جموںوکشمیر یونین ٹریٹری کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے ایک پھر اعلان کیا کہ کشمیر تا کنیاکماری ریل سروس اگلے سال شروع ہوجائے گی ۔اب تک یہ اعلانات بہت سارے مرکزی وزراء نے بھی کئے اور بار بارکہاجارہا ہے کہ 2023میں کشمیر ریل پروجیکٹ مکمل ہوگا۔خدا کرے کہ ایسا ہی ہو تاہم ریل پروجیکٹ کی تکمیل کے تعلق سے اب تک کئی ڈیڈلائنیں گزرچکی ہیں لیکن ریل پروجیکٹ مکمل نہ ہوسکا ۔ابھی گزشتہ دنوں کہاگیاتھاکہ2اکتوبر کو گاندھی جینتی کے موقعہ پر بارہمولہ ۔بانہال ریلوے لنک پر الیکٹر ک ٹرین سروس شروع کی جائے گی۔اس منصوبہ پر کام 2019سے چل رہا تھا اور اس پر324کروڑ روپے کی لاگت آئی ہے اور اس کا آزمائشی رن بھی ہوچکا تھا ۔
برقی ٹرین سروس سے نہ صرف فضائی آلودگی میں نمایاں کمی ہوتی بلکہ لاگت میں بھی 60فیصد کمی آنے کا تخمینہ لگایاجارہا تھاتاہم آج تک یہ سروس بھی شروع نہ ہوسکی۔خیر الیکٹرک ریل سروس جب شروع ہو تب ،جموںوکشمیر کے لوگوں کے لئے اصل مسئلہ کشمیر کو ریل لنک کے ذریعے باقی ملک سے جوڑنا ہے جو ابھی نہیںہوپایا ہے۔ جموںوکشمیر کے مسافروں کو اصل راحت اور فائدہ تب ملے گاجب کشمیر ریل پروجیکٹ مکمل ہوگا اور بارہمولہ کا ریلوے سٹیشن ادھم پور ریلوے سٹیشن سے جڑ جائے گالیکن ابھی بھی اس ضمن میں کچھ وثوق کے ساتھ کہانہیںجاسکتا ہے۔سابق ریاستی حکومت نے کہاتھا کہ جموں وکشمیرکو بیرون ملک کے ساتھ سال 2017تک ریل سروس کے ذریعے جوڑا جائیگا اور یہ کہ ادھم پور سے سرینگر تک ریلوے لائن 2017میں مکمل ہوگی تاہم یہ ڈیڈلائن بھی فیل ہوگئی اورپھر2020تک کٹرہ قاضی گنڈ 111کلومیٹر سٹریچ کو مکمل کرنے کا اعلان کیاگیا لیکن وہ ڈیڈلائن بھی پوری نہ ہوسکی جس کے بعد15اگست2022کی ایک اور ڈیڈ لائن خود وزیراعظم نریندر مودی نے مقرر کی تھی تاہم وہ امیدبھی بھر نہیں آئی۔اب مسلسل یہ اعلان کیاجارہا ہے کہ اگلے سال یعنی2023میں دلّی سے کشمیر تک براہ راست ٹرین چلے گی تاہم اس اعلان پر بھی یقین کرنے کا دل نہیں مان رہا ہے کیونکہ کیونکہ کشمیر ریلوے پروجیکٹ کی تاریخ ناکامیوں سے پُر ہے اور ہر گزرتے سال کے بعد اس پروجیکٹ کی قیمت بڑھتی ہی جارہی ہے لیکن پروجیکٹ ہے کہ ابھی تک مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ریلوے ،خزانہ ،منصوبہ بندی کمیشن اور محکمہ شماریات کی حالیہ مشترکہ میٹنگ میں مرکزی ریلوے حکام نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اس پروجیکٹ کی بڑھتی قیمت کیلئے ابتدائی ویری فکیشن میں نقائص کا ہونا ذمہ دار ہے۔اس کیلئے ریلوے محکمہ نے چار وجوہات بیان کئے ہیں۔پہلی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ ریلوے کو رابطہ سڑکوں کیلئے957کروڑ دستیاب رکھنا پڑے کیونکہ اس علاقہ میں سڑک رابطوں کا فقدان ہے لہٰذا ٹنلوں اور ٹریک کی تعمیر کیلئے سڑکیں تعمیر کرنا ضروری تھا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ریلوے لائن کی تعمیر کیلئے جتنی سڑکیں تعمیر کی جارہی ہیں یا کی جانی ہیں ،ان کی لمبائی کل ریل پروجیکٹ کی لمبائی سے دوگنی ہے۔دوسری وجہ یہ ظاہر کی گئی ہے کہ ارکان اور کون کان ریلوے پروجیکٹ کی قیمت سے دس فیصد زیادہ حصہ کی بنیاد پر کام کررہے ہیں جس کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
قیمتوں میں اضافے کی تیسری وجہ کیلئے سیکورٹی خدشات کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے اور اس کے تدارک کیلئے ریلوے محکمہ کے بقول سیکورٹی پوسٹوں کی کثیر تعداد،بارکیں ،کوارٹر اور سازوسامان کو ترمیمی تخمینہ میں شامل کیا گیا ہے جبکہ ریلوے کے نزدیک چوتھی وجہ ادھم پور سے لیکر بارہمولہ تک پورے ٹریک پر بجلی کا انتظام کرنے کیلئے 301کروڑ روپے مختص رکھنا ہے جو ریلوے حکام کے نزدیک ابتدائی تفصیلی پروجیکٹ رپورٹ میں نہیں رکھا گیا تھا۔ جموں سے سرینگر تک ریلوے پروجیکٹ کے تعمیر کی تاریخ 37سال پرانی ہے ۔پہلی دفعہ1983میںاُس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے ریلوے وزیر غنی خان چودھری کے ہمراہ54کلومیٹر ادھمپور جموں سٹریچ کا سنگ بنیاد رکھا۔اس کے بعد1986میں وزیراعظم راجیو گاندھی نے ریلوے وزیر مدھورا شنڈیا کے ہمراہ ایک بار پھر اسی سٹریچ کا سنگ بنیاد رکھا ۔1997میں دیوی گوڑا کی سربراہی والی مرکزی حکومت میں دیوی گوڑا نے ریلوے وزیررام ولاس پاسوان کے ساتھ مل کے ادھم پور کشمیر لنک کا سنگ بنیاد رکھا۔1997میں ہی وزیراعظم آئی کے گجرال نے رام ولاس پاسوان کے ہمراہ ہی دوبارہ اس پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھا ۔2003میں وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے ریلوے وزیر نتیش کمار کے ہمراہ کشمیر ریل پروجیکٹ کے اہم پل کا سنگ بنیاد رکھا۔2008-09میں وزیر اعظم منموہن سنگھ نے سونیا گاندھی اور ریلوے وزرا لالو پرساد یادو اور ممتا بینر جی کے ساتھ مل کردومرتبہ بارہمولہ سے لیکر قاضی گنڈتک ریل لائن کا افتتاح کیاجس کے بعد قاضی گنڈ بانہال سٹریچ بھی تیار ہوا تاہم بانہال سے ادھم پور تک چیلنجوں سے پُر ریلوے ٹریک کی تکمیل کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے سے ابھی بھی کوسوں دور ہے اور آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ یہ پروجیکٹ غیر یقینیت سے نکل کر کب حقیقت بن جائے گا تاہم جس رفتار سے کام ہورہاہے تو امید کی جانی چاہئے کہ اب کی بار اگلے سال کی ڈیڈلائن سے قبل ہی کام مکمل ہوگا لیکن زمینی صورتحال اس امیدکے سہارے جینے سے باز رہنے کیلئے مجبور کررہی ہے کیونکہ ابھی بھی بہت کام کرنا باقی ہے ۔اب دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا اس بار واقعی وعدہ وفا ہوگا یا اس دفعہ بھی کوئی عذر پیش کیاجائے گا۔