ریحانہ شجر
ہر فن پارہ قاری کے ذہن و دل پر اپنا امتیازی نقش ثبت کرتا ہے۔ زیرِ نظر کشمیری افسانہ ’’قادر تورکن خضر بب‘‘ شکیل الرحمان کا ادبی شاہکار ہے۔ مطالعہ کے دوران نگاہوں کے سامنے (Matryoshka) ماتریوشکا (روسی گڑیا)کی سی تہ داریوں کا تصور جاگ اٹھتا ہے۔ مصنف کی یہ تحریر داستان کی کشش، کہانی کی چاشنی اور افسانے کا لبادہ لباس اوڑھے قاری کو تخیل کی سرزمین کی سیر کراتی ہے اور روزہا تک اپنے سحر میں جکڑے رکھتی ہے۔ کشمیری افسانہ نگاروں میں شکیل الرحمان کا اسلوبِ بیان یکتا اور فنی مہارت انفرادیت کی حامل ہے۔
کردار نگاری کا کمال :خضر بب ایک غیر مرئی قوت کہانی کا محوری کردار ہے۔
قادر تورکہ نامی مرکزی کردار نامساعد حالات اور مفلسی کے باعث بچپن میں ہی مقامی تورکہ چھان (اخروٹ کی لکڑی کا کاریگر) کے پاس پیشہ سیکھنے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔ محنت، ذہانت اور خداداد صلاحیتوں کی وجہ سےوہ محدود وقت میں ہنر کا استاد بن جاتا ہے۔ وہ ہمیشہ خضر بب کے معنی خیز اقوال زمزمہ وار دہراتا رہتا ہے۔جن کی بدولت محلے کے مکینوں اور دکان داروں کا مشیر اور فیصلہ ساز بن بیٹھتا ہے۔ ان پُراثر کلمات سے متاثر ہو کر ہر دل خضر بب کو دیکھنے اور اس سے ہم کلام ہونے کی آرزو لئے پھرتا ہے۔
مُنۂ ۔ایک نکتہ رس کردار :افسانے کا اہم ترین کردار ’’مُنۂ‘‘ قادر تورکہ کی پرچھائی معلوم ہوتا ہے۔ جس طرح قادر تورکہ بچپن میں تیزفہم شاگرد رہا تھا۔ ویسا ہی کہانی میں ’’ مُنۂ‘‘ کا کردار پیش کیا گیا ہے۔کہانی کا آغاز اسی کردار سے ہوتا ہے جو پلک جھپکائے بغیر اپنے استاد کے ہاتھوں کا کمال دیکھتا رہتا ہے۔کس طرح وہ بسولی کو ہلکے سے گما تا ہے اور اخروٹ کی لکڑی نئے روپ بدلتی ہے۔ مٹی کو آکار دیتے ہوئے وہ رستم کرال ( رستم نامی کمہار)کو کئی بار دیکھ چکا ہے، مگر اب سمجھ میں آچکا تھا کہ مٹی کی نسبت لکڑی کو شکل دینا مشکل تر ین کام ہے۔ البتہ دونوں کو تشکیل دینے کے لئے پہیے کی گردش درکار ہے!
یہاں کہانی میں فلسفہ چھپا ہے۔یہ قاری پر منحصر ہے کہ تخیل کی اڑان اس کو کہاں لے جاتی ہے۔ مٹی کو شکل و صورت دینا آسان ہوتا ہے۔ جس کو پہئے کی گردش اور کمہار کےہلکے ہاتھوں کا لمس نیا روپ دیتے ہیں ۔ اس کے برعکس اخروٹ کی لکڑی کی ساخت سخت ہوتی ہے جس کو آکار دینے کےلئے پہئے کی گردش کے ساتھ کاریگر یعنی فن میں ماہر استاد کے ہاتھوں اور دیگر اوزاروں کی بھی ضرورت پڑتی ہیں۔
منظر کشی: کہانی کی منظر کشی مصنف کے کمال فن کا بہترین نمونہ ہے۔ دکان کے اندرونی منظر کو تخیل کے خوبصورت رنگ دے کےقلم کی آنکھوں سے اس طرح سجایا ہے کہ قاری اپنے آپ کو اس زمان و مکان میں پاتا ہے جہاں: قادر تورکہ کی ’تورکہ مشین ایک جانب نصب ہے۔ سامنے مستطیل چوکی جس پر وہ کام کرتا ہے۔ دھول آلود فضا میں ساٹھ کَنڈل کا آویزاں زرد بلب روشنی کی لُکنت بکھیرتا ہے۔ دائیں جانب صرف خضر بب کے لیے مخصوص چوکی پر درّی بچھی ہے، جس کے ایک طرف گاؤ تکیہ ٹیکنے کو رکھا ہے۔اس جگہ پر بیٹھنے کی ہمت کوئی مائی کا لال نہیں کر پاتا۔
مصنف نے قادر تورکہ کے گھر سے دکان تک کے سفر جیسی معمولی بات کو اپنے تخلیقی جوہر سے نادر بنایا ہے۔ اس سفر میں ہمیشہ’’مُنہ‘‘ اس کا ہمسفر ہوتا ہے۔ فتح کدل کے دکان داروں کی عکاسی بھی منفرد انداز میں کی گئی ہے—قاری لمحوں میں اس جگہ پہنچ جاتا ہے:
’’یہ تہ مُنہ أسی فتح کدلہ پیٹھ پیدل چھژبل یوان گژھان تہ وتہِ یتھ تہِ کنہ کلس، ڈبرء یا نٹس پیٹھ قادر تورکس نظر پیوان أس تتھ اوس چندس بران۔ أمی سُند ونن اوس گرٔ کرُن ،گؤو یوہے‘‘۔( یعنی’’مُنہ‘‘ اور وہ فتح کدل سے چھتہ بل پیدل جاتے، جہاں کہیں کیل ، یا نٹ وغیرہ راستے میں پڑے مل جاتے۔ قادر تورکہ انہیں اٹھا کے جیب میں رکھ لیتا۔ اس کا ماننا تھا یہی گھر داری ہے۔)
جہاں لکڑی کے فریم پر دھول آلود پلاسٹک چڑھی ہے۔ قادر تورکہ کاکارخان بالمقابل ہریسہ والے کی دکان کے ۔ دائیں جانب گلہ کاژُرکی سائیکل دکان۔ بائیں جانب رحِم گور ( رحیم دودھ والے) کی دکان۔
فلسفیانہ تناظر اور افسانوی تکنیک :خضر بب موجود نہیں، مگر اس کے وجود کا سایہ پوری کہانی پر چھایا ہوا ہے۔ قادر تورکہ نے خضر بب کی عظمت اور اس کے اقوال کی تشہیر کا ایسا رنگ باندھا ہے کہ ہر فرد اسے دیکھنے کا متلاشی بن گیا۔ یہاں مرزا اسد اللہ خان غالب کا شعر یاد آتا ہے:
لازم نہیں کہ خضر کی ہم پیروی کریں
جاناں کہ ایک بزرگ ہمیں ہم سفر ملے
’میری زاویہ نگاہ یہ سوچنے پر آمادہ ہے کہ روزِ ازل سے ہی کچھ شخصیات اپنے پراسرار کلمات سے لوگوں کو خوف زدہ کر کے انہیں ضعیف الاعتقاد بنا دیتی ہیں۔ اس طرح لوگوں کو اپنے قول سے قائل کرتے رہے ہیں اور قومیں نسل در نسل اسی عقیدے کے سہارے زندہ رہی ہیں۔ یہ سلسلہ ابھی تک بھی ختم نہیں ہوا ہے اور شاید رہتی دنیا تک چلتا رہے گا‘۔ کہانی میں خضر بب کا کوئی قول درج نہیں ہیں۔ جس کی کمی سی بحیثیت قاری کے محسوس ہوتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ یہ غیر مرئی کردار کہانی پر حاوی ہے۔
قادر تورکہ نے پہلے کبھی خضر بب کے اقوال کے زور پر ہرسہ گؤر کے دکان کا معاملہ حل کیا تھا ۔ وہ مشیر بنتا اور فیصلے صادر کرتا ہے اور مجلسوں میں خضر بب کے اقوال کا حوالہ دے مجلس لوٹتا۔ قادر تورکہ کا کردار پڑھ کے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ باتوں کا جادو گر ہے۔ جس کی بنا پر معمولی قیمت دیکر ہریسہ کی کترن منگواتا ہے اور وقفے وقفے کے بعد کھاتا رہتا ہے۔
کہانی کے اختتام میں جب ’مُنہ‘‘ کو بھی اب کام کی سمجھ آگئی تھی۔ اس کو اب اخروٹ کی لکڑی پر بنے ڈزائن کے نشان دکھنے لگے اور کارخانے میں اخروٹ کی لکڑی کی خوشبو اچھی لگتی تھی ۔ اب اس کو بھی خضر بب کو دیکھنے کی آرزو تھی۔ تبھی ایک دن استاد سے پوچھتا ہے۔ ’’ووستا خضر بب کر سا ییہِ‘‘(استاد۔! خضر بب کا آنا کب ہوگا)
تو وہ حیران ہوکر’’ مُنہ‘‘ سے کہتا ہے’’ جو کچھ تمہیں خضر بب سے پوچھنا ہے مجھ سے پوچھ‘‘ ۔ میں بھی تو ہوں۔ ہوسکتا ہے وہ مصروف ہو یا اس وقت تم کہیں گئے ہونگے۔ اس کے آنے کا وقت مقرر تو ہے نہیں ۔ وہ تو مالک ہے۔ لیکن مُنہ مایوس ہوجاتا ہے۔ قادر تورکہ اپنی ہنسی کو قابو کرکے بڑبڑاتا ہوا کہتا ہے،’’ گوؤ نا مُنہ تہ چھ یپاری‘‘( یعنی ’مُنہ‘‘ بھی ابھی بے خبر ہے)۔’مُنہ‘ استاد کو ٹکٹکی لگا کر دیکھتا رہا اور استاد لکڑی کو نئے آکار دیتا گیا۔
’’یہ افسانہ شکیل الرحمان کے فنی بلوغت کی دستاویز ہے جس میں اصطلاحات کی رفعت، تخلیقی ذہانت، فلسفیانہ انداز، روایتی عقیدت کی نفسیات اور جمالیاتی ساخت سمٹ آئے ہیں۔ ساتھ ہی کشمیری زبان، ثقافت اور منظر نگاری کے تہہ دار رنگوں نے بھی اسے ایک منفرد شناخت بخشی ہے۔
( وزیر باغ، سرینگر ، کشمیر )
[email protected]