسانی تعلیم کو بڑھاوا دینے کی کوششیں کی جارہی ہیں مگر پھر بھی یہ کوششیں ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہیں ۔یہی حال ہماری کشمیری زبان کا ہے اورکشمیری زبان بولنے والے اپنی ہی مادری زبان کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک کررہے ہیں ، اپنی دہری پالیسی کی وجہ سے اس زبان کے بولنے والے روز بروز کم ہوتے جارہے ہیں۔ کشمیری زبان کی خاطر جو سیمینار، مشاعرےاور ڈبیٹ منعقد کئے جارہے ہیں وہ محض دکھاوے کے ہوتے ہیں۔ کیوں کہ ان سیمیناروں، مشاعروں اور ڈیبیٹوں میں بھی بولنے والے مقرر زیادہ تردوسری زبانوں کا ہی استعمال کرتے ہیں۔ ایک اور بات یہ ہے کہ کشمیری زبان کے داعی محب اپنے اپنے گھروں میں بچوں اور افراد خانہ کے ساتھ اُردو اور انگریزی زبان میں ہی بات کرتے ہیں۔ دوسری جانب ریاستی سرکار بھی کشمیری زبان کے تئیں مخلص نظر نہیں آرہی ہے ۔اگرچہ کشمیری زبان کو تعلیمی نصاب میں شامل کیا گیا ہے،لیکن اس زبان کوآج تک وہ درجہ نہیں ملا جو باقی زبانوں کو ملا ہے۔ اسکولوں میں کشمیری زبان محض ایک مضمون کے طور پر پڑھائی جارہی ہے نہ کہ زبان کے طور پر۔کالجوں میں یہ زبان متبادل مضمون کے طور پر پڑھائی جارہی ہے جس سے یہ بات نمایاںہو رہی ہے کہ کشمیری زبان کا حال بالکل ہی بے حال ہے۔ ہماری یہاں کی گذشتہ سرکاروں نے بھی اس زبان کی خاطر کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا اور نہ ہی اسکولوں میں کشمیری مضمون کو پڑھانے کی خاطر اساتذہ کی بھرتی کےلئے کوئی باضابطہ حکم نامہ جاری کیا گیا۔ایک اور بات یہ ہے کہ کشمیری زبان جاننے والے شاعر اردو اور انگریزی میں شاعری کرتے ہیں اور اپنی مادری زبان میں شاعری کرنے سے انہیںشرم محسوس کرتے ہیں۔اگرہمارا رویّہ ہماری مادری زبان کے ساتھ ایسا ہی رہا تو حالات بد سے بد تر ہوجائیں گے اور کشمیری زبان محض نام کی رہے گی۔اگرچہ ہمارے پاس اس وقت کشمیری زبان وادب میں اعلیٰ معیار کی کتابیں موجود ہیں مگر ہماری نوجوان نسل ان کتابوں کا مطالعہ کرنے سے قاصر ہیں اور یہ کتابیں کتب خانوں کی الماریوں میں دھول چاٹ رہی ہیں، نہ کوئی پڑھنے والا اور نہ ہی کوئی پڑھانے والا۔کشمیری زبان کے محب بھی اس تذبذب میں ہیں کہ آیا ہم اپنی اس مادری زبان کا دفاع اپنی تحریر سے کریں یا ان زبانوں کا ،جن کے بولنے والے دنیا بھر میں موجود ہیں۔میں یہ بات وثوق سے کہہ رہا ہوں کہ انگریزی اور اردو زبانوں میں اتنا ادب لکھا گیا ہے جس کے بعد ان زبانوں میں لکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور آج بھی ایک کثیر تعداد ان زبانوں میں لکھ رہے ہیں مگر پھر بھی ہماری وادی میں ایسے بھی قلمکار اُبھر کر سامنے آرہے ہیں جو انہی زبانوں میں لکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی مادری زبان کو پس پشت ڈال رہے ہیں۔ اگرچہ کشمیری زبان میں لکھنے کی انہیں بھرپور صلاحیت موجود ہے، کہنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ دوسری زبانوں میں کیوں لکھتے ہیں۔مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی مادری زبان میں بھی لکھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے ۔مادری زبان میں ان ادیبوں ،شاعروں اور قلم کاروں کالکھا ہوا موادکشمیری طلبا و لوگوں کے لئے زیادہ مؤثر اور کارآمد ثابت ہوگا، کیونکہ جو جذبات اور احساسات وہ مادری زبان میں ہم تک پہنچا سکتے ہیں، وہ جذبات اور احساسات آپ دوسری زبانوں میں نہیں پہنچا سکتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ انگریزی زبان یہاں کا ایک مخصوص طبقہ ہی سمجھ سکتا ہے۔ ہمارے پاس ایسے افراد کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو کشمیری زبان کے علاوہ کسی بھی زبان کو سمجھ نہیں سکتے ہیں، اُن کی طرف بھی ہمارے ادیبوں اور قلمکاروں کا دھیان ہونا چاہئے۔ کیا ہم انہیں کشمیری زبان کے بجائے دوسری زبانوں کو اپنانے کی طرف مائل تو نہیں کررہے ہیں ؟ہمارے یہاں زبان وادب کےلئے ایسی سینکڑوں سرکاری اور غیر سرکاری تنظیمیں موجود ہیں جو کشمیری زبان وادب کو بچانے کےلئے بنائی گئی ہیں مگر ان کا کام قابل تحسین نہیں ہے کیونکہ ان کا کام صرف مشاعروں تک ہی محدود رہا ہے اور اس زبان کو فروغ دینے کےلئے ان کا کام صفر کے برابر ہے۔ نئی پود کی تربیت کےلئے ان کے پاس کوئی لائحہ عمل نہیں ہے۔ کشمیر میں کتنی ایسی تنظیمیں موجود ہیں جو کشمیری زبان میں رسالے شائع کرتے ہیں اور نوجوانوں کو ان رسالوں میں لکھنے کےلئے آمادہ کرتے ہیں؟ آپ شائد مجھ سے بہتر جانتے ہوں گے ۔آج بہت ساری تنظیمیں مادری زبان کی ترویج کے خاطر سیمینار منعقد کریں گی مگر ہر تنظیم کا مقصد محض یہی ہوگا کہ سیمینار حال لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہو اورمقررین سامعین سے مخاطب ہوںاور بس۔مقرر بھی کئ گنے چنے ادیب ہی ہوتے ہیں اور نوجوانوں کو ان پروگراموں میں پچھلی سیٹوں پر بٹھایا جاتا ہے کیونکہ ایسے سیمینار نوجوانوں کےلئے شجر ممنوعہ جیسی حیثیت رکھتے ہیں۔اگر آپ واقعی کشمیری زبان وادب کے شیدائی ہیں تو اس زبان کی ترویج کےلیے تن ومن سے کام کریں اور زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو کشمیری زبان کی طرف مائل کریں اور انہیں کشمیری بولنے کےلئے حوصلہ افزائی کریں تاکہ یہ زبان محفوظ رہ سکے اور یہ زبان درپردہ سازشوں کی شکار نہ ہوجائے۔یا د رہے کہ کشمیری زبان ہے تو کشمیریت کی مہک ہے۔ ہمیں خواب غفلت سے بیدار ہونے کی ضرورت ہےاور ہم سبھوں کو کشمیری زبان وادب کو بچانے کیلئے بھر پور کوششیں جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔
رابطہ۔7006259067
[email protected]