1947ء میں اُدھر ایک جانب فرنگی گھوڑے ہندوستان کی سرزمین سے شب کی تاریکی میں دُم دبا کر بھاگ گئے اور اِ دھر دوسری جانب دو قومی نظریہ کے تحت پاکستان معرض وجود میں آیا۔اس نظریے کے اصول و قواعد کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے ہمارے اپنے چند عیاش، بے ضمیر، مفاد پرست و گناہ گار ہاتھوں اور فتنہ پرور دماغوں نے کشمیری عوام کے حق آزادی کو سلب کر کے مسئلہ کشمیر کا ایک بیج بو دیا جو آج ایک تناور درخت بن کر جنوبی ایشیاء سمیت پوری دنیا کے امن کے لئے ایک بدشگونی کا داغ بنا ہو اہے اور جو کبھی بھی برصغیر کو جوہری جنگ کی بھٹی میں جھونک سکتاہے ۔ کشمیر کے حل طلب مسئلے نے تواتر کے ساتھ سترسال سے کشمیری عوام کا سکون وچین اور قراروخوشی چھین لی۔تاریخ گواہ ہے کہ اسی مسئلہ کشمیر کی وجہ سے ۱۹۴۷ء سے لے کر تادم تحریر لاکھوں کشمیری پیوند خاک بن گئے،ہزاروں لاپتہ ہوئے جن کے عزیزواقارب کی آنکھیں سالوں گذرنے کے باوجود اُن کی راہ تکتے تکتے پتھرا گئی ہیں،ہزاروں ماؤں بہنوں کی عزت و عصمت کی ردا ئیں وقت کے ظالموں نے پھاڑدیں،نوجوان نسل کی بینائی چھین کر انہیں تادم مرگ بیساکھیوں کے سہارے چلنے پر مجبور کردیا، شخصی آزادیوں کو زمین بوس کردیا،معصوم جسموں کو پیلٹ گنوں اور پاوا شلوں سے چھلنی کیا اور ۹؍ سال کے بچے سے لے کر ۸۰؍ سال کے بزرگ تک کو جرم بے گناہی کی سزا دے کر زندانوں کی زینت بنا یا، انسانی حقوق کی پامالی کی بدترین مثال قائم کردی ، جموں کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی چھاؤنی اور فوجی جماؤ والا خطہ بناکر وردی پوشوں کو افسپا اور پی ایس اے کی ہیبتوں سے لیس کردیا ۔تاریخ کے اوراق پلٹنے سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ جموں کشمیر کی لسانی، مذہبی، جغرافیائی ہئیت اور مسلم اکثریت کے پس منظر میں دوقومی نظریہ کے تحت پاکستان کا حصہ بننا تھا مگر وقت کے گرانڈیل سازشی عناصر نے اپنے مفادات و مراعات کی چاہ میں کشمیری عوام کا سودا غلامی کے نیلام گھر میں کر کے ہماری انفردای واجتماعی عزت وآبرو کا گھلا گھونٹ دیا۔غورطلب بات ہے کہ روزِاول سے ہی ان گمراہ ومفاد پرست عناصر کے عزائم خطرناک اور مجرمانہ تھے، یہی وجہ ہے کہ جب ۱۹۴۷ میں جموں کشمیر کی تاریخمیں فیصلہ کن مرحلہ آیا تو اُس وقت اس
تاریخ کا رُخ موڑتے ہوئے سازشوں کے جال بھنے گئے جس نے آج تک کشمیری عوام کے لہو کو ارزاں ہوتے دیکھا۔ جب ایک طرف جواہرلال نہرو اور سردارپٹیل کی ایماء پر مہاراجہ ہری سنگھ کے دل میں قبائلوں کے آنے کا خوف، بیم اور ڈر یہ کہہ کر پیدا کیا گیا کہ قبائلوں کے آنے کی صورت میں آپ کی سلطنت بشمول مال وزرکو ہڑپ کیا جائے گا تو مہاراجہ نے راتوں رات کشمیر سے رخت ِسفر باندھا اور واردِ جموں ہوگئے ۔ اسی خوف اور ڈر کی نفسیاتی فضا کے زیر اثر انہوں نے ایک محدود ومشروط الحاق نامہ ، جو پہلے ہی دلی میں تیار کیا گیا تھا، پر اپنے دستخط ثبت کئے جس سے گاندھی کا ’’مشن کشمیر‘‘ پایہ ٔ تکمیل کو پہنچا۔ دریں اثناء ایک منظم سازش کے ذریعے یہاں کے ابن الوقت، عاقبت نااندیش اور کرسی کے فراق میں مر رہے قائد کو مراعات و مفادات کے شیشے میں اتار اگیا تو جموںو کشمیر کی سرزمین پر ہندوستانی فوج کے آنے کے لئے راہ ہموار ہو گئی ۔ قائد عوام کو کرسی کا لالچ دینے کے ساتھ ہی یہاں ظلم و ستم کے ایک دل دہلادینے والے نئے دور کا آغاز ہواجو تاہنوز جاری ہے اور کہیں تھمنے کا نام نہیں لے رہا ۔
سنتالیس میںمسئلہ کشمیر کی ہڈی اپنے گلے میں اٹکتا دیکھ کر مسئلے کے اہم موجد پنڈت نہرو نے ہی اقوامِ متحدہ کی چوکھٹ پر آگئے۔ یہاں کشمیری عوام کی رائے کے مطابق مسئلہ حل کرنے کے لئے قرارداد کو اصولاً تسلیم کیا مگر دوسرے ہی لمحے اپنے وعدوں سے منحرف ہوکر طاقت کے بے تحاشہ استعمال سے کشمیری عوام کے پیدائشی پر شب خون مارنے میں کوئی قباحت محسوس نہ کی۔ آگ و آہن کے ذریعے کشمیری لوگوں کو دبانے کی کوشش کا سلسلہ جاری وساری ہے۔اپنی سیاسی تقدیر کا فیصلہ خود کرنے کے لئے کشمیری عوام نے مزاحمت ومقاومت کا ایثار پیشہ راستہ اختیار کیا اور آج تک اپنے سلب شدہ حق کی بازیابی کے لئے بے انتہا قربانیوں کا نذرانہ پیش کر رہی ہے ۔ کشمیر ی عوام نے اس مسئلہ کو کبھی سیاسی، کبھی عسکری اور کبھی سفارتی محاذ پر اٹھانے کی کماحقہ کوششیں کیں لیکن ہندوستان نے یہاں سے ہر اٹھتی ہوئی آواز کو طاقت کے بل پر دبانے کی ہر ممکن کوشش کی ۔اس نے یہاں کی زمینی حقیقی صورتحال سے دنیا کو بے خبررکھنے کے لئے ہر ایک پروپیگنڈہ حربہ آزمایا، مگر اس کے باوجود جوں جوں وقت گزرہا ہے، دنیا کے منصف جان رہے ہیں کہ فوسرز کے ہاتھوں جموں کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں کے ارتکاب کے باوجود مزاحمتی تحریک میں جان ہے۔ پاکستان جو مسئلہ کشمیر کا ایک اہم فریق ہے بھی مسلٔہ کشمیر کو پُر امن طور حل کرانے کی خاطر بین الاقوامی سطح پر رائے عامہ منظم کرنے میں لگاہو اہے ۔ اس ملک نے کشمیرکاز کے لئے سیاسی اور سفارتی سطح پر کشمیری عوام کی بے حد مدد کر کے اپنے آپ کو کشمیر کا حقیقی محسن و مددگار ثابت کیا،مگر اسے بدقسمتی کہیں یا غفلت کہ عوام اور فوج کو چھوڑ کر حکومت پاکستان مسئلہ کشمیر کو اتنی اہمیت نہیں دیتی جتنا کہ اس کا حق ہے یا جتنی کشمیری عوام کی اس سے امیدیں ہیں۔ یہ بھی لاریب ایک امر وقع ہے کہ پاکستانی حکومت کی اپنی کئی مجبوریاں ہوسکتی ہیں جن کی وجہ سے وہ کشمیر کو مطلوبہ توجہ نہیں دے پاتا جتنی لیکن پھر بھی انھیں چاہیے کہ مملکت خداداد میںجتنے بھی ادارے کشمیر کاز کے لئے بنائے گئے ہیں انہیں فعال ، نتیجہ خیزاور سرگرم کیا جائے تاکہ مسئلہ کشمیر کی گونج دنیا کے ہردرد دل رکھنے والے کے کانوں تک پہنچے اور عالمی رائے عامہ اس انسانی مسئلہ سے روشناس ہومگر بدقسمتی اسلام آباد اس سلسلے میں سست روی یا بے جہتی کا شکارہے۔
جموں کشمیر میں جولائی ۲۰۱۶ء کو برہان مظفر وانی کے سانحہ نے ہندوستان سے لے کر یواین ا ور وائٹ ہاوس تک کو ہلا کر رکھ دیا ، اس وجہ سے تحریک کشمیر کو ایک نئی جلا ملی اور کشمیر کا درد فلک بوس پہاڑوں کا سینہ چیر کر کے پوری دنیا میں ’’برہان لہر‘‘ کی صورت اختیار کر گیا کہ جس نے ہر اُس باندھ کو خس وخاشاک کی طرح اڑا لیا جس نے کشمیریوں کی آواز کو دبائے رکھا تھا۔جولائی سولہ کی’’برہان لہر‘‘ نے جہاں دنیا بھر کے لوگوں اورہندوستان کے منصف مزاج عوام خصوصاََ نوجوان نسل اور دانشوروں کو تاریخِ کشمیر کا مطالعہ کرنے اور کشمیری عوام کے حق میں آواز اٹھانے پر مجبور کیا، وہی کشمیری عوام منجملہ سڑکوں پر نکل آئے اور احتجاجوں کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا ۔بھارتی فورسز کی اندھا دھند فائرنگ ،پیلٹ گنوں کے بے تحاشہ استعمال اور تشدد آمیزیاکرروائیوںسے وادی میں تقریباََ سو بچے، بوڑھے ، جوان اور بہنیں شہید اور ہزاروں زخمی ہوئے جب کہ سینکڑوں افراد آنکھوں کی بصارت سے محروم ہوچکے ہیں۔اس ساری صورتحال کو دیکھ کر جہاں دنیا بھر میں فورسز کی طرف سے نہتے شہریوں پر بہیمانہ تشدد پر تشویش کا اظہار کیا گیا ،وہیں بھارت کے اندر بھی سول سوسائٹی اور کئی نامور سیاسی و سماجی شخصیات نے کشمیر میں جاری ظلم و بربریت کی کھل کر مخالفت کی بلکہ مر کزی حکومت کی کشمیرپالیسی پر کئی سوالات اٹھائے گئے۔پاکستان میں بھی کشمیر کی اس انقلابی صورتحال کو لے کر مذہبی و سیاسی اور عوامی سطح پر کشمیریوں کے ساتھ مکمل اظہار یکجہتی ہوا۔یہاں کے مختلف شہروں میں کشمیر کازکی مناسبت سے تقاریب، کانفرنسیں، سیمینار، احتجاجی مظاہرے، ریلیاں اورجلسے جلوس ہوئے لیکن حکومتی سطح پر کشمیر کی موجودہ صورتحال کو لے کر کوئی ٹھوس اور جامع حکمت عملی کا کوئی نمونہ نظر نہیں آئی ماسوائے اس کے کہ وزیراعظم کا اقوام متحدہ میں کشمیر کے حوالے سے خطاب اور پارلیمنٹ کے ممبران پر مشتمل ۲۲؍ رکنی ایک کمیٹی تشکیل دی جس کے ذمہ دنیا کے مختلف ممالک میں جاکر مسئلہ کشمیر کو اُجاگر کرنا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اس کمیٹی میں کن لوگوں کو شامل کیا گیااورکیوں کیا گیا، اس کی تفصیل تو سلسلہ وار سامنے آرہی ہے ۔ بھلا ہو سوشل میڈیا کا جس نے اس کمیٹی کے بنانے والوں اور اس میں شامل لوگوں کی پول کھول کر رکھ دی۔ اس میں پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی نواب وسان کو بھی شامل کیا گیا ہے جو ایک وفد کے ساتھ روس جاکر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے مکلف ٹھہرائے گئے۔نواب وسان صاحب کمیٹی میں شامل ہونے کے بعد ایک نجی ٹی وی چینل پر نمودار ہوئے اور وزیراعظم پاکستان کی ہدایت پر تشکیل دی گئی کمیٹی کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار فرما رہے تھے۔’’دنیا ‘‘ٹی وی کے اینکر نے جب انہیں اس کمیٹی کے اغراض و مقاصد کے بارے میں پوچھا تو موصوف آئیں بائیں شائیں کرتے رہے۔موصوف کا کہنا تھا کہ انہیں ابھی حکومت ک طرف سے کوئی گائیڈ لائن فراہم نہیں کی گئی کہ انہیں روس جاکر کیا کرنا ہے۔ان سے جب کشمیر کی جغرافیہ اور تازہ صورتحال کے بارے میں پوچھا گیا تو نواب وسان کا جواب سن کر بے چارہ اینکر بھی شرمندہ دکھائی دیا۔نواب وسان کی گفتگو کو لے کر سوشل میڈیا پر ایک طویل مباحثہ چل پڑا کہ اگر حکومت پاکستان کشمیر میں جاری فورسز کی سفاکیت اور بربریت کے حوالے سے حقائق دنیا تک پہنچانے کے لئے ایسے افراد کا انتخاب کرتی ہے جن کو کشمیر سے متعلق الف بے کا بھی پتہ نہیں تو حکومت کی کشمیر ایشو اور کشمیر کے تئیں سنجیدگی کا اس سے بڑھ کر مضحکہ خیز عمل کیا ہوسکتا ہے؟؟؟دوسری طرف حکومت پاکستان کی طرف سے تشکیل دی جانے والی اس ۲۲ ؍رکنی کمیٹی کو لے کر پاکستان کی قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی برائے کشمیر(کشمیرکمیٹی) پر بھی سوالات کھڑے ہوگئے ۔اس کمیٹی کی چیرمین شپ جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے پاس عرصہ ٔدراز سے ہے۔مولاناکے بارے میں عمومی رائے یہ ہے کہ ان کے پاس اپنے دوسرے سیاسی مفادات کی وجہ سے کشمیری عوام پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھانے کا وقت ہی نہیںکیونکہ حال ہی میں جب کشمیر جل رہا تھا مولانا صاحب وزیراعظم پاکستان کو پانامہ لیکس کے جال سے نکالنے کی تگ دو میں مصروف تھے۔ لہٰذا کشمیر کمیٹی کے فعال نہ ہونے کی وجہ سے ایک اور کمیٹی کا قیام نہ صرف غیردانشمندانہ قدم ہے بلکہ یہ قومی خزانے پر محض ایک بوجھ ہے۔
پاکستان کی کشمیر کمیٹی جس کا مقصد مسئلہ کشمیر کو دنیا کے سامنے اُجاگر کرنا اور کشمیر حل کے ضمن میں اپنی سفارشات سمیت پاکستان کے اصولی موقف کو پیش کرنا ہے۔کمیٹی کے پہلے چیرمین نوابزادہ نصراللہ خان مقرر کئے گئے، پھر مختلف ادوار میں مختلف اشخاص کشمیر کمیٹی کے چیرمین بنے رہے۔۲۰۰۸ ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے مخلوط حکومت بنائی اور مولانا فضل الرحمن کو ۳۶؍ ممبران پر مشتمل کشمیر کمیٹی کا چیرمین بنایا گیا ،وہ دن اور یہ دن مولانا صاحب کشمیر کمیٹی کی چیرمین کی کرسی پر براجمان ہیں مگر کام ندارد۔کشمیر کمیٹی جو قومی اسمبلی کی ۳۲ قائمہ کمیٹیوں میں سب سے زیادہ بجٹ لینے والی کمیٹی ہے، زیادہ تر اپنا کام کشمیر کے موضوع پر مذمتی بیانات سے چلاتی رہی ہے۔چھہ کروڑ سے زائد بجٹ اور لاکھوں کی تنخواہ لینی والی کشمیر کمیٹی کو جو کام بین الاقوامی سطح پر کشمیر کاز کے لئے کرنا چاہیے تھا، وہ اس کا عشر عشیر بھی نہ کر سکی ۔۲۰۱۳ء سے لے کر آج تک کشمیر کمیٹی کے صرف تین اجلاسوں پر ۱۸؍ کروڑ روپے لاگت آنے کی اطلاعات ہیں۔ چونکہ مولانا فضل الرحمن کی جانب سے کشمیر کے معاملے میں ہمیشہ عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا گیا ،لہٰذا کشمیر کمیٹی کے ہوتے دوسری کمیٹیاں تشکیل دینامحض تضیع اوقات ہے اور قومی سرمائے کا زیاں ہے۔کمیٹیوں پہ کمیٹیاں بنانے کے بجائے حکومت پاکستان کو چاہیے کہ کشمیر کمیٹی کو اس کی اصل روح کے مطابق فعال ومستعد کرے اور کشمیر کمیٹی کی ذمہ داری کسی ایسے شخص کو دی جائے جو کشمیر کاز کو دنیا تک پہنچانے اور کشمیریوں کی آواز بننے کا اہلیت اور خلوص سے مالا مال ہو۔کشمیر سے متعلق قراردادیں اقوام متحدہ میں موجود ہیں،جب سوائے ہندوستان کے ساری دنیا اس بات کو تسلیم کر رہی ہے کہ ریاست جموں وکشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ایک متنازعہ علاقہ ہے جس کا فیصلہ کشمیری عوام کی رائے کے مطابق کیا جانا چاہئے، ایسے میں حکومت پاکستان کو مسئلہ کشمیر کو زوروشورسے نئی زندگی سے معمور کر کے ، نئے اندازاور ایک نئی حکمت عملی کے ساتھ بین الاقوامی سطح پر اٹھانا چاہیے نہ کہ اپنی قوت اور توانائی کمیٹیوں پر کمیٹیاں تشکیل دینے میں صرف کرنی چاہیے۔ موجوہ پُر اضطراب حالات میں کشمیری عوام اسلام آباد سے چاہتے ہیں کہ وہ اپنی فریقانہ پوزیشن منواتے ہوئے زیادہ سے زیادہ کشمیر کے درد پر عالمی توجہ مبذول کرائے ۔ لہٰذا حکومت پاکستان کو چاہیے کہ انٹرنیشنل سطح پر مسئلہ کشمیر کے متعلق بات کرنے کے لئے کسی ایسی مخلص وبے لوث شخصیت کو کشمیر کمیٹی کا چیرمین بنایا جائے جو گلوبل سطح پر اپنی پہچان رکھنے والا ہو، کشمیر حل کی راہ میں نت نئے چیلینجوں کا سامنا کرنے کی بھرپور مہارت رکھتا ہو ،کشمیر کی تاریخ سے مکمل واقفیت رکھنے والا ہو اور دنیا کے سامنے کشمیر کے موقف کو سلیقے اور متاثرکن انداز میں پیش کرنے کا ہنر جانتا ہو ، جسے خون آلودہ کشمیر کی صدائے دل سننے اور سنانے کا فن آتا ہو اور سب سے بڑھ کر جس کے اندر یہ قابلیت موجود ہو کہ وہ فرعونی حربوں اور سامریت کی سحروںکو توڑتے ہوئے کشمیریوں کا بیڑہ پار لگانے کے لئے ناقابل بیان حالات کے سمندر کے بیچوں بیچ میں ایک خشک راستہ نکالنے کی ہمت بھی رکھتاہو اور تائید ایزدی سے بھی مالا مال بھی ہو ۔
رابطہ منزگام،اہرہ بل،کولگام
9070569556