کشمیر تیرے روپ کے صدقے کہ تیرے پاس
مدّت کے بعد آیا ہوں لیکن بہت اُداس
گزرے ہوئے دنوں کی نظر کو تلاش ہے
پانی کے بیچ پھولوں کے گھر کی تلاش ہے
آخر ترے حسین نظارے کہاں گئے
ڈل پر جو تیرتے تھے شکارے کہاں گئے
وہ باغ شالیمار کی نکہت کہاں گئی
تیرے نسیم باغ کی نُزہت کہاں گئی
اب بھی تری زمین پر اونچے چنار ہیں
لیکن ہوائے خنجرِ غم کے شکار ہیں
موسم کے لوک گیت بھی ناپید ہوگئے
نغماتِ انبساط کہاں جانے کھوگئے
تیرے چمن میں پہلی سی رعنائیاں نہیں
جہلم کے تیز دھارے میں انگڑائیاں نہیں
جنت نشان تجھ میں کوئی خُو نہیں رہی
کھیتوں میں زعفران کی خوشبو نہیں رہی
بازارِ لالچوک میں رونق نہیں ہے اب
دیوار و در میں خوف کی دیوی مکیں ہے اب
تفریح کی شراب ترے جام میں نہیں
کوئی چہل پہل ہی پہلگام ہی نہیں
ہے برف غم کی آگ سے بے نور و بے قرار
گلمرگ بھی ہے موت کے منظر سے ہمکنار
تیرا نشاط باغ بھی بے حد اداس ہے
اس کا علاج تُو ہی بتا کس کے پاس ہے
کس نے کیا ہے تیری بہاروں کا قتلِ عام
کس نے تیری سحر کو بنایا ہے سرخ شام
ڈاکٹر معظم علی خان
علی گڑھ،موبائل نمبر؛9997734696