محمد امین میر
ہندوستان کی تہذیبی روح کے کینوس پر اگر کوئی گوشہ سب سے زیادہ لطافت، گہرائی اور جمالیات سے بھرپور ہے تو وہ کشمیر ہے۔ برف سے ڈھکی پہاڑیوں، نیلگوں جھیلوں اور شاعرانہ مناظر کے علاوہ، کشمیر کی اصل پہچان یہاں کے ہنرمند لوگ اور ان کی صدیوں پرانی دستکاریاں ہیں۔ پشمینہ کی لطافت، پیپر مشی کی نزاکت، کشیدہ کاری کے نفیس پھول، اخروٹ کی لکڑی پر کندہ کاری ،یہ سب محض ہنر نہیں بلکہ زندہ تاریخیں ہیں۔ان ہی تاریخوں کو ایک بار پھر عالمی منظرنامے پر اجاگر کرنے کا سہرا وزیر اعظم نریندر مودی کے سر جاتا ہے۔ ان کی تہذیبی سفارت کاری جو حالیہ پانچ ملکی دورے میں کھل کر سامنے آئی، نے کشمیری دستکاروں کو نہ صرف ہندوستان کے دل میں بلکہ دنیا کے بااثر ایوانوں تک پہنچا دیا ہے۔یہ مضمون اسی غیر متزلزل وابستگی پر روشنی ڈالتا ہے جو وزیر اعظم نے کشمیری ہنرمندوں کے تئیں دکھائی ہےاور یہ کہ کس طرح ان کی قیادت میں وادی کے ہنر کو بھارت کی پہچان اور نرم طاقت میں بدلا جا رہا ہے۔
وزیر اعظم مودی نے حالیہ گھانا دورے کے دوران وہاں کے نائب صدر کو کشمیری پشمینہ شال پیش کی۔ بظاہر یہ ایک سفارتی تحفہ تھا، لیکن درحقیقت یہ ایک گہرا پیغام تھا،نہ صرف دنیا کے لیے بلکہ خود کشمیریوں کے لیے بھی۔یہ تحفہ اس بات کا اظہار تھا کہ کشمیر بھارت کا حاشیہ نہیں، اس کی تہذیبی بنیاد کا مرکز ہے۔ یہ بھی عندیہ تھا کہ کشمیری ہنر کو عالمی مقام دیا جائے گا اور وادی کے ہنرمند بھی بھارت کے مستقبل میں برابر کے شریک ہوں گے۔کشمیری دستکاریوں کی تہذیبی میراث۔کشمیری ہنر محض روزگار کا ذریعہ نہیں بلکہ صدیوں کی تہذیبی وراثت ہے۔
پشمینہ: لداخ اور کشمیر کی عورتیں چنگتھنگی نسل کی بکریوں کی نرم اون سے بنے دھاگے کو ہاتھوں سے کاتتی ہیں اور ہفتوں میں ایک شال بنتی ہے۔
اخروٹ کی لکڑی کی کندہ کاری: مغلیہ دور سے رائج یہ ہنر صرف کشمیر میں پایا جاتا ہے اور نفاست و نزاکت کی عمدہ مثال ہے۔
پیپرماشی:رنگ برنگے اور جاذب نظر ڈبے، گلدان، اور چراغ—سب ہاتھ سے بنائے اور ہاتھ سے رنگے جاتے ہیں۔
سوزنی اور آری کاری: کپڑوں پر ایسی باریک کشیدہ کاری کہ یورپ میں بھی اس کی مانگ ہے۔نمدہ، کانی شالیں، کھتم بند چھتیں، ریشمی قالین ،یہ سب کشمیر کے اس لطیف امتزاج کا نمونہ ہیں جو قدرت اور انسانی ہنر کو یکجا کرتا ہے۔وزیر اعظم کی ان دستکاریوں میں دلچسپی محض دکھاوے کی نہیں بلکہ ایک تہذیبی، اقتصادی اور روحانی پالیسی کا حصہ ہے۔وزیر اعظم مودی نے اپنے متعدد ‘’’من کی بات‘‘ پروگراموں میں کشمیری ہنرمندوں کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے پشمینہ، زعفران اور قالینوں کو بھارت کی شناخت بنانے کی بات کی۔ ایک یومِ آزادی خطاب میں انہوں نے کہا:’’جب آپ کشمیری شال خریدتے ہیں، تو محض اون نہیں بلکہ اُس ہاتھ کی عزت خریدتے ہیں جو اسے بناتا ہے۔‘‘یہ باتیں صرف تقریریں نہیں تھیں، بلکہ ان کے ساتھ پالیسی اقدامات بھی کیے گئے۔
کشمیری ہنر کو ملی ٹھوس حکومتی مدد :
۱۔ جی آئی ٹیگس (Geographical Indication):پشمینہ، سوزنی، پیپر مشی، اخروٹ کی لکڑی کی کندہ کاری جیسے کشمیری ہنر کو جی آئی ٹیگ دیا گیا، تاکہ جعلی مصنوعات کو روکا جائے اور اصلی ہنرمندوں کی حفاظت ہو۔۲۔ ODOP اسکیم (One District One Product):سرینگر میں پشمینہ، پلوامہ میں نمدا اور دیگر اضلاع میں مخصوص دستکاریوں کی شناخت کی گئی اور برآمد، تربیت و ای کامرس کے لیے مدد دی گئی۔۳۔ ڈیجیٹل مارکیٹ تک رسائی:کشمیری کاریگر اب Amazon، Flipkart اور GeM پر اپنی اشیاء بیچ سکتے ہیں۔ اننت ناگ کا ایک کاریگر اب اپنا بنایا ہوا ڈبہ برلن میں بیچ سکتا ہے۔۴۔ وزیراعظم وشوکرما یوجنا، مائیکرو لونز، ہنر مندی اسکیمیں:ہنرمندوں کو تربیت، قرض اور قانونی سپورٹ دی جا رہی ہے تاکہ وہ اپنی دستکاری کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کر سکیں۔۵۔ ہنر کی ترقی کے لیے انفراسٹرکچر:لومز (کرگھے) اپگریڈ کیے گئے، خام مال پر سبسڈی دی گئی، اور حکومتی خرچے پر نمائشوں کا انعقاد کیا گیا۔
وزیر اعظم اکثر اپنی زندگی کے ابتدائی دنوں کا ذکر کرتے ہیں جب وہ محنت مزدوری کرتے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ ہنرمندوں کے تئیں خاص انس رکھتے ہیں۔سرینگر کے کرافٹ ڈیولپمنٹ انسٹیٹیوٹ کے دورے کے دوران انہوں نے کشیدہ کاری کرنے والی بزرگ خواتین سے کہا:’’آپ کے ہاتھ ہمارے دیش کی شان ہیں اور آپ کا کام ہماری وراثت ہے۔‘‘یہ الفاظ محض خوشامد نہیں بلکہ ایک پرانی قرض کی ادائیگی تھی۔اس جذبے کے اثرات زمینی سطح پر دکھائی دے رہے ہیں،اب وادی کے نوجوان دستکاری سے شرمندہ نہیں، فخر محسوس کرتے ہیں۔
ہنر کی نرم سفارت کاری : جب وزیر اعظم نے گھانا کے نائب صدر کو پشمینہ دی، یا جاپان، فرانس اور امریکہ کے لیڈروں کو بھارتی ہنر کے تحفے دیے، تو وہ صرف تحفے نہیں دے رہے تھے،وہ بھارت کی روح دے رہے تھے۔یہ ہے ’مودی ڈاکٹرائن ‘جس میں تعلقات صرف دفاعی معاہدوں پر نہیں بلکہ تہذیبی تبادلوں پر بنتے ہیں۔کشمیر عالمی نقشے پر اجاگر ہو رہا ہے۔کشمیری اشیاء کی عالمی مارکیٹ میں مانگ بڑھ رہی ہے۔وادی میں سیاحتی کشش اور اقتصادی بہتری آ رہی ہےاور سب سے بڑھ کریہ ثقافتی امن لا رہا ہے۔
گزشتہ پانچ سالوں میں کشمیر پر بے شمار سیاسی باتیں ہوئیں، لیکن اکثر ایک پہلو نظر انداز ہوا۔وزیر اعظم چاہتے ہیں کہ کشمیری خود اپنی کامیابی کی داستان لکھیں۔قالین، سیب، زعفران اور شالوں سے۔یہ ایک نیا طرزِ حکمرانی ہے، جہاں نعرے کے بجائے شال اور تقریر کے بجائے ہنر بولتا ہے۔آگے کیا مزید کیا جا سکتا ہے؟ ہر ضلع میں دستکاری اسکول جہاں روایت اور ٹیکنالوجی ایک ساتھ سکھائی جائے۔ سری نگر و گلمرگ میں عالمی ہنر سمٹ—ڈیزائنرز، سرمایہ کار اور ماہرین کو مدعو کیا جائے۔ خواتین کی قیادت میں کاریگر کوآپریٹیوز،خاص کر کشیدہ کاری، پشمینہ، اور نمدا سازی میں۔ بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر ’’کشمیر ٹو دی ورلڈ‘‘ اسٹورزجی آئی ٹیگ کے ساتھ برانڈنگ ہو۔ کرافٹسمین ویزا اسکیم ،تاکہ کشمیری ہنرمند بیرونی نمائشوں میں خود شریک ہوں۔ وزیر اعظم اکثر اپنے لباس میں ہندوستانی ہنرمندوں کی جھلک دکھاتے ہیں،شال، واسکٹ، پگڑی سب میں ایک پیغام ہوتا ہے۔جب وہ کشمیری دستکاری بطور تحفہ دیتے ہیں، تو وہ صرف اشیاء نہیں دے رہے،وہ ثقافت، عزت اور امید بانٹ رہے ہوتے ہیں۔کشمیر ایک پل بن چکا ہے،جہاں سے تہذیب گزرتی ہے اور مودی جی اس پل کے معمار دکھائی دیتے ہیں۔دنیا دیکھ رہی ہے۔وادی سن رہی ہےاور درمیان میں ایک پشمینہ کا دھاگا نرمی سے امید بُن رہا ہے۔
[email protected]>