کشمیری ہرسطح پرمارے جارہے ہیں اورجومرنے سے ابھی تک بچے ہوئے ہیں وہ امراض وعوارض میں گرفتار ہوکر عملاًاپاہچ بن چکے ہیں۔ روز مرہ مصروفیات جوایک زمانے میں ہماراخاصہ ہواکرتے تھے ،ہم نے انہیں معمولات ِ زندگی سے بے دخل کر دیااور اپنا ساراکام کاج بہاریوں اور بنگالیوں کے سپردکردیا۔اس طرزعمل سے ہماری زندگیاں دا ئوپر لگی ہوئی ہیں،ہماری صحتیں بگڑی ہوئی ہیں اورجسمانی امراض نے ہمیںآ گھیراہے ۔صحت سے مراد جسم کی وہ کیفیت ہے جو معمول کے مطابق ہو یا جسمانی و ذہنی تندرستی ،یہ لفظ عموما جسمانی کیفیت کیلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔کھانے ، پینے کی اشیا ء میں ملاوٹ سے ہم اورہماری نسلیں تباہ ہو رہی ہیں۔ایک طرف ناقص اور ملاوٹی خوراک سے کشمیر بیمارستان بن چکاہے اور لوگ اس پیمانے پر بیمار ہیں کہ قطاراندرقطار ہسپتالوں اورپرئیویٹ کلینکس پرکھڑے نظرآرہے ہیں تو دوسری طرف ادوایات کولیجئے تو آدمی شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہے۔آنکھیں ایسے ایسے مناظر دیکھتی ہیں کہ قلم لکھنے سے قاصر ہے۔ افسوس کہ ہمارے وطن میں دس نمبری لوگدو نمبری ادویات دھڑا دھڑ فروخت کرر ہے ہیں۔کشمیریوں کودواکے نام پرزہردی جارہی ہے ۔اعدادوشماراکٹھے کئے جائیں توخوفنا ک صورتحال سامنے آئے گی، جعلی ادویات کے استعمال سے کس تعدادلوگ موت کے منہ میں چلے جا رہے ہیں کہ ان کا شمار نہیں، کئی ایک کیسوں میں تو مریض معذور ہو جاتے اور بقیہ زندگی محتاجی کی حالت میں گزارنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ جعلی ادویات کادھنداکرنے والے بے ضمیر لوگ اصل ادویات کی نقل ہو بہوتیار کرکے فروخت کررہے ہیں، بے چارے مریض اورتیماداروںکوکیاپتہ کہ انہیں دوانہیں زہردی جارہی ہے۔سری نگرسے شائع ہونے والے ایک روزنامے کی خبرکے مطابق حالیہ دنوں میں ایک سروے میں اس بات کا انکشاف ہوا کہ وادی کشمیرمیں بھارتی ریاستوں کے مقابلے میں لوگ سب سے زیادہ ادویات استعما ل کرتے ہیں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ادویات کی سب سے بڑی منڈی ہونے کے باوجود ان کی قیمتوں کو نہ تو اعتدال پر رکھا جارہا ہے اور نہ ان کی کوالٹی کے بارے میں دھیان دیا جاتا ہے ۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ کون سی دوائی اصلی ہے اور کون سی جعلی، اور کہا ںسے اصلی اور معیاری ادویات دستیاب ہوسکتی ہیں۔
شومئی قسمت کہ ہرچیز میں دو نمبری نے کہیں کا نہ چھوڑا! غالبااس سلسلے میں کوئی معقول طریقہ کار ہی نہیں ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو آج لوگ اس بارے میں یہ شکایات نہیں کرتے کہ بازاروں میں جو ادویات دستیاب ہیں وہ جعلی اور غیر معیاری ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ ادویات کی قیمتیں کبھی بھی اعتدال پر نہیں رکھی جاتی ہیں اور اس بارے میں کوئی ایسا میکنزم بھی نہیں ہے کہ قیمتوں میں اضافے کو روکا جاسکے۔ سرکار کا اس بارے میں طریقہ کار بھی حوصلہ افزا نہیں کیونکہ ہر دوسرے تیسرے دن ادویات کی قیمتیں بڑھائی جاتی ہیں۔ کوئی پوچھنے یا روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ متعلقہ محکمہ جب کبھی کسی دوا فروش سے کوئی نمونہ اٹھاتا ہے تو یہاں فوری طور پر اس کی جانچ کا کوئی معقول انتظام نہ ہونے کی بنا ء پر اس کوبھارتی ریاستوں چندی گڈھ یا کولکتہ بھیجا جاتا ہے جہاں لیبارٹری جانچ کے بعد اس دوائی کے بارے میں رپورٹ ملتی ہے کہ جانچ کے لئے بھیجی گئی دوائی کس معیار کی تھی۔ اس سارے عمل میں مہینے لگ جاتے ہیں تب تک دوسری درجنوں غیر معیاری ادویات بازاروں میں پہنچ چکی ہوتی ہیں اور جس دوا فروش سے دوا کے نمونے اٹھاے گئے ہوتے ہیں وہ تب تک لاکھوں کا کاروبار کرچکا ہوتا ہے اور اس کے بعد معلوم نہیں کہ اس کیخلاف کاروائی کی بھی جاتی ہے یا نہیں کیونکہ کبھی کبھی بھارتی ریاستوں کی لیبارٹریوں سے رپورٹ آنے میں سال دو سال بھی لگ جاتے ہیں تب تک معاملہ سرد خانے میں پہنچ چکا ہوتا ہے اور اس طرح لوگ برابر غیر معیار ی ادویات کے عادی بنائے جاتے ہیں۔
ہم اپنے تمام ڈاکٹرز جوابنائے وطن ہیں، سے ہرگزیہ توقع نہیں رکھ سکتے کہ ان کسی بوگس اور دواساز کمپنیوں کے ساتھ کوئی ساز باز رکھتے ہیں بلکہ یہ ایک ڈرگ مافیا جس میں بہت سارے انسان دشمن عناصر کے خلاف سیاست اور انتظامیہ کے مہارتھی ہی ملوث ہیں ۔ہم کبھی بھی اس دھرتی کے ڈاکٹروں سے یہ اُمید نہیں رکھ سکتے کہ وہ صرف ان کمپنیوں کی ادویات تجویز کرتے ہیں جن سے وہ بھاری اور قیمتی تحفے تحایف وصول کرتے ہوں۔کیوںکہ قوم کے ان مسیحائوں نے1990ء سے لے کر خاص کر 2014کے قہرناک سیلاب اور2016میں بڑے پیمانے پرریاستی دہشت گردی کے دوران جس انسان دوستی اور حب الوطنی سے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھائیں وہ ہمارے سامنے بطورایک روشن مثال ہے اورہمیں اپنے فی الواقع ڈاکٹرزکے اس تعمیری رول پرفخرہے ۔ البتہ یہ شکایت ضرورکرتے ہیں کہ ہمارے بعض ڈاکٹر یہ دیکھنے کی زحمت کیوں گوارا نہیں کرتے کہ آیا جو ادویات وہ تجویز کرتے ہیں میڈیکل سٹورزپراس کی نقل تو نہیںبیچی جارہی ؟حالانکہ یہ بات بھی ان کے ضابطہ ٔ اخلاق میں اہم اصول کے طور شامل ہے ۔
اس مصیبت کا ڈاکٹرز فٹرنٹی کے پاس کیاجواب ہے جس کی طرف گزشتہ دنوں ڈاکٹرس ایسو سی ایشن کے صدرجناب ڈاکٹرنثار حسن نے توجہ دلائی، انہوں نے مبرہن الفاظ میں انکشاف کیاکہ ڈاکٹرزکی جانب سے برانڈادویات تجویزکی جاتی ہیں۔ڈاکٹرس ایسو سی ایشن کے صدر کا کہنا ہے کہ ریاست کی 22فی صد آبادی یعنی پچیس لاکھ لوگ مہنگی ادویات خریدنے سے قاصر ہیں اس طرح وہ بے موت مارے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر نثار نے انکشاف کیا ہے کہ صرف 8.8جینرک ادویات ہی تجویز کی جاتی ہیں جب کہ باقی ماندہ برانڈڈ ادویات ڈاکٹر تجویز کرتے ہیں۔ انہوں نے بر محل سوال کیا کہ برانڈڈ ادویات کا سستا نعم البدل اگر موجودہ ہے تو پھر برانڈڈ ادویات تجویز کرنے کی کونسی وجہ ہے؟ جہاں تک ڈاکٹرس ایسو سی ایشن کا تعلق ہے تو یہ ڈاکٹروں کی ایک با اثر تنظیم ہے جس میں شامل ڈاکٹر صاحبان ہمیشہ ڈنکے کی چوٹ پر حق و صداقت کی باتیں کرتے ہیں، خواہ اس سے ان کا ذاتی نقصان ہی کیوں نہ ہو اور اسی بات سے لوگ اس ایسوسی ایشن کو عزت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ اس تنظیم کے سربراہ ڈاکٹر نثار نے خود ہی اپنے ہم پیشہ بعض ڈاکٹروں کو صفائی کے کٹہرے میں کھڑاکرتے ہوئے کہا کہ یہ مخصوص ڈاکٹر اس لئے برانڈڈ ادویات تجویز کرتے ہیں کیونکہ ان کے اور دواساز کمپنیوں کے درمیان ملی بھگت ہوتی ہے اور وہ ان کمپنیوں سے قیمتی تحفے تحایف حاصل کرتے ہیںاور ان کو خوش رکھنے کیلئے برانڈڈ ادویات تجویز کی جاتی ہیں۔ عام لوگ اس بات سے بے خبر ہیں کہ برانڈڈ کیا ہوتا ہے اور جینرک کس چیز کا نام ہے۔ عام لوگ صرف ادویات ہی جانتے ہیں ،اس لئے ڈاکٹر موصوف کو یہ بات پوری طرح واضح کرنی چاہئے کہ جینرک اور برانڈڈ ادویات میں کیا فرق ہے او رکس طرح ایک مریض ڈاکٹر کے ساتھ اس بات پر بحث کرسکتا ہے کہ ڈاکٹر کیونکر اسے جینرک کے بجائے برانڈڈ ادویات استعمال کرنے کی صلاح دیتاہے۔ ڈاکٹر نثارصا حب کی یہ بات سو ٹکے کی ہے کہ یہ صحت کا معاملہ ہے اس پر کسی بھی طرح کا سمجھوتہ ناممکن ہے ، کڑوا سچ یہ ہے کہ ان مخصوص ڈاکٹروں کو مریضوں کو لٹوانے کا قبیح عمل ترک کرنا چاہئے ورنہ ’’ایک گندی مچھلی سارے تالاب کو گندا کر تی ہے‘‘ کے مصداق ڈاکٹری جیسے معزز اور پر وقار پیشے پر سے لوگوں کا عتبار ختم ہوجائے گا اور لوگ ڈاکٹروں کا مقابلہ ان لوگوں سے کریں گے جن کی سماج اور دنیائے اخلاق میںمیں کوئی حیثیت نہیں ہوتی ہے۔
کشمیر میںمنشیات کھلے عام بک رہی ہیں۔کوئی روکنے والا نہیں،کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔بھلا کون روکے گا؟جن کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے وہی تو اس دھندے میں نہا رہے ہیں۔مجرموں کو ان کی سر پرستی حاصل ہے۔نہ ان کو کوئی ڈر ہے،نہ وسوسہ ۔دواساز کمپنیاں جعلسازی میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔جعلی ادویات مارکیٹ میں فروخت کروا ررہی ہیں اور سو ہزارگنا منافع بھی حاصل کر رہی ہیں۔میڈیکل اسٹوز والوں،ڈسٹری بیوٹرز کو مراعات پیش کر کے اپنی ادویات فروخت کروا رہی ہیںجن کے استعمال سے شرح اموات بڑھ گئی ہے۔آئے دن موت کا عفریت چنگاڑ رہا ہے۔دواساز کمپنیوں کے مالکان جائیدادئیں،محلات، بنا چکے ہیں۔ ان کی مادی ترقی ان کومبارک لیکن خدارا دوابنائوزہرنہیں،حلال کمائو حرام نہیں۔کیاتم لوگ اس قدربے ضمیر اور ندھے بن چکے ہوکہ مریض زندگی بچانے کی غرض سے تمہاری کمپنیوں کی تیارکردہ دوالیتے ہیں اور تم ہو کہ ان میں مال وزر کے عوض شفا نہیں بلکہ موت کا تحفہ بانٹتے ہو۔ تمہاری سوچ یہ کہ غریب مریض مر رہے ہیں،مرنے دو۔بیمار تڑپ رہے ہیں،تڑپتے رہیں،سسکتے رہیں۔ افسوس یہ کہ کسی سرکاری ادارے کو اس کی کوئی فکر نہیں کہ زمینی سطح پر میڈسن کے شعبے میں کیا کیا گل کھل ر ہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جعلی ادویات سب کی کھلی آنکھوں کے سامنے بک رہی ہیں۔فروخت کرنے والے ڈھٹائی سے سینہ تانے موت کی دوکانوں پر بیٹھے ہیں،انہیں کوئی ڈر یاخوف نہیں ہے۔ یہ سار ادھنداچوروں کے زیر سایہ ہے،کوئی اس سسٹم یا ما فیا کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا اور عام آدمی کرے بھی توکیا کر ے سوائے رونے دھونے اور مر نے کے۔ہسپتالوں میں ادویات ملتی نہیں اور جو کچھ ہسپتالوں میں مفلس مریضوں کے لئے سٹاک میں ہوتا بھی ہے وہ سب چرا کر چور بازاری بیچاجاتا ہے۔’’ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا ‘‘کے مصداق چپے چپے پر دس نمبری لوگ ڈھٹائی سے بیٹھے کاروبار چمکا رہے ہیں۔کون پوچھے؟کس کو فرصت ہے؟مجرمانہ حرکات کے مرتکب لوگوں کو سزائیں دلوانے کی بجائے وزیر ومشیر ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔اخوت و بھائی چارہ بھولی بسری باتیں ہیں ۔ فکرامروز یہ ہے کہ ہماری مظلومیت تب تک رفع نہیں ہو گی جب تک ہم خود کو نہیں بدلیں گے۔ہم خود کو اس وقت تک نہیں بدل سکتے جب تک جھوٹ،رشوت ،دس نمبری ضمیر کے جرثوموں پرخدا خوفی ،انسان دوستی ، سچائی،ایمانداری کا کارگر اسپرے نہیں کرلیتے۔جھوٹ چھوڑ دو،سب برائیاں نیکیوں میں بدل جائیں گی۔ہم سب ترقی وشادمانی کی صف اول میں خود بخود آ جائیں گے ۔ ہمیں مل کراپنے ملک وقوم پر سے دس نمبری کا کالک اُتارناہوگا۔تمام خود غر ضیاں اورتمام اخلاقی خامیاں دور کر کے مل جل کر ترقی سے ہمکنار کرنا ہوگا۔
یہ ایک المیہ ہے کہ اب ہمارا کوئی شعبہ زندگی دو نمبریوں سے خالی نہیں۔ سارا ماحول ہم نے ازخودکب کا خراب کردیا ہے۔ ایک وقت تھا ہمارے دیہاتوں میںہی نہیں بلکہ شہرخاص میں بھی ہرطرف رب کی رحمت کا نظارہ ہواکرتاتھا،چاول اپنے ،سبزیاں اپنی ،مصالحہ جات اپنے ،دودھ اپنا،مرغبانی اپنی ،انڈے اپنے، ہمارے گھروں میں مرغیوں کے ڈربے جب صبح کھل جایاکرتے تھے توکیابطخیں ،کیاہنس اورقسم وارمرغیاں ہمارے گھروں کی رونقیں بڑھاتی تھیں،مال ومویشی سے تویہ رونقیں دوبالاہواکرتی تھیںلیکن اب یہ سب برکتیں کارخانۂ قدرت نے ہمارے لئے موقوف کی ہیں۔ سب چیزیں اوراشیاء بیرون ریاست سے آتی ہیں اور ہمارے اپنے بازاروںمیں بکتی ہیں اور یہ گھٹیا اورملاوٹ شدہ ہوتی ہیں۔دودھ ،مصالحہ جات میں ملاوٹ گوشت میں پانی کے انجکشن، غرض یہ کہ جو چیز بازارسے لائی جاتی ہے اس میں دو نمبری خصوصیات پائی جاتی ہیں۔حیران کرنے والی پیچیدگیاںیہ ہیں کہ صابن سے لے کر سوئی تک جعلی بنا کر اصل قیمت سے ہمیںبیچی جاتی ہیںاور تمام مارکیٹوں میں یہ کام ہورہاہے کہ باقاعدہ خودساختہ لیبل چھپوا کر جعلی مال کو اصل کے نام پر مارکیٹ فروخت کیاجاتا ہے۔
ہم رشوت لیتے بھی ہیں اور رشوت دیتے بھی ہیں۔حرام کھاتے بھی ہیں اور کھلاتے بھی ہیں۔سرکاری دفاتر ہوں یا نجی کارگاہیں ، سبھی میں رشوت کو نذرانہ کہہ کر کر حلال گرداناجاتا ہے یابچوں کے لئے مٹھائی کا نام دیاجاتاہے۔چیڑاسی سے لے کر اعلیٰ عہدے دار تک سب اسی گنگا میں ڈبکیاں مار رہے ہیں۔’’خود کھا ہمیں بھی کھلا ‘‘کے فارمولے پر عمل کر کے بالواسطہ یا بلاواسطہ دونمبری دھندے جاری وساری ہیں بلکہ دونمبری گورکھ دھندے میں جو ساتھ نہ دے اس کا جینا حرام کر دیاجاتا ہے ، بسااوقات بے ایمانی کا لیبل اسی کے ماتھے پر چپکادیا جاتا ہے۔ کوئی ایک بھی دفتر بچا نہ ہوگا جہاں رشوت نہ لی جاتی ہو،جہاں رشوت کے بغیر کام کیے جاتے ہوں۔ یوںاپنے فرائض سے غفلتیںاوربے ایمانیاں عام دستور بنا ہوئی ہیں۔ خود ہی اندازہ لگائیے جب طب وجراحت جیسے مقدس میدان میں بھی اتنی دو نمبری متعارف ہو تو پھر انسان کس سے مسیحائی پائے؟ کہاں گوشۂ عافیت تلاش کرے؟
بہرکیف! بعض مخصوص ذہن کے ڈاکٹرزکااپنے فرائض منصبی سے تغافل شعاریوں کے باوجود محکمہ صحت کے منہ میں گھنگیاں پڑی ہیں ،وہ اس حوالے کوئی ایسا موثر میکانزم تیارنہیں کرتا جس سے زہرسازکمپنیوں کوتالے لگ جاتے اور جو کوئی بھی اس بدترین اورانسانیت کش دھندے میں ملوث پایاجاتا اس کیخلاف سخت ترین کاروائی کی جاتی۔ ایسا ہوتا تودوافروشوں کی عقل بھی ٹھکانے لگ جاتی ۔ واللہ متعلقہ محکمہ کو عوام الناس کے ساتھ ہمدردی ہوتی تو اس ساری خرابی کا سدباب ہوگیا ہوتا اور کوئی بھی دوافروش غیر معیاری اورجعلی ادویات فروخت کرنے کی جرأت نہ کرسکتا۔چونکہ محکمہ طب کی جانب سے ادویات کی فراہمی، خریداری اور کولٹی چیک کرنے کی کوئی واضح پالیسی کہیں نظر نہیں آرہی،اس بنا پر لوکل دوا سازکمپنیاں اپنی یہ ساری انسان دشمنیاں ، خرمستیاں اورمن مانیاں کر رہی ہیں۔
جو رُودادِ غم اوپر کی سطور میں بیان کی گئی ہے وہ ہمارے اجتماعی تعذیب کا ایک بھیانک منظر پیش کرتی ہے۔ صاف ہے جس دھرتی میں سبزیوں سے لے کر گوشت تک اورسیاست سے لے کر انصاف تک سب چیزیں مشکوک ہوجائیں اورجہاں ہر قبیل وقماش کے سوداگر مستقلًا دو نمبری پہ اُتر آئیںہوں ، اس معاشرے کا کیا بنے گا؟ کوئی چیز تو ہو جس پہ ایمان ٹھہرے۔ رونا اس بات کا ہے کہ ایسی صورت حال ہمیشہ نہ تھی۔ ہم زمانہ قدیم کے کشمیر کی بات نہیں کر رہے بلکہ اپنی یا دوں اور تجربوں مین بسے ملک کشمیر میں کل پرسوں کی ہی بات ہے کہ یہاں ڈھنگ سے چیزیں چلتی تھیں اور معاشرے میں اتنی بے ایمانی نہ تھی نہ بے ضمیری لیکن اب لوگ راتوں رات بلا محنت کروڑ پتی بننے کے چکر میں پڑ گئے ہیں اور اچھے برے کی تمیز کھو چکے ہیں جس سے کشمیر اخلاقی خرابیوں کی قعرمذلت کی طرف دھکیلا جارہاہے۔ کڑوی حقیقت یہ ہے کہ آپا دھاپی کی فضا میں جس کی پہنچ میں جو آتا ہے، حلال وحرام سے بے نیازہوکرلوٹ مچاتا ہے۔ چھوٹے لوگ چھوٹا ہاتھ مارتے ہیں بڑے مگر مچھ بڑی وارداتیں کرتے ہیں۔بے ضمیری، غبن ، گھوٹالوں ، بدعنوانیوں کے حوالے سے اب توہمارے معاشرے میں حیرانی نام کی کوئی چیز نہیں رہ گئی ہے۔ بڑے سے بڑی واردات ہوتی ہے تو لوگ بس اسے ایک ا ور خبر سمجھ کر نئی بری خبر کے منتظر رہتے ہیں۔ ایسا کیوں نہ ہو ،ہیرا پھیری جب عام ہے تو عام آدمی بڑی بڑی وارداتوں پر بھلا کیوں چونکتا پھرے۔ یوں دو نمبری پن کوئی انوکھی یا نرالی چیز نہیں رہی ہے بلکہ یہ بہ حیثیت مجموعی قومی مزاج کا حصہ بن چکی ہے جس کی بنا پر ہم اپنی منزل مراد سے ہزارہا قربانیوں اور جفاکشیوں کے باوجود قانون ِ مکافات عمل کے سبب دور ہوتے جارہے ہیں ۔
وطن کی فکر کرناداں مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہورہے ہیں آسمانوں میں