کشمیرمیں اردومتروک ہونے کے اندیشوںنے محبان اردو کوسوچنے پر مجبور کر دیا ۔ ذہن میں کلبلائے سوالات نے اکسایا پھر کیا تھا قلم نے کروٹ لی اور اردو پر یہ مضمون تحریر ہوگیا۔اردو ایک بڑی جامع اور کثیرالجہت زبان ہی نہیں ہے بلکہ برصغیر کی اہم ترین لسانی میراث ہے۔ اس کی اپنی تاریخ ہے اور اس کے دامن میں بڑی وسعت ہے۔ اردو زبان کا شمار بھی دنیا کی بڑی زبانوں میں ہوتا ہے۔ یونیسکو کے اعداد دوشمار کے مطابق عام طور پر بولی اور سمجھی جانے والی زبانوں میں چینی اور انگریزی کے بعدیہ تیسری بڑی زبان ہے اور رابطے کی حیثیت سے دنیا کی دوسری بڑی زبان ہے ۔ کیونکہ برصغیر پاک و ہند اور دنیا کے دوسرے خطوں میں کروڑ سے زیادہ افراد اسے رابطے کی زبان کی حیثیت سے استعمال کرتے ہیں ۔ اردو مشرق بعید کی بندرگاہوں سے مشرق وسطی اور یورپ کے بازاروں ، جنوبی افریقہ اور امریکہ کے متعدد شہروں میں یکساں مقبول ہے۔ یہاں ہر جگہ اردو بولنے اور سمجھنے والے مل جاتے ہیں۔ یہ زبان ایک جاندار اظہار اور اظہار کا جان دار ذریعہ ہے۔اردو زبان کو تو عام طور پر سولہویں صدی سے ہی رابطے کی زبان تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہ تسلیم شدہ امر ہے کہ اس رابطے کی توسیع عہد مغلیہ میں فارسی زبان کے واسطے سے ہوئی۔ اردو زبان کی ساخت میں پورے برصغیر کی قدیم اور جدید بولیوں کا حصہ ہے۔ یہ عربی اور فارسی جیسی دو عظیم زبانوں اور برصغیر کی تمام بولیوں سے مل کر بننے والی ، لغت اور صوتیات کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی اور قبول عام کے لحاظ سے ممتاز ترین زبان ہے۔اردو ایک زندہ زبان ہے اور اپنی ساخت میں بین الاقوامی مزاج رکھتی ہے۔ یہ زبان غیر معمولی لسانی مفاہمت کا نام ہے۔ اس کی بنیاد ہی مختلف زبانوں کے اشتراک پر رکھی گئی ہے۔ اردو گویا بین الاقوامی زبانوں کی ایک انجمن ہے ۔ ایک لسان الارض ہے جس میں شرکت کے دروازے عام و خاص ہر زبان کے الفاظ پر یکساں کھلے ہوئے ہیں ۔
اردو زبان کی پیدائش، جائے پیدائش اور نشوونما کے بارے میں اردو کے عالموں، محققوں اور لسانیات دانوں نے اب تک کافی غور و فکر اور چھان بین سے کام لیا ہے جس سے اس موضوع پر اردو میں لسانیاتی ادب کا ایک وقیع سرمایہ اکٹھا ہو گیا ہے ۔اردو کے تمام ادیبوں، عالموں، محققوں اور ماہرینِ لسانیات کے خیالات و نظریات کا خلاصہ یہ ہے کہ اردو ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد کے بعد شمالی ہندوستان میں معرضِ وجود میں آئی اور اس پر دہلی اور اس کے آس پاس کی بولیوں کے نمایاں اثرات پڑے۔اہل اردو،اوراردوکے تمام ائمہ اور عالموں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اردو ایک خالص ہندوستانی زبان ہے۔ اس کا ڈھانچہ یا کینڈا یہیں کی بولیوں کے خمیر سے تیار ہوا ہے۔ اس کے ذخیر الفاظ کا معتدبہ حصہ ہند آریائی ہے، لیکن عربی اور فارسی کے بھی اس پر نمایاں اثرات پڑے ہیں۔اس امر کا ذکر یہاں بیجا نہ ہو گا کہ شمالی ہندوستان کے جن علاقوں میں عرص دراز سے اردو زبان رائج تھی، انہی علاقوں میں تاریخ کے ایک مخصوص دور میں دیوناگری رسم الخط میں لکھی جانے والی زمان حال کی ہندی جسے ’’ناگری ہندی‘‘کہتے ہیں، کا ارتقا عمل میں آیا۔ اس کے اسباب لسانی سے زیادہ فرقہ وارانہ (Sectarian) تھے جن کی جڑیں ہندو احیا پرستی میں پیوستہ تھیں۔ بعد میں انہی عوامل نے’’ہندی، ہندو، ہندوستان‘‘کے نعرے کی شکل اختیار کرلی۔ ہندوستان کے مذہبی اکثریتی طبقے نے دیوناگری رسم الخط کی شکل میں اس نئی زبان کو تقویت دینے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی جس کے نتیجے میں اردو چشم زدن میں محض ایک اقلیتی طبقے کی زبان بن کر رہ گئی اور 1947 میں برطانوی ہند کی تقسیم نے اس کے وجود پر ہی سوالیہ نشان لگا دیا۔
اردو کی بنیاد بلاشبہ کھڑی بولی پر قائم ہے۔ اس زبان کا باقاعدہ آغاز دہلی اور مغربی اتر پردیش’’مغربی یوپی‘‘میں ہوا، کیوں کہ کھڑی بولی علاقائی اعتبار سے مغربی یوپی کی بولی ہے۔ مغربی یوپی کا علاقہ بہ جانبِ شمال مغرب دہلی سے متصل ہے۔ اردو بشمولِ دہلی انھیں علاقوں میں بارھویں صدی کے اواخر میں معرضِ وجود میں آئی۔ تاریخی اعتبار سے یہ وہ زمانہ ہے جب دہلی پر 1193 میں مسلمانوں کا سیاسی تسلط قائم ہوتا ہے اور ترکوں، ایرانیوں اور افغانوں پر مشتمل مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ترکِ وطن کر کے دہلی میں سکونت اختیار کر لیتی ہے۔ اس دور میں دہلی میں سکونت اختیار کرنے والوں میں پنجابی مسلمانوں کی بھی ایک کثیر تعداد تھی کیوں کہ یہ لوگ پنجاب سے ہی نقلِ مکانی کر کے دہلی پہنچے تھے۔شمالی ہندوستان میں اس نئے سیاسی نظام کے قیام کے دور رس نتائج مرتب ہوے اور یہاں کا نہ صرف سیاسی منظرنامہ تبدیل ہوا، بلکہ اس کے اثرات یہاں کی سماجی اور تہذیبی و ثقافتی زندگی پر بھی پڑے۔ یہ تبدیلیاں لسانی صورتِ حال پر بھی اثر انداز ہوئیں۔ چنانچہ اس کا چلن نہ صرف دہلی کے گلی کوچوں، بازاروں، میلوں ٹھیلوں نیز عوامی سطح پر ہوا، بلکہ دھیرے دھیرے یہ ہندوستان کے دوسرے حصوں میں بھی رائج ہو گئی۔ نووارد مسلمانوں اور مقامی باشندوںجن کی یہ بولی تھی ‘کے باہمی میل جول کی وجہ سے اس میں عربی اور فارسی کے الفاظ داخل ہونا شروع ہوئے جس سے اس میں’’نکھار‘‘پیدا ہو گیا۔ کھڑی بولی کے نکھار کا یہ زمانہ اردو کا ابتدائی زمانہ ہے۔ کھڑی بولی کے اس نئے اور نکھرے ہوئے روپ یا اسلوب کو ’’ریختہ‘‘ کہا گیا اور اسی کو بعد میں ’’زبانِ اردوئے معلی‘‘، ’’زبانِ اردو‘‘اور بالآخر’’اردو‘‘کے نام سے موسوم کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اردو کے مزاج میں لچک اور رنگارنگی ہے لیکن وہ کسی زبان کی مقلد نہیں ہے بلکہ صورت اور سیرت دونوں کے اعتبار سے اپنی ایک الگ اور مستقل زبان کی حیثیت رکھتی ہے۔غیر زبانوں کے جو الفاظ اردو میں شامل ہیں وہ سب کے سب اپنے صلی معنوں اور صورتوں میں موجود نہیں بلکہ بہت سے الفاظ کے معنی، تلفظ، املا اور استعمال کی نوعیت بدل گئی ہے ۔ اردو مخلوط زبان ہونے کے باوجود اپنی رعنائی، صناعی اور افادیت کے لحاظ سے اپنی جداگانہ حیثیت رکھتی ہے۔ اس نے اپنی ساخت ، مزاج اور سیرت کو دوسری زبانوں کے تابع نہیں کیا۔ ان ہی ظاہری ومعنوی خصوصیات اور محاسن کے اعتبار سے یہ دنیا کی اہم زبانوں میں شمار کی جاتی ہے۔
یہ ایک لسانیاتی حقیقت ہے کہ ہر زبان اولا محض ایک بولی(Dialect)ہوتی ہے جس کا دائر اثرورسوخ ایک چھوٹے سے علاقے یا خطے تک محدود ہوتا ہے۔ جب یہی بولی بعض ناگزیر اسباب اور تقاضوں کے ماتحت جن میں سیاسی، سماجی اور تہذیبی و ثقافتی تقاضے شامل ہیں، اہم اور مقتدر بن جاتی ہے اور اس کا چلن عام ہو جاتا ہے اور یہ اپنی علاقائی حد بندیوں کو توڑ کر دور دراز کے علاقوں میں اپنا سکہ جمانے لگتی ہے تو ’’زبان‘‘کہلاتی ہے۔ پھر اس کا استعمال ادبی نیز دیگر مقاصد کے لیے ہونے لگتا ہے اور اس کی معیاربندی(Standardisation)بھی عمل میں آتی ہے جس سے یہ ترقی یافتہ زبان کے مرتبے تک پہنچ جاتی ہے۔اردو جو ایک ترقی یافتہ اور معیاری زبان ہے، اس کی کنہ میں یہی کھڑی بولی ہے اور یہی اس کی بنیاد اور اصل واساس ہے۔ ہند آریائی لسانیات کی روشنی میں یہ بات نہایت وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اردو کھڑی بولی کی ہی کوکھ سے پیدا ہوئی ہے بعد میں اس پر نواحِ دہلی کی دوسری بولیوں کے اثرات پڑے ۔ یہ ایک تاریخی اور لسانی حقیقت ہے کہ کھڑی بولی کے اس نئے اور نکھرے ہوئے روپ کو سب سے پہلے نووارد مسلمانوں اور ان کے بعد کی نسلوں نے اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔ اسے نکھارا، سنوارا اور جِلا بخشی جس سے یہ زبان اس لائق بن گئی کہ اسے ادبی مقاصد کے لیے استعمال کیاجاسکے، چنانچہ اس زبان کا ادبی استعمال بھی سب سے پہلے مسلمانوں نے ہی کیاہے۔
1846میںڈوگرہ راجہ گلاب سنگھ نے انگریزوں سے کشمیرکی حسین وادی ۵۷ لاکھ نانک شاہی سکے کے عوض خریدلی۔کشمیرپر قبضے کے بعد تک ریاست کی دفتری زبان فارسی رہی ۔ 1857 ء کی فرنگی استبدادکے خلاف ہندوستانیوں کی جنگ آزادی جموں و کشمیرمیں اردو کی ترویج کااہم سبب بن گئی۔ انگریزوں نے ہندوستان کی تحریک آزادی کو ناکام کرنے کے لیے گلاب سنگھ سے فوجی امدادطلب کی۔ گلاب سنگھ خوداگرچہ 1857میں حکومت کے کاموں سے دستبردارہوچکاتھا،پھر بھی انہوں نے انگریزوں کی مددکے لئے ڈوگرہ فوج کو دہلی کے لئے روانہ کیا۔ جب یہ جنگ ختم ہوئی تو یہ ڈوگرہ فوج عرصہ دہلی میں رکی رہی جہاں انہیں مزید تربیت دی گئی۔ یہ فوج اس دوران ایسے لوگوں سے ملتے رہے جن کی زبان اردو اور پنجابی تھی اور اس طرح یہ فوج ٹوٹی پھوٹی اردو بولنے لگے اور جب یہ فوج ریاست میں واپس آئی تو اپنے ساتھ اردو کے چند الفاظ لائے اور ان الفاظ کی مددسے کشمیر میں اردو کے رائج ہونے میں بڑی مددملی۔
1947میں تقسیم ہندکے بعدکثیر لسانیت کی حامل اردو، ریاست کشمیر کی انتظامی زبان قرارپائی تھی لیکن اب سرکاری زبان ہو نے کے باجود یہ زبان جس طرح سے سرکاری سطح پر عدم توجہی اور حوصلہ شکنی کی تختہ مشق بنی چلی آرہی ہے ، اسے اس امرکااندازہ لگاناکوئی مشکل نہیں کہ یہ اس زبان کومعدوم کرنے کاسوچاسمجھامنصوبہ ہے۔اردو ریاست جموں وکشمیر کے آرپارتمام خطوں کو جوڑنے والاذریعہ ہے ۔ اس تناظرمیں اردوسے کدرکھنااوراسے عدم توجہی کاشکاربنادیناسمجھ سے باہرہے ۔اگرکوئی یہ سمجھتاہے کہ اردوسے عدم توجہی سے یہ زبان کشمیرمیں معدوم ومتروک ہوجانے کاہماراخدشہ درست نہیں توانہیں کئی عشرے قبل کشمیرمیں فارسی کی صورتحال پرنظرڈالنی چاہئے کہ سترکی دہائی تک کشمیرمیں زبان فارسی کس عروج پرتھی لیکن عدم توجہی ،اس کی ناقدری اوراس کی بے تعظیمی کی وجہ سے آج وہ کہیں نظرآرہی ہے !!!اگرہے توکہیں لائبریریوںمیں بوسیدہ کتابوں کے اندر پڑی دھول چاٹ رہی ہے یاکشمیریونیورسٹی کے غریب الوطنی کے ایام گذارنے پر مجبورہوکرآخری سانسیں لے رہی ہے ۔ بہرحال اردو اپنے مزاج میں وسیع القلب زبان ہے اور اس میں الفاظ سازی کی بھی گنجائش بدرجہ ٔ اتم ہے۔ اردو زبان اپنی لسانی مفاہمت اور افادیت کے علاوہ اپنے اندر ایک تہذیبی اور ثقافتی پہلو بھی رکھتی ہے۔ یہ اپنے علمی ، ادبی اور دینی سرمائے کے اعتبار سے بڑی باثروت زبان ہے ۔ اردو میں وسعت پذیری کی بے پناہ طاقت موجود ہے۔ یہ جتنی وسیع ہے اتنی ہی عمیق بھی ہے۔ دینی اور دینوی علوم و فنون کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ پھر بھی اس کی گنجائش بے اندازہ ہے ۔ اردو زبان ہماری تہذیب و ثقافت کی آیئنہ دار ہے ۔ دنیا کی قدیم زبانوں کے مقابلے میں اگرچہ یہ کم عمر ہے لیکن ادبی اور لسانی حیثیت سے اس کا پلہ سینکڑوں زبانوں پر بھاری ہے۔ اردو زبان میں ہماری تہذیب و ثقافت کی تاریخ محفوظ ہے۔ اس کی بدولت ہم اپنے آپ کو ایک متمدن اور ترقی یافتہ قوم کا جانشین خیال کرتے ہیں۔ یہ زبان چونکہ بین الاقوامی مزاج رکھتی ہے، اس لیے نہ وہ مغرب کے لیے اجنبی ہے نہ مشرق کے لیے۔ یورپ کے لوگ کئی صدیوں سے اردو زبان سے واقف ہیں اور انہوں نے اس زبان میں گراں قدر علمی و ادبی کارنامے بھی یادگار چھوڑے ہیں۔ یورپ کے علاوہ دنیا کے مختلف ممالک میں اردو زبان و ادب کے تراجم پر کئی زبانوں میں کام ہو رہا ہے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زبان و ادب کے ذریعے مختلف علاقوں کے رہنے والے لوگ ایک دوسرے کے مزید قریب آسکتے ہیں اور ایک دوسرے کے لسانی واادبی سرمائے کو سمجھ کر تہذیبی حوالوں ے ایک دوسرے کی شناخت میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔اردو زبان محبت کی سفیر ہے ۔ یہ مختلف ذہنی دھاروں سے تعلق رکھنے والے ، مختلف عقائدسے وابستہ ، مختلف مزاجوں کے حامل بڑے گروہوں کی تخلیقی و تصنیفی زبان ہے اور بول چال کی سطح پر دنیا کے لاتعداد ممالک میں وہاں کی گلیوں، کوچوں ، بازاروں اور گھروں میں اپنی زندگی کا ثبوت دے رہی ہے اور عالمی سطح پر اپنے حلقہ اثر میں وسعت پیدا کر رہی ہے۔اگرچہ اس میں شک نہیں کہ اردو ایک جامع زبان ہے۔ تاہم اردو زبان کے تحفظ اور اس کی اہمیت کو تسلیم کروانے کے لیے ہمیں چند نکات پر سنجیدگی سے غور کرنا چائیے اور اس کے لیے لائحہ عمل مرتب کیا جانا چائیے۔ اول یہ کہ غیر ملکی زبانوں کے سائنسی علوم و فنون کو اردوکے قالب میں ڈھالا جائے جو وقت کی اہم ضرورت ہے۔ دوئم اردو کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہونی چائیے تاکہ عالمی سطح پر اس کی اہمیت واضح ہو سکے اور اس کا وقار قائم ہو۔اس کے علاوہ اردو دشمنی کے روئیے اور رجحان کا سدباب ضروری ہے۔
بہرکیف! جو ہندوستان اردو کی جنم بھومی ہے ،وہ سات دہائیوں سے لسانی تعصب کی آگ میں جھلس رہاہے اور اردو متواتر متعصب جفاکاروں کی بد سلوکیوں کی تختہ ٔ مشق بنی ہے ۔اس وجہ سے یہ زبان اپنی ہی جنم بھومی میں اپنی بقاء کی جنگ اکیلے لڑتی چلی آرہی ہے ۔اردوکی زبوں حالی صرف اس کی جنم بھومی میں ہی نہیں بلکہ افسوس یہ ہے کہ سرزمین کشمیر میں بھی اردو کے ساتھ بر س ہا برس سے سوتیلی ماں کا سلوک رو ارکھا جا رہا ہے اور بدسلوکی کارحجان دن بہ دن بڑھتاہی چلاجارہاہے۔ اس کے باوجود اردوزبان کو بچانے کے لئے ریاست میں کوئی ایسی سنجیدہ ادبی تحریک برپا ہی نہ ہوئی ،اگرچہ کئی کالم نگاراردوکی زبوں حالی کی طرف توجہ مبذول کرانے میں کمر ہمت باندھے ہوئے ہیں لیکن معاملہ اردوبدستور تنزل کی شکار چلی آرہی ہے ۔ کہنے کوتوریاست کشمیرمیں اردو دانشوروں، شعراء اور ادباء کی کئی انجمنیں موجودہیںمگراردو کواس کا اپنا آئینی حق دلانے میں یہ اجتماعی مساعی سے گریزاں ہیں ۔ریاست کے کثیرالاشاعت اردوروزنامہ ’’کشمیرعظمیٰ ‘‘ نے بھی ریاست کشمیرمیںاردوکی ابترصورتحال سے متعلق اپنی بے کلی کااظہارکرتے ہوئے چندیوم قبل اپنے اداریے میں بجاطورپرلکھاکہ ’’ہمیں اس بات کا بھی حقائق کی بنیاد پر کھلا اعتراف کرنا چاہیے کہ یہاں وقت وقت پہ اردو کے تحفظ وبقا کے نام پر بہت ساری اردو انجمنیں قائم ہوئیں مگر ان میں یا تو خلوص کا فقدان رہا یا استقامت کی کمی رہی،اس لئے یہ بہت جلد مفادات کی بھینٹ چڑ ھ کر کاغذی گھوڑے ثابت ہوئیں۔ بہر صورت مقام شکر ہے کہ اردو سے وابستہ زیادہ تر ادیب اور قلم کار اخلاص سے بہرہ مند ہیں بلکہ وہ لسانی تعصبات اور گروہی مفادات جیسی گھٹیا چیزوں بالاتر ہوکر ریاستی عوام کی ہر زبان اور ہر بولی کی دل سے قدر اور تعظیم وتکریم بھی کرتے ہیں ۔ یہی بے تعصبی اردو کازکے لئے مثل تریاق ہے جس سے اردو تہذیب کا احیاء نو ممکن ہے اور جس کی بدولت ارود کو لوگوں میں مقبولیت، پذیرائی اوربے پناہ محبتیں مل سکتی ہیں ۔ امید کی جانی چاہیے کہ اردو کاز سے دلی رغبت رکھنے والے سب مخلص محبانِ اردو ان تجاویز پر سنجیدہ غور وفکر کریں گے اور یہ سب مل جل کر بقائے اردو کے مشترکہ کاز کے لئے ہمہ تن مصروف عمل ہونے میں کوئی پس وپیش نہ کریں گے‘‘۔ضرورت اس امرکی ہے کہ اردوکی اہمیت اوراس کی افادیت کوملحوظ رکھتے ہوئے سب سے پہلااقدام پرائمری جماعت سے لے کراعلیٰ تعلیم کے لئے مقررہ نصاب تک میں اردوکولازمی مضمون قراردیاجائے تاکہ ریاست کی نسل نوکارشتہ وتعلق اتحاد پرور اُردوکے ساتھ جڑارہے ۔
������