سرینگر// مسئلہ کشمیر حل کرنے کیلئے مذاکراتی عمل شروع کرنے کی وکالت کرتے ہوئے مین اسٹریم و مزاحمتی لیڈروں، دانشوروں، سیول سوسائٹی ممبران اور صحافیوں نے وادی کی موجودہ صورتحال کو سنگین قرار دیا۔ دہلی نشین غیر سرکاری رضاکار انجمن’’سینٹر فار پیس اینڈ پراگرس‘‘ کی طرف سے سرینگر کے مقامی ہوٹل میں’’کشمیر،پیش راہ‘‘ کے موضوع پر منعقدہ گول میز کانفرنس کے دوران مسئلہ کشمیر کو حل کرنے پر خیالات کا تبادلہ کیا گیا۔کانگریس کے سنیئر مرکزی لیڈر منی شنکر ائر نے کہا کہ گزشتہ برس اگست میں وادی میں صورتحال ابتر تھی تاہم اس کے برعکس اب حالات ٹھیک نظر آرہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سابق وزیر اعظم ہند نرسہمارائو نے کہا تھا کہ اٹانومی کے حوالے سے’’آسمان حد ہے‘‘ ،تاہم اس تنازعہ کو حل کرنے کیلئے کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی۔کانگریس کے سابق صدر پروفیسر سیف الدین سوز نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم ہند نریندر مودی کو بھاجپا صدر امت شاہ،جنرل سیکریٹری رام مادھو اور جتندر سنگھ غلط مشورے دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بیروہ کے نوجوان کو انسانی ڈھال بنا کر فوجی گاڑی سے باندھا گیا اور فوج نے اس افسر کے خلاف کارروائی کرنے کے بدلے اس کو انعامات سے نواز،جس کی وجہ سے کشمیر میں ایک غلط پیغام گیا ہے،اور یہ کشمیری عوام کو مشتعل کرنے کی سازش ہے۔ انہوں نے کہا کہ مزاحمتی لیڈر سید علی گیلانی،میرواعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک کا اس وقت اتحاد ہوچکا ہے اور وہ ایک زباں میں بات کر رہے ہیں،جبکہ مرکزی سرکار کو یہ موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہے اور مذاکراتی عمل شروع کرنا چاہے۔سوز نے کہا کہ حریت کے ساتھ بات چیت شروع کرنے کے علاوہ اور کوئی راہ نظر نہیں آ رہی ہے۔ پی ڈی پی جنرل سیکریٹری نظام الدین بٹ نے کہا کہ اب تک کشمیر کا مسئلہ نہ ہی قراردادوں اور نہ ہی باہمی معاہدوں کے ساتھ حل ہوا،جس کی وجہ سے کشمیری عوام کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی جگہ سے شرعات نہیں کی گئی تو خط پائین تک پہنچنا مشکل ہوگااور ایسی صورتحال میں سب سے زیادہ شکار نوجوان ہی بنیں گے۔انہوںنے کہا کہ اس بات کو تسلیم کیا جائے کہ کشمیریوں کو راحت دینی ہے اور اس کیلئے بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان یک رائے بنائی جائے۔نظام الدین بٹ نے کہا کہ کشمیر ایک مسئلہ ہے اور اس بات کو تسلیم کیا جانا چاہے کہ اس کو حل کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھاجپا کے ساتھ حکومت سازی بھی ایجنڈا آف الائنس کی بنیادوں پر تشکیل دی گئی ،جس میں مذاکراتی عمل کی وکالت کی گئی۔ نیشنل کانفرنس کے سنیئر لیڈر آغا روح اللہ نے کہا کہ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے،وہ کشمیریوں یا پاکستان کی کارستانی نہیں ہے،بلکہ بھارت کی ناکامی ہے۔انہوں نے کہا کہ بھارت نے نیک نیتی سے کھبی یہ نہیںسمجھاکہ کشمیر انکا ہے،بلکہ علامتی طور پر پاکستان کو چڑانے کیلئے کشمیر کے اٹوٹ انگ کا راگ الاپتے رہے۔انہوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کو تجربہ گاہ بنانے اور ریاست میں تجربہ کرنے کی بھارت کی روایت پرانی ہے،تاہم اس نے ناکامی کے بعد بھی سبق نہیں سیکھا۔انہوں نے اس بات کا انکشاف کیا کہ اسرئیلی سراغ رساں ایجنسی کے چیف کے ساتھ نئی دہلی میں وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کی ملاقات کے بعد کشمیر میں مختلف حربے آزمائے جا رہے ہیں،اور ایسی صورتحال پیدا کی جا رہی ہے کہ کشمیریوں کو عتاب کا نشانہ بنایا جائے۔انہوں نے کہا کہ حریت تو مرکزی حکومت سے کوسوں دور ہے،تاہم حکومت ہند کی نئی پالسیوں سے مین اسٹریم لیڈروں کو بھی وہ کھو رہے ہیں۔انہوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ’’ فوج آر ایس ایس کی آلہ کار ہے،جبکہ کشمیری عوام کے جذبات کو کچلنے کیلئے فورسز کی طرف سے تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے‘‘انہوں نے کہا کہ جنوبی کشمیر کو تو ہم نے کھو دیا ہے اور جنوب و وسطی کشمیر بھی اسی ڈگر پر اب چل پڑا ہے۔ ممبر اسمبلی کولگام اور سی پی آئی ایم لیڈر محمد یوسف تاریگامی نے پائیدا رحل تلاش کرنے کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کے دانشور اور مین اسٹرئم لیڈروں کے علاوہ سیول سوسائٹی ممبران کی طرف سے کشمیریوں تک نہ پہنچنے کی وجہ سے مزید خلا پیدا ہو اہے ،جس کی وجہ سے کشمیر کو بھارت کے لوگ مسئلے کو سیکورٹی کے زوایہ سے دیکھنے لگے۔انہوں نے بی جے پی صدر امت شاہ کی طرف سے وادی کے صرف3اضلاع میں صورتحال خراب ہونے کے بیان کو غیر ذمہ دارانہ بیان قرار دیتے ہوئے سوالیہ انداز میں کہا کہ کیا وہ چاہتے ہیں کہ پوری وادی آگ میں جل جائے،اس کے بعد وہ اقدامات اٹھائیں گے۔ انہوں نے موجودہ مرکزی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ کھبی وہ یہ کہتی ہے کہ یہ انکا پیدا کیا گیا مسئلہ نہیں ہے اور انہیں وراثت میں مل گیا،مگر سوال یہ نہیں کہ کشمیر تنازعہ کس دور میں کھڑا ہوا بلکہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت اس کیلئے کیا کر رہی ہے۔تاریگامی نے مشورہ دیا کہ کشمیری عوام تک پہنچنے کیلئے انکے جذبات اور احساسات کی قدر کرنی چاہے۔ انجینئر رشید نے حکومت ہند پر بھرستے ہوئے کہا کہ انہوں نے افہام و تفہیم کے راستوں کو بند کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ لوگ کشمیر میں پہلے آزادی چاہتے تھے،اور اب خلافت بھی چاہتے ہیں۔انجینئر رشید نے کہا کہ لوگ ذاکر موسیٰ کے ساتھ ہیں،اور مرکزی سرکار عسکریت پسندوں بشمول سید صلاح الدین کے ساتھ بات کریں۔ انہوں نے جذباتی انداز میں کہا کہ اب سید علی گیلانی،میرواعظ اور محمد یاسین ملک جیسے مزاحمتی لیڈر غیر مطلق ہو رہے ہیں،مین اسٹریم لیڈروں کی بساط ہی نہیں ہے۔انہوں نے مشورہ دیا کہ مباحثوں اور خطاب کا وقت اب گزر چکا ہے تاہم’’ دہلی کو یاد رکھنا چاہے،اگر ہماری جھونپڑیاں جلیں گی،تو ان کے محل بھی محفوظ نہیں رہیں گے‘‘۔بھاجپا کی ڈاکٹر حنا بٹ نے واضح کیا کہ اپنے ہی گھر میں شہریوں اور لوگوں کو ہلاک کرنے والوں سے کوئی بھی بات چیت نہیں ہوگی۔انہوں نے کہا کہ جنگجو پہلے نیشنل کانفرنس کے کارکنوں کے پیچھے لگے ہوئے تھے اور اب پی ڈی پی کارکنوں کو ہلاک کر رہے ہیں۔عوامی نیشنل کانفرنس کے مظفر احمد شاہ نے کہا کہ بھارت نے گزشتہ70برسوں میں ریاستی عوام کے خلاف جو’’انسانیت سوز‘‘ کاروائیاں کیں اس پر انہیں لوگوں سے معافی مانگنی چاہے۔سیول سوسائٹی کارکن اور سابق وایس چیف ایر مارشل کپل کاک نے موجودہ صورتحال کو سنگین قرار دیتے ہوئے کہا کہ شرم کی بات ہے جب12سالہ بچہ اپنے کپڑے اتار کر فورسز اہلکار کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہوتا ہے کہ وہ اس کو گولی مار دیں۔انہوں نے کہا کہ دانستہ طور پر کشمیر میں ووٹ بنک کیلئے ایسی سورتحال پیدا کی جا رہی ہے،تاکہ بھارت کی دیگر ریاستوں میں انہیں فائدہ پہنچے۔انہوںنے مشورہ دیا کہ ستم رسیدہ لوگوں کے زخموں پر مرہم لگانے کی ضرورت ہے۔ حریت(ع) کے عبدالمجید بانڈے نے کشمیر کو ایک سیاسی مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ کشمیریوں کو صاف نظر آرہا ہے کہ وہ کشمیر میں محفوظ نہیں ہیں،اور ہر گذرتے دن دہلی اور کشمیر کے درمیان فاصلے مزید بڑ رہے ہیں۔انہوں نے واضح کیا کہ حریت کانفرنس مسئلہ کشمیر کا حل پرامن سے چاہتی ہے اور تینوں فریق مل بیٹھ کر اس مسئلہ کو حل کریں۔ گول میز کانفرنس میں غلام حسن میر،عثمان مجید،صحافی بگول شرما، مزاحمتی لیڈر جاوید احمد میر کے علاوہ سیول سوسائٹی ممبران اور دیگر لوگوں نے بھی اپنے تاثرات پیش کئے۔