موں//ریاست جموں وکشمیر میں مختلف مذاہب ،طبقوں،قبیلوں اور مختلف زبانوں اوربولیوں کوبولنے والے لوگ رہتے ہیں۔متنوع مذاہب وزبانوں کوبولنے والی آبادی کی توقعات اوران کے جذبات کااحترام کرنااوران کومناسب نمائندگی دینا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن حال ہی میں محکمہ تعلیم کی جانب سے حال ہی میںایک سرکیولرگورنمنٹ آرڈر نمبر 333 Edu of 2017 ،مورخہ 19 جون 2017جاری کیاگیاہے جس میں تین علاقائی زبانوں بشمول کشمیری ، ڈوگری اوربودھی کو سکینڈری سطح پرتعلیمی نصاب میںسرکاری وغیرسرکاری سکولوں میں متعارف کرایاگیاہے ۔ اس حکمنامہ کے جاری ہونے کے بعد ریاست کے مختلف حصوں بالعموم اور خطہ پیرپنچال (راجوری پونچھ اضلاع ) بالخصوص میں آبادریاست کی پچاس فیصدکے قریب گوجری ،پہاڑی اورپنجابی زبان بولنے والی آبادی میںمحکمہ تعلیم اور حکومت کے تئیں شدیدناراضگی کی لہردوڑگئی ہے۔ اس حکمنامے میں بتایاگیاہے کہ حکومت نے گورنمنٹ آرڈر نمبر 652 Edu آف 2013 ، مورخہ 26 جون 2016 کے تحت تشکیل شدہ کمیٹی کی سفارشات کی بناء پر کشمیری ، ڈوگری اوربودھی کو سکینڈری سطح کے تعلیمی نصاب میں بطورچھٹے لازمی مضمون کے طورپرمتعارف کرانے کافیصلہ لیاگیاہے اوریہ حکمنامہ اکیڈمک سال 2018-2019 میں نویں جماعت اور اکیڈمک سال 2019-2020 سے دسویں جماعت کیلئے نافذالعمل ہوگا۔ راجوری پونچھ جہاں گوجراورپہاڑی آبادی کثیرتعدادمیں آبادہے نے اس حکمنامے کو اہم علاقائی زبانوں گوجری اورپہاڑی زبانوں کے ساتھ ناانصافی قراردیاہے ۔اتناہی نہیں سکھ طبقہ نے بھی اس حکمنامے پراعتراض جتاتے ہوئے پنجابی زبان کو نصاب میں شامل نہ کرنے پرتشویش ظاہر کی ہے۔ قابل ذکرہے کہ جہاں گوجری کوہندوستان کی دیگرریاستوں مثلاً ہماچل پردیش ، گجرات ، راجستھان اوراترا کھنڈوغیرہ میں بھی سمجھااوربولاجاتاہے کیونکہ مذکورہ ریاستوں میں گوجری سے مماثلت رکھنے والی زبان بولی وسمجھی جاتی ہے۔ اتناہی نہیں پاکستان کے زیرانتظام کشمیرنیز خیرپختون خواہ اورافغانستان کی کثیرآبادی بھی گوجری نہ صرف سمجھتی ہے بلکہ روزمر ہ زندگی میں قبائلی گوجری زبان کااستعمال کرتی ہے وہیں پہاڑی زبان پوری ریاست میں بولی جاتی ہے اس کے علاوہ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں کثیرتعدادمیں لوگ پہاڑی زبان بولتے اورسمجھتے ہیں ۔خطہ پیرپنچال کے پہاڑی اورگوجری زبان کے ماہرین کاکہناہے کہ گوجری اورپہاڑی زبانیں نہ صرف علاقائی زبانیں ہیں بلکہ برصغیر کی معروف زبانوں میں سے ہیں لیکن ریاست جموں وکشمیر کے محکمہ تعلیم کی جانب سے ان اہم زبانوںکوسکینڈری سطح کے تعلیمی نصاب میں شامل نہ کرنے سے ریاست کی پچاس فیصدکے قریب گوجراورپہاڑی آبادی کے جذبات مجروح ہوئے ہیں ۔مختلف سکھ تنظیموں نے کہاکہ محکمہ اعلیٰ تعلیم نے پنجابی کونظرانداز کیاہے جس کوبرداشت نہیں کیاجائے گا۔ان کاکہناہے کہ حکومت کی طرف سے کشمیری ، ڈوگری اور بودھی کو سکینڈری سطح (نویں اوردسویں)کے تعلیمی نصاب میں شامل کرنے کاہم خیرمقدم کرتے ہیں لیکن گوجری اور پہاڑی کونظراندازکرنا باعث تشویش وقابل افسوس ہے۔انہوں نے کہاکہ گوجری اورپہاڑی زبانیں جنہیں لکھن پورسے پونچھ اور اڑی سے لداخ تک ریاست کی کثیرآبادی بولتی اورسمجھتی ہے کو محکمہ تعلیم کی جانب سے نصاب میں شامل نہ کرنا امتیازہے۔راجوری پونچھ کے گوجری اورپہاڑی زبانوں کے ماہرین اوردانشوروں نے ریاستی حکومت بالخصوص ریاستی وزیراعلیٰ سے پرزورمطالبہ کیاہے کہ آرڈرنمبر 333Edu آف 2017 میں فوری طورپر ترمیم کرکے گوجری ،پہاڑی اورپنجابی زبانوں کو سکینڈری سطح پر لازمی مضامین کے طورپر شامل کیاجائے اورانتباہ دیاہے کہ اگرایسانہ کیاگیا توگوجر،پہاڑی اورسکھ طبقہ کے عوام متحدہوکرحکومت کیخلاف احتجاج کی راہ اختیارکرے گی جس کی ذمہ داری محکمہ تعلیم وریاستی حکومت پرعائد ہوگی۔