سرینگر// رزیرو بینک آف انڈیانے ریاستی سطح کی بینکرس کمیٹی کی اُس درخواست کو رد کردیا ہے جس میںا نہوں نے موجودہ نامساعد حالات کے دوران متاثر ہوئے تاجروں کے قرضہ جات کی ادائیگی میں نرمی کرنے اور ادائیگی کی مدت میں اضافہ کرنے کی گزارش کی تھی۔ ریاست جموں و کشمیر میں کام کرنے والے بینکوں نے ریاستی سطح کی بینکرز کمیٹی ،جس کا کنوینر جموں و کشمیر بینک ہے ، نے یکم اکتوبر 2016کو سینٹرل بینک سے رابطہ کرکے نامساعد حالات میں پھنسے علاقوں کے قرضداروں کیلئے راحت کی مانگ کی تھی ) تجارت پیشہ افراد کے قرضوں کی قسطوں کا ازسر نوجائزہ لیا جائے)۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ رزیرو بینک نے ریاستی سطح کی بینکرز کمیٹی کی درخواست حاصل کرنے کے بعد ریاستی حکومت سے اس بارے میں رپوٹ طلب کی تھی۔ذرائع کے مطابق ریاستی سرکار کی طرف سے کوئی بھی رپورٹ موصول نہ ہونے کی وجہ سے آر بی آئی نے اپنی ایک چھٹی 15نومبر کو بھیج دی جس میں ریاستی بینکرز کمیٹی کو بتایا گیا کہ قدرتی آفات کیلئے طے شدہ ہدایات کے تحت صرف صحیح لوگوں کو ،جن کی شناخت ریاستی انتظامیہ کرتی ہے، کو ہی نامساعد حالات /فساد کے دوران رعایت دی جاتی ہے۔آر بی آئی نے اپنے جواب میں لکھا ہے کہ یہ ضروری ہے کہ ان لوگوں کی شناخت کی جائے جنکو رعایت کی ضرورت ہے۔ آر بی آئی نے اپنے جواب میں مزید لکھا ہے کہ کیونکہ ریاستی حکومت یا ضلع انتظامیہ نے ابتک کسی بھی علاقے کو فساد زدہ یا شورش زدہ قرار نہیں دیا ہے جسکی وجہ سے جموں و کشمیر بینک اور ریاستی سطح کے بینکوں کی طرف سے مانگیں اس زمرے میں نہیں آتی ہیں ‘‘۔ وادی میں ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ ریاست میں بینکوں کے قرضداروں اور تجارت پیشہ افراد کیلئے ایک بڑا دھچکہ ہے جنکو نامساعد حالات کے دوران کافی نقصان ہوا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے اس معاملے میں ریاستی سرکار سوتی رہی ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ریاستی سرکار نے لوگوں سے معاونت اور باز آبادکاری کا وعدہ کیا تھا مگر آر بی آئی کی طرف سے ایسے لوگوں کیلئے مدد سے انکار تمام دعوئوں کی کلی کھلوتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ریاستی سرکار متاثرین کی باز آباد کاری میں سنجیدہ ہوتی تو اس نے جموں و کشمیر ریاستی سطح کی بینکرز کمیٹی کے رپورٹ کی تصدیق کی ہوتی ۔ انہوں نے کہا کہ رپورٹ کی تصدیق نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ کشمیر میں تجارت کو نقصان پہنچانے کی سوچی سمجھی سازش ہے۔