ندیم خان
وادی کشمیر میں موسمِ خزاں کے آتے ہی لوگ پورے جوش و جذبے کے ساتھ موسمِ سرما کی بھرپور تیاریوں میں لگ جاتے ہیں۔ لوگ اپنی روزمرہ کا ضروری سازوسامان اور گرمی کے انتظامات پورا کرتے نظر آتے ہیں۔ انسانی سازوسامان کے ساتھ ساتھ مویشیوں کے لیے بھی موسم سرما میں خصوصی تیاری کی جاتی ہیں تاکہ مویشیوں کو سردیوں کے دوران سردی اور بیماریوں سے بچایا جائے، خصوصاً بھاری برفباری سے مویشیوں کو محفوظ رکھا جاسکے۔ وادی کے کئی علاقوں میں روایتی طور پر درجنوں قسم کی مختلف سبزیوں کو سُکھانے کا عمل تیز کیا جاتا ہے۔ یہ سوکھی سبزیاں کشمیری اصطلاح میں ’ہوکھہ سیون‘ کہلاتی ہیں۔ ان میں سب سے پسندیدہ ’اَلہ ہچِہ‘ یعنی سکھائے گئے کدو ہے، جسے عام طور پر گوشت کے ساتھ پکایا جاتا ہے۔ کشمیر میں لوگ خاصکر کشمیری خواتین ساگ، اچار، دال، مرچ مولی، پیاز، آلو، ٹماٹر اور دیگر سبزیوں کو برف گرنے سے پہلے ہی دھوپ میں سکھا کر گھر میںکسی محفوظ جگہ پر رکھ دیتے ہیں تاکہ بھاری برفباری اور شدید سردیوں کے دنوں میں ان سبزیوں کا استعمال کیا جاسکے۔ ان (خشک) سوکھی سبزیوں کو نہ صرف کشمیر میں سردیوں کے دوران غذائیت بخش مانا جاتا ہے بلکہ یہ روایتی کشمیری گھرانوں کا ایک اہم حصہ بھی ہیں۔ موسم سرما کے لیے تیار کی جانے والی کشمیر کی مشہور اور روایتی سبزی جسے ہم لوگ اچار کے نام سے جانتے ہیں ،مصالحوں کے ساتھ تیار کیا جاتا ہے جن میں لہسن، دھنیا، لال مرچ، اجوائن ،سرکا، کچا سرسوں کا تیل، نمک اور کئی اور مصالحہ جات ،اس میں شامل کئے جاتے ہیں اوراچار میں کھٹاپن لانے کے لیے سرکہ کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ کشمیری اچار کی کئی قسمیں ہیں جیسے سبزی والا اچار، مونج ہاکھ یعنی ساگ کا اچار، ندرو کا اچار، خوبانی کا اچار، آم کا اچار اور گوشت کا اچار وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح سے کشمیر میں مویشیوں کے لیے سردیوں کے دوران خشک گھاس، جسے کشمیری زبان میں ’’سکھوے گھاس‘‘ کہا جاتا ہے، کا بڑا ذخیرہ جمع کیا جاتا ہے تاکہ موسم سرما میں برفباری کے دوران گھاس کی کمی محسوس نہ ہو۔ بالائی علاقے بارہمولہ سے تعلق رکھنے والے امتیاز احمد صوفی نے ہمارے ساتھ اپنے برسوں کا تجربہ شیئر کرتے ہوئے کہا کہ میں اس وقت 76 سال کا ہوں ،میں نے کشمیر میں دیکھا ہے کہ ماضی میں ان علاقوں میں سات سے آٹھ فٹ تک برفباری ہوتی تھی اور مہینوں تک راستے بند رہتے تھے، جس کی وجہ سے لوگوں کو چھ ماہ کی تیاری کرنی پڑتی تھی۔ ایک اور بزرگ شہری غلام رسول میر نے بتایا کہ’’پہلے ہمیں کھانے پینے کی چیزیں پانچ مہینے کے لیے ذخیرہ کرنی پڑتی تھیں، جس میں مویشیوں کے لئے سوکھی گھاس اور دیگر غذا بھی شامل ہوتی تھی۔بقول اُن کے ایک بار کشمیر میں اتنی زیادہ برفباری ہوئی کہ حکومت کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے راشن پہنچانا پڑا، مگر اب حالات بالکل بدل چکے ہیںاور موسمیاتی تبدیلی اور ترقیاتی اقدامات کی بدولت اب کشمیر میں برفباری میں کمی آئی ہے۔ عام راستے اور سڑکیں بھی کم وقت میں بحال کی جاتی ہیں، تاہم وادی کشمیر کے بیشتر لوگ آج بھی اپنی روایتی طرزِ زندگی اور سردیوں کی تیاریوں کو زندہ رکھے ہوئے ہیں جو کشمیری ثقافت کا ایک خوبصورت حصہ ہے جس میں خواتین کا کردار زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے۔
ظاہر ہے کہ آج کل کے جدید دور میں جہاں ٹیکنالوجی کی انقلابی تبدیلیوں کے صدقے نئے نئے الیکٹرانک آلات سردیوں میں گرمی فراہم کرنے کے آلات اور قسم قسم کے گیس ہیٹرز بازار میں دستیاب ہیں۔ لیکن کشمیر میں آج بھی لوگ روایتی ‘کانگڑی کے استعمال کو حدت حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ سمجھتے ہیں،جوکہ کشمیر کی ثقافت کا ایک اہم حصہ ہے۔ سردیوں میں استعمال کی جانے والی کانگڑی کا استعمال کیسے ہوتا ہے اور اسے کیسے بنایا جاتا ہے اس حوالے سے ہم نے مٹی کے برتن تیار کرنے والے کمہار جاوید احمد کمہار سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ کانگڑی یا کانگئر کمہار کی طرف سے تیار کیا گیا مٹی کا ایک بڑا سا پیالہ نما برتن ہوتا ہے ،جس پر بید کی بہت ساری مختلف قسم کی پتلی چھڑیاں چڑھائی جاتی ہیں۔ اس برتن میں سُلگائے ہوئے کوئلے ڈال کر اسے روایتی لمبے فیرن کے اندر پکڑ لیا جاتا ہے۔ جس سے انسان کو قدرتی گرمی حاصل جاتی ہے۔ اس وقت کشمیر میں لوگ اپنے اپنے علاقوں میں کوئلہ بنانے میں مصروف ہیں اور یہ کوئلے مختلف اقسام کے ہوتے ہیں۔ کچھ سیبوں کے درخت کی ٹہنیوں کی کٹائی کر کے تو کچھ درخت کے پتوں کو جمع کر کے کوئلہ بناتے ہیں۔ کشمیر کے لوگ سردیوں کے موسم سے بچنے کیلئے اس کوئلے کو کانگڑیوں میں بھر کر اپنے آپ کو سردیوں سے بچاتے ہیں۔ ایک مقامی زمیندار اشفاق پرویز لون کا کہنا ہےکہ سردیوں کے شروع ہونے سے پہلے ہی ہم کوئلہ بنانے کے کام میں لگ جاتے ہیں، تاکہ آنے والی شدید سردیوں سے ہم ان کا استعمال کرسکیں اور اپنے اہلِ خانہ کو سردیوں سے بچا سکیں۔ ایک اور مقامی شخص وسیم ملک کے بقول کانگڑی کے بغیر کشمیر میں سردیوں کے دن کاٹنا بہت ہی مشکل ہے۔ لہٰذا ہم پہلے سے ہی کانگڑیوں میں استعمال کے لیے لکڑیوں اور پتوں کی تلاش شروع کر دیتے ہیں اور پھر ان سے کوئلہ بناتے ہیں۔ جس کسی بھی علاقے میں آپ اس وقت جائیں گے شمال سے جنوب تو آپ دیکھیں گے کہ کشمیری لوگ کوئلہ بنانے کے کام میں مصروف ہیں، پھر چاہے وہ عورت ہو یا مرد، ہر ایک اس کام میں اپناحصہ ضرور ڈالتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ لوگ یہ کوئلہ نہ صرف اپنے لئے بناتے ہیں بلکہ اس کوئلے سے اپنا روزگار بھی چلاتے ہیں اور اس کوئلے کو کشمیر کے مختلف اضلاع جیسے سرینگر، اننت ناگ، شوپیان، بانڈی پورہ وغیرہ میں لے جا کر بیچتے ہیں، جس سے ان کا روز مرہ کا گزارہ بھی چل پاتا ہے۔ موسمِ سرما کے آتے ہی کشمیر میں اونی اور گرم ملبوسات، کپڑے، کمبلوں ،فیرن اور رضائیوں کی خرید و فروخت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ کشمیر میں لوگ اناج بالخصوص دال، چاول، لکڑی، تیل اور ایندھن کی دیگر مصنوعات کا ذخیرہ بھی کرتے ہیں، بلکہ یہ ایسا کام ہے جو وادی کشمیر کے لوگوں میں صدیوں سے جاری وساری ہے۔ کشمیرکی مشہور شخصیت ظریف احمد ظریف کہتے ہیں ،’’ماضی بعید میں وادی کشمیر میں موسم سرما خاص طور پر چلہ کلان، چلہ خورد اور چلہ بچہ کے ایام اس سے کہیں زیادہ سخت ہوا کرتے تھے اور برفباری اس قدر شدید ہوا کرتی تھی کہ زندگی مکمل طور پر تھم جاتی تھی۔ اس صورتِ حال میں جب لوگوں کے لیے گھروں سے نکلنا بھی مشکل بلکہ ناممکن بن جاتا تھا، وہ سوکھی سبزیوں اور مہینوں پہلے ذخیرہ کئے گئے چاول اور ایندھن سے کام چلاتے تھے۔‘‘ کشمیر میں موسم سرما میں ان ساری چیزوں کا استعمال پرانے وقت سے چلا آ رہا ہے جن کا ذکر ہمیں کتابوں، بزرگوں اور صوفیوں سے ملتا ہے۔ لیکن جدید دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ دھیرے دھیرے ان چیزوں کا استعمال کم ہوتا جارہا ہے۔ اس کی وجہ جاننے کے لئے ہم نے بارہمولہ سے تعلق رکھنے والے 81 سالہ بزرگ شخص غلام احمد خان سے جاننے کی کوشش کی تو انہوں نےبتایا کہ’’ مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ جب میں چالیس برس کا تھا تو کشمیر میں لوگ موسم سرما کے لیے خاص تیاریاں کرتے تھے، بالکل ویسے ہی جیسے ہم عید کے دن کی تیاری کرتے ہیں۔ ویسے ہی دور قدیم میں کشمیر کے لوگ بڑی محنت سے لکڑیاں اکٹھی کرتے تھے ،کوئلے تیار کرتے تھے ،درجنوں سبزیاں سُکھاتے تھے۔کیونکہ اُس زمانے میں لگ بھگ آٹھ سے نو فٹ برف گرتی تھی،جبکہ آج مشکل سے دو تین فٹ برف پڑتی ہے اور لوگ ڈر جاتے ہیں۔بقول اُنکے آج کل لوگ آسانیاں ڈھونڈتے نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے کشمیر کا رواج ثقافت اور روایت ختم ہوچکی ہے۔ مثلاً کانگڑی کا استعمال ختم ہوتا جارہا ہے کیونکہ آج کل کی نئی ٹیکنالوجی کے سبب گرمی حاصل کرنے کے مختلف آلات مارکیٹ میں آچکے ہیں، جسے ہم الیکٹرانک ہیٹر کہتے ہیں۔ اسی طرح موسم سرما میں کشمیر کا مشہور لباس فیرن جو انسان کے پورے بدن کو ڈھانپنے کا کام کرتا ہے، آج کل کے جوان کو اسے پہننے میں شرم محسوس کرتےہیں،فیرن پہننے کا رواج بھی کم ہوگیا ہے۔موسم سرما کے لیے سبزیاں سُکھانا بھی بند کر دیا ہے، کیونکہ اس میں زیادہ محنت لگتی ہے۔ آج کل تو مارکیٹ میں ریڈیمیٹ اچار مل رہا ہے تو گھر میں بنانے کی کیا ضرورت ہے۔غرض یہ کہ آج ہمیں ہر ایک چیز موسم سرما میں بنی بنائی مل رہی ہے، اسی لئے ہم نے کشمیر کے فن ثقافت روایت کو کھو دیا ہے اور جس کا نشان شاید آنے والے دس سال بعد ہم دیکھ نہ سکیں گے۔‘‘الغرض اب ایسا لگتا ہے کہ جدید ٹکنالوجی آنے کے بعد اور نوجوانوں کی سوچ میں تبدیلی آنےسے کشمیر میں موسم سرما کے دوران قدیم دور میں استعمال ہونے والی چیزیں جن میں فیرن، کانگڑی، سوکھی سبزیاں، کوئلے، اچار وغیرہ جیسی چیزیں دھیرے دھیرے ختم ہورہی ہیں، جس سے ماضی سے چلے آرہے کشمیری رواج، ثقافت، رہن سہن، کھان پان وغیرہ آہستہ آہستہ تبدیل ہو رہا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر کے جس گھر میں ابھی جن بزرگوں کا سایہ موجود ہے، ان گھرانوں میں یہ رواج ابھی بھی زندہ ہے اور جب یہ لوگ بھی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ زندگی کے دن پورے کرکے چلے جائیں گے تو یہ ساری چیزیں شاید ہی ہمیں کشمیر میں دیکھنے کو ملیں گی۔ کیونکہ دورِ جدید کی ٹیکنالوجی نے ہمیں ایسے جھکڑ لیا ہے کہ کشمیر کے ہر فرد سے کشمیر کی تہذیب، رواج، تقافت، کھان پان یا پھر ہمارے پہناوے کو چھین لیاہے اورکشمیریوں کے لئے اپنی روایات کو زندہ رکھ پانا مشکل ہی نہیں ناممکن بنادیاہے۔
رابطہ۔ 9596571542
[email protected]