حد متارکہ پر ریاست جموں و کشمیر کے پشتنی باشندوں کا خون پانی کی طرح بہہ رہا ہے اور وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی تباہ شدہ گھروندھوں کے کھنڈرات پر نمناک آنکھوں سے بھارت اور پاکستان سے کہہ رہی ہیں کہ خدارا ہم پر رحم کرو ، ہمیں بخش دو ، بات چیت کرکے اس مسئلے کو حل کرو جس کے لئے آتشیں گولے پھینک کر ہمارے گھر برباد کررہے ہو اور ہماری زندگیوں کے چراغ بجھارہے ہو لیکن ان کی آواز ماتم زدہ لواحقین کے کانوں سے ٹکرا کر فضاکی وسعتوں میں تحلیل ہورہی ہے ۔کون ان کی آواز سنے گا اور کیوں سنے گا ؟۔وہ ان لوگوں کے پاس جاکر ماتم مناتی ہیں جن کے سروں پر پاکستان سے چلائے ہوئے گولے گرتے ہیں اور وہ مزاحمتی قیادت جو ریاستی عوام کے پیدائشی حقوق کی علمبرار ہے ان لاشوں پر افسوس بھی نہیں کرتی جو پاکستانی فوج کے ہاتھوں فنا کے گھاٹ اُتر جاتی ہیں ۔
مزاحمتی قیادت کا خون اُس وقت ہی کھول اٹھتا ہے جب بھارت کی فوجیں پاکستان کے زیر انتظام کشمیرکے باشندوں پر مارٹر گولے گرا کر ان کی لاشیں بچھاتی ہیں ۔ اُس وقت انہیں انسانی قدریں بھی یا د آتی ہیں،ظلم و بربردیت کے الفاظ بھی ان کے ہونٹوں پر آتے ہیں اور برصغیر پر منڈلاتے خطرات کے سائے بھی انہیں یاد آتے ہیں ۔اُس وقت نہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی زبان کھُل جاتی ہے نہ ڈاکٹر عبداللہ کی نہ عمر عبداللہ کی ۔اُس وقت سید علی شاہ گیلانی بولتے ہیں ، میر واعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک بولتے ہیں ۔
اصل میں مسئلہ کشمیر یہی ہے کہ خود کشمیر کے باشندوں نے اپنی ہستی کو بھارت اور پاکستان کے ہاتھوں تقسیم کردیا ہے اور اپنی تقدیر ، اپنا آج اور اپنا کل ان دو ملکوں کے سپرد کردیا ہے اور دونوں ملک اس ہستی اور تقدیر کی پوری کی پوری ملکیت کے حصول کے لئے انہی کی زمین پر انہی کا خون بہا کر اور انہیں ہی برباد کرکے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ہیں ۔کشمیر کے باشندے جنہیں کبھی اقبال نے چرب دست و تر دماغ قرار دیا تھا خود انہیں اپنی سرزمین پر اس خونریری کے لئے مدعو کررہے ہیں ۔ خود اپنی تقدیر ان کے قدموں میں رکھ رہے ہیں اور خود اپنے سر کٹنے کیلئے پیش کررہے ہیں ۔ اب کہیں بھی یہ نعرہ سنائی نہیں دیتا کہ ’’ یہ کشمیر ہمارا ہے اس کا فیصلہ ہم کریں گے ۔‘‘ ’’ جس کشمیر کو خون سے سینچا وہ کشمیر ہمارا ہے ‘‘اب مہجور کا وہ شعر بھی کسی کو یاد نہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ یہی کشمیر ایشاء کو جگائے گا ۔اب کشمیر بنے گا پاکستان ۔ اسلام زندہ باد اور موسیٰ موسیٰ ٓذاکر موسی ٰ جیسے نعرے بلند ہوتے ہیں اوراسی ریاست کے جموں صوبے میں ہندوستان زندہ باد اور پاکستان مردہ باد کے نعرے گونجتے ہیں ۔
کیا مسئلہ کشمیر یہ ہے کہ ساری کی ساری ریاست جموں و کشمیر بھارت کا حصہ ہے یا ساری کی ساری سرزمین اس کے باشندوں سمیت پاکستان کا حق ہے ؟۔تو ریاست جموں وکشمیر کی اس تنازعے میں اپنی کیا حیثیت ہے ۔ یہ دو آزاد اور خود مختار ملکوں کے موقف ہیں تو ریاست جموں وکشمیر کے باشندوں کا اپنا موقف کیا ہے اوراپنا کردار کیا ہے ۔وہ ان دو موقفوں کے محض حامی یا مخالف بن چکے ہیں ،اس طرح وہ اپنے آپ کو فریق بھی نہیں کہہ سکتے، بنیادی فریق کی تو کوئی بات ہی نہیں ۔کسی بھی سیاسی تنازعے میں فریق ہر معنی میں وہی ہوسکتا ہے جس کی اپنی کوئی ہستی ہو اور اپنا کوئی کردار ہو اور ہستی کو ظاہر کرنا ہی نہیں بلکہ منوانا بھی پڑتا ہے ۔ریاست کے باشندے اپنی ہستی کو محسوس بھی نہیں کرتے بس بھارت یا پاکستان کا موقف منوانے کیلئے برسر جدو جہد ہیں اورقربانیوں کی تاریخ مرتب کررہے ہیں ۔ قربانیوں کی یہ تاریخ کچھ اس انداز کی مرتب کی جارہی ہے کہ مسئلہ کشمیر نہ صرف ایک بین الاقوامی سیاسی مسئلے سے دو ملکوں کے آپسی زمینی تنازعے میں تبدیل ہوا بلکہ اب دہشت گردی اور مذہبی ٹکراو کے عناصر بھی اس میں شامل ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے اس کی انسانی مسئلے کی حیثیت بھی ختم ہوکر رہ گئی۔
یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان یا بھارت کی شلنگ سے کشمیر کی بستیاں تاراج ہوتی ہیں اور انسان جانوروں کی طرح مارے جارہے ہیں تو اقوام عالم اس کی طرف اس طرح متوجہ نہیں ہوتے جس طرح کہ متوجہ ہونے چاہیں یا پہلے ہوا کرتے تھے ۔ حریت کانفرنس کے بیشتر دھڑوں کا یہ موقف ہے کہ ریاست جموں و کشمیر مسلم اکثریتی ریاست ہونے کی وجہ سے پاکستان کا حصہ تھی لیکن بھارت نے اپنی فوجیں بھیج کر اس پر جبری قبضہ کیا ۔غیر ملکی جنگجو بھی کشمیر میں داخل ہونے کا یہی جواز پیش کرتے ہیں کہ غیر مسلم ملک کا اس مسلم ریاست پر جبری قبضہ ہے جسے ختم کرنے کیلئے وہ بھارت کی فوجوں سے لڑنے آئے ہیں ۔ مقامی جنگجو تنظیمیں بھی مسلح جدوجہد کو جہاد کہہ کر اسے مسلمانوں کی مذہبی جنگ قرار دے رہے ہیں ۔جو لوگ بھارت کے حفاظتی دستوں پر پتھرپھینکتے ہیں اور جنگجووں کی جانیں بچانے کیلئے محاصروںکو توڑنے کی کوشش میں مظاہرے کرتے ہیں وہ بھی ’’ پاکستان زندہ باد ‘‘کے نعرے لگاتے ہیں ۔اس طرح دو ملکوں یا دو قوموں کا تصادم ان کی سرحدوں کے بجائے اس سرزمین پر آگیا ہے جو ان کے درمیان پہلے ہی تقسیم ہوچکی ہے اور جس کے باشندوں کی تقدیر کے دونوں مالک و مختار ہیں اور یہی مالک و مختار حدِمتارکہ پر بے دریغ گولہ باری کرکے دونوں طرف کے باشندوں کا خون بہارہے ہیں ۔
نہ پاکستان کو اس کی پرواہ ہے کہ وہ مسلمانوں کی بستیوں پر ماٹر گولے گرارہا ہے یا غیر مسلم بستیوں پر اور نہ بھارت کو اس کی کوئی پرواہ ہے ۔ان کے لئے یہ کوئی مذہبی لڑائی نہیں بلکہ ملکی مفاد کی لڑائی ہے اور یہ اس لڑا ئی کو جاری رکھنا چاہتے ہیں، دونوں بھرپور جنگ قطعی نہیں چاہتے کیونکہ بھرپور جنگ انہیں برباد کردے گی اس کا انہیں پورا احساس ہے اس لئے وہ اپنی سرحدوں پرایک دوسرے کیخلاف گولہ باری نہیں کررہے ہیں ایسا کرنے سے سرحدوں پر ان کے لوگ مریں گے تو ان کے ملکوں میں طوفان اٹھ کھڑا ہوگا اور ان کے سروں پر بھرپور جنگ کے بادل منڈلائیں گے۔ انہیں اپنے آپ کو محفوظ رکھنا ہے اس لئے ان دو ملکوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی دوسراآپشن نہیں ہے کہ لڑائی کا میدان اس مظلوم قوم کی سرزمین کو بنا کر اسے بیخ و بن سے اکھاڑا جائے جسے یہ سرکا تاج اور شہہ رگ کہہ رہے ہیں۔ انہیںیہ لڑائی جاری رکھنے کیلئے اس مظلوم قوم کے افراد بھی مہیا ہیں اور حالات بھی موافق ہیں ۔اب سوال یہ ہے کہ دونوں ملک کیوں اس لڑائی کو لمبا کھینچنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کو معلوم ہے کہ کلاشنکوف اور خود کش حملوں سے بھارت کو کشمیر چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا اور بھارت کو بھی معلوم ہے کہ سفارتی دباو سے پاکستان کو شکست نہیں دی جاسکتی لیکن جیت اور ہار کی فکر کس کو ہے ۔ دونوں ملکوں کے اپنے اندرونی اور بیرونی مسائل ہیں جن میں کشمیر کی لڑائی بہت کام آرہی ہے اور اس میں دونوں کا نقصان بھی نہیں اس لئے لڑائی جاری رکھنے میں حرج ہی کیا ہے۔
لیکن اب لگ بھگ تین دہائیوں کا طویل عرصہ گزرنے کو ہے اوراس طویل عرصے میں جو بھی اور جتنا بھی نقصان ہوا وادی کشمیر کا ہی ہوا ۔ریاست جمو ں و کشمیر میں اسے جو سیاسی ، تہذیبی ، علمی ، فکری اور اقتصادی اور سماجی مرکزیت حاصل تھی پوری طرح سے ختم ہوگئی ۔اس عرصے میں بیشک بڑی بڑی کوٹھیاں اور شاپنگ مال کھڑے ہوگئے لیکن ذہن افلاس زد ہ ہوگئے اور نئی نسل کا فکر و عمل پوری طرح سے الجھنوں کی لپیٹ میں آگیا ۔اب تضادات کے اندر بھی تضادات پیدا ہورہے ہیں اور پورا سیاسی ، عسکری اور سماجی منظر تضادات کے زہریلے دھویں میں اس طرح غرق ہورہا ہے کہ کچھ بھی صاف صاف نظر نہیں آتاکہ کہاں کیا ہے ۔اب کشمیر میں پاکستان کے جھنڈوں کے ساتھ ساتھ کالے جھنڈے ، سفید جھنڈے اور سعودی عرب کے جھنڈے بھی لہرائے جاتے ہیں ۔نہ سوچ کا کوئی نظم ہے نہ عمل کا اور نہ ہی موقف کا ۔اب پاکستان کی ایجنسیوں کا کنٹرول بھی ان سے چھوٹا جارہا ہے اور بھارت کی ایجنسیوں کا کنٹرول تو پہلے ہی ختم ہوچکا تھا اس کا صاف صاف مظاہرہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب گزشتہ دنوں عیسیٰ فاضلی نامی جنگجو جو جنوبی کشمیر میں فورسز کے ساتھ ایک جھڑپ کے دوران جاں بحق ہوئے تھے کے سرینگر میں جلوس جنازہ کے دوران دیکھنے میں آیا ۔ ایک طرف اس جلوس میں ’’ ہم کیا چاہتے آزادی ‘‘ دوسری طرف ’’ کشمیر بنے گا پاکستان ‘‘ کے نعرے بلند ہورہے تھے ۔ ایک ٹکڑی موسیٰ موسیٰ ذاکر موسیٰ کے نعرے بھی بلند کررہی تھی ۔ہاتھوں میں کہیں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے جھنڈے تھے کہیں سعودی عرب کے ، کہیں جیش محمد کے ،کہیں داعش کے اور کہیں پاکستان کے ۔
اس سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کشمیر کی جدوجہداب کن ’’ آزادیوں ‘‘ کی تلاش کررہی ہے ۔کوئی بھی جدوجہد جس کا ایک مقصد ، ایک موقف ، ایک رہنما اور ایک نظم نہیں ہوتا اپنے بطن سے کیسے کیسے خوفناک طوفان پیدا کر تی ہے اس کی ہیبت ناک داستانیں تاریخ میں موجود ہیں۔اس صورتحال میں آج نہیں تو کل ہمیں بھی ایسی ہی حالت سے دوچار ہونا ہوگا ۔آج ہمارے سروں پر بھارت اور پاکستان کے گولے گررہے ہیں کل ہمارے اندر سے یہ گولے نکل آئیں گے اور ہمارے پرخچے اڑائیں گے ۔کیا اُس وقت بھی وزیر اعلیٰ بھارت اور پاکستان سے اپیلیں کریں گی کہ ہمارے اندر کے فساد کا ازالہ کرو ۔ کیا اُس وقت بھی گیلانی صاحب بھارت کو اپنی فوجیں واپس بلانے کا ہی مشورہ دیں گے ۔اُس وقت ہم کس حال میں ہوں گے اس کا اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا ۔آج ہماری لیڈر شپ جس میں علیحدگی پسند اور مین سٹریم شامل ہے پاکستان اور بھارت سے فائر بندی کی بھیک مانگ رہی ہے اور مسئلہ کشمیر حل کرنے کی گزراشیں کررہی ہے، لیکن اگر وہ مل کر اپنے اندر کے تضادات مٹائیں تو بھارت اور پاکستان دونوں کے لئے فائر بندی اور مسئلہ کشمیر پر بات چیت کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہے گا ۔
اب کشمیری پاکستانی بھی ہے ہندوستانی بھی ہے لیکن کشمیری نہیں ہے ۔بے شمار جر ثومے اس کے اندر داخل کردئیے گئے ہیں جو اسے اندر ہی اندر کھوکھلا کررہے ہیں ۔ پاکستان بھی اپنی جگہ رہے گا اور ہندوستان بھی لیکن کشمیر باقی نہیں رہے گا ۔ یہ خطہ جو کبھی برصغیر کا سب سے مہذب اور متمدن خطہ تھا جہالت اور غلاظت کی آماجگاہ بن جائے گا ۔حساس انسانوں کو آج اسی کی فکر ہے اوراسی کا صدمہ ہے ۔پچھلی تین دہائیوں نے کشمیر کا ذہن اور کشمیر کی فطرت دونوں کو گندگی کے دلدل میں دھنسا دیا ہے ۔نشہ بازی ، بے راہ روی اور کج روی کشمیری نوجوان کی پہچان بن چکی ہے ۔ جتنی تعداد میں جنگجو تنظیموں کو مرنے اور کٹنے کے لئے تیار نوجوان ملتے ہیں اس سے زیادہ تعداد میں فورسز کو مخبر ملتے ہیں ۔علیحدگی پسند جماعتوں کے جتنے حامی بنتے ہیں اس سے کہیں زیادہ مین سٹریم کو نیا خون حاصل ہورہا ہے۔ یہ ذہنی آوارگی اور افراتفری کا وہ مقام ہے جو قوموں کے زوال اور تباہی کا نقطہ عروج ہوتا ہے ۔
( ماخذ: ہفت روزہ نوائے جہلم سری نگر)