افتخار خان
گزشتہ پندرہ بیس برس کے دوران کشمیر میں ہرسطح پر تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جس میں ہمارے روزمرہ کے معمولات خوردنوش،اشیائے ضروریہ اوررہنے سہنے کاڈھنگ بھی شامل ہیں۔رہنے سہنے کے ڈھنگ میں تبدیلیاں نہ صرف شہری علاقوں اور مضافات میں دیکھی جاسکتی ہیں بلکہ دوردرازدیہات کے عوام کے جینے کاڈھنگ بھی تبدیل ہوا ہے۔سنیکس،مشروبات،ڈبہ بندخوراک،اورمعروف کمپنیوں کے کھانے کی اشیاء جن کی ٹیلی ویژن چینلوں اورانٹرنیٹ پر خوب تشہیرہوتی ہے ،وادی کے ہرگاؤں دیہات کے نکڑ پر بہ آسانی دستیاب ہیں۔
شہروں کے ڈیپارٹمنٹل سٹوروں کے طاقوں پر کئی کئی اقسام کی مکھن،آچار،مربے،جام اور نہ جانے کیاکیاسجائے رہتے ہیں۔خوبصورت لیبل ،بہترین پیکنگ اور دل کوبھانے والے رنگوں کے ڈبوں میں بند اِن اشیاء کو جب کوئی خریدنے کیلئے جاتا ہے ،تو لمحہ بھر کیلئے وہ سوچ میں پڑتا ہے کہ کیا واقعی اس ڈبے میں بند اشیا ء کی قیمت اتنی ہوسکتی ہے جس کااس سے تقاضا کیاجاتا ہے۔بسکٹ کاایک پیکٹ جوسادہ طور دس بیس روپے میں مل جانا چاہیے ،اس کیلئے گاہک ساٹھ روپے اداکرتا ہے۔گاہک کے دکان میں داخل ہوتے ہی خریداری فیصلہ کن طوریقینی ہوتی ہے۔
یہ کشمیر ہے ۔یہاں کاموسم معتدل ہے اور یہاں قسم قسم کے میوے اور فصلیں اُگتی ہیں۔سیبوں کاجام بغیر کسی خوبصورت لیبل ،شاندار پیکنگ کے ، مقامی پیداوار ہے جس سے کہ نہ صرف سیب اُگانے والے کو منافع ملے گا بلکہ جام تیار کرنے والے مقامی کارخانہ داراوراس کے ساتھ کام کرنے والے دیگر لوگوں کو بھی روزگار فراہم ہوگا۔ کیا اُس جام سے مقابلہ کرے گا جس کو خوبصورت پیکنگ کے ذریعے دکانوں پر سجایا گیا ہواور جس کی تمام ٹیلی ویژن چینلوں اورانٹرنیٹ پر دن بھر خوب تشہیر ہوتی ہے۔یہ دلیل بھی دی جاسکتی ہے کہ ان ڈبہ بند اشیاء(غیرمقامی)کی کوالٹی اچھی ہے ۔لیکن یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ کیسے ایک مقامی پروڈکٹ کامعیار بہتر ہوسکتا ہے جب اسے آغاز میں ہی نظراندازکرکے اس کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔
یہ صرف سیبوں کے جام کی ہی بات نہیں ہے ،ایک ایسی جگہ جہاں نوع نوع کے میوے صدیوں سے اُگائے جارہے ہوں۔پرانے زمانے میں مسافراپنے سفرکے دور ان یہاں چشمہ شاہی کا پانی لازمی طور پیتے تھے۔آج مقامی لوگ پانی کی بوتلیں جنہیں آلودہ شہروں میں تیار کیا جاتا ہے،پیتے ہیں۔باہر کے شہروں میں کسی معروف کمپنی کاشال ہاتھوں ہاتھ بکتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ شال اس کمپنی نے یہاں مقامی لوگوں سے خریدا ہوتا ہے اور پھر وہ اس پر اپنی لیبل چڑھا کے اسے کئی گنا زیادہ داموں بیچ رہی ہے۔عنقریب ہی اب کشمیری سیب بڑے شہروں میں جائیں گے اور وہاں سے گتے کے ڈبوں میںخوبصورت پیکنگ کے ذریعے یہاں دوگنے چوگنے داموں بیچے جائیں گے۔اور یاد رکھیے تب ان سیبوں کا نام کشمیر کے بغیر کچھ بھی ہوسکتا ہے۔جبکہ سینکڑوں مصنوعات نے یہاں کے سٹوروں اوردکانوں میں جگہ بنا لی ہے،مقامی مصنوعات ان کا مقابلہ نہیںکرسکتے۔بازار پربلا شرکت غیرے قبضہ ہونے کی وجہ سے گاہک کا رول اب بے معنی رہ گیا ہے اورکارخانہ داریا بنانے والااب باس بن گیا ہے۔
مقامی پیداوارکو فروغ دینے کیلئے کارخانہ دار ،نجی کمپنیاں سب یہاں ناکام ہوئے ہیں۔اس رجحان سے یہ ضرور پتہ چلتا ہے کہ بھلے ہی کشمیریوں کی طرز زندگی میں تبدیلیاں وقوع پزید ہوئی ہو ،لیکن وہ کسی طور بھی امیر نہیں ہورہے ہیں بلکہ ان کی کمائی سے کوئی باہر والا اپنی تجوریاں بھررہا ہے۔ لازمی ہے کہ ہم اپنے مقامی پیداواراورمصنوعات کوفروغ دینے کی کوشش کریں،میوہ ہویازراعت،تواس کامعیاربہتر بنانے کیلئے تمام ضروری اقدام کریں ۔ماہرین کی سفارش پروقت پر دواپاشی کریں اور بہترین قسم کے بیجوں کااستعمال کریں۔اسی طرح ہماری دستکاری مصنوعات جن کی ماضی میں اپنی منفردپہچان تھی،کوبحال کرنے کیلئے ہمیں خودکھڑاہوناہوگا۔حکومت نے اگرچہ معیاری دستکاریوں اورزعفران کیلئے جیوگرافیکل انڈکس متعارف کرایا ہے،وہ واقعی قابل ستائش ہے ،اس سے کافی حدتک ہماری دستکاریوں کوتحفظ فراہم ہوگا۔ہمیں سوچناہوگاکہ کس طرح ہم کشمیرکی پیداواراورمصنوعات کی پہچان بنائیں گے، جسے واقعی ’کشمیرمارک‘ کہاجائے۔
(نوٹ۔مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاًاپنی ہیں اور انہیںکسی بھی طورکشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)