آصف بٹ
جموں//ایک جامع خطرے کی تشخیص نے کہا ہے کہ برفانی جھیل کا پھٹنے سے سیلاب آنا جموں و کشمیر کے کشتواڑ ضلع کیلئے ایک سنگین خطرہ ہے جس سے جانوں، بنیادی ڈھانچے اور نازک ماحولیاتی نظام کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ گالف یعنی گلشیئر پھٹنے سے آنے والے سیلاب کے مینجمنٹ پلان برائے کشتواڑ 2024-25کے مطابق پاڈر، مچیل، دچھن، مڑواہ اور واڑون کی تحصیلیں برفانی جھیلوں کے قریب ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہونے کے خطرے میں ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کشتواڑ ہائی آلٹی چیوڈنیشنل پارک کے ساتھ یہ علاقے اچانک سیلاب کے لیے انتہائی خطرے سے دوچار ہیں۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ’’یہ علاقے خاص طور پر برفانی جھیلوں کے قریب ہونے کی وجہ سے خطرے کا شکار ہیں، جس سے وہ اچانک سیلاب کے واقعات کا شکار ہوسکتے ہیں جو مقامی آبادی ، انفراسٹرکچر اور ماحولیات پر تباہ کن اثرات مرتب کر سکتے ہیں‘‘۔رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ان تحصیلوں میں سڑکیں، سکول، ہسپتال اور سرکاری عمارتوں جیسے اہم انفراسٹرکچر کو “کافی
خطرہ” ہے۔رپورٹ میں مزید کہاگیا ہے’’مڑواہ اور واڑون تحصیلیں، جنہیں اکثر ان کے دور دراز ہونے کی وجہ سے’شیڈو ایریاز‘ کے طور پر نامزد کیا جاتا ہے،نشیبی بستیوں اور آفات سے نمٹنے کی محدود تیاریوں اور ہنگامی ردعمل کی صلاحیتوں میں کمی کی وجہ سے خطرے میں اضافہ کا سامنا کرتے ہیں‘‘۔چناب ویلی پاور پروجیکٹس لمیٹیڈکے تحت ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ بشمول پکل ڈول، کیرو، کوار، اور ڈنگڈورو بھی زیادہ خطرات کیلئےحساس ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے ’’پانی کی بڑھتی ہوئی سطح یا ممکنہ ڈیم پھٹنےسے پروجیکٹ کے بنیادی ڈھانچے کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے، کاموں میں خلل پڑ سکتا ہے، اور نیچے کی دھارے میں آنے والے سیلاب کا خطرہ بڑھ سکتا ہے‘‘۔رپورٹ کشتواڑ ضلع کی چار تحصیلوں میں برفانی جھیل کے پھٹنے والے سیلاب کے خطرے کی وجہ سے بڑے خطرات کو اجاگر کرتا ہے۔رپورٹ میں اہم ماحولیاتی خدشات کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔رپورٹ نے کشتواڑ ہائی آلٹی چیوڈ نیشنل پارک میں ممکنہ رہائش گاہ کے نقصان اور حیاتیاتی تنوع کے خطرات کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا’’سیلاب کے پانی کی وجہ سے پانی کے مقامی ذرائع کا آلودہ ہونا صحت عامہ اور ماحولیاتی توازن کو مزید متاثر کر سکتا ہے‘‘۔دو جھیلوں منڈکسر اور ہنگو کو ہائی رسک کے طور پر درجہ بندی کیا گیا ہے، جبکہ پلٹا پانی اور ایک اور بے نام جھیل کو درمیانے درجے کے خطرے کے زمرے میں رکھا گیا ہے۔انتباہ کی سائنسی بنیاد کی وضاحت کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا’’مختلف بلندیوں پر متعدد برفانی جھیلوں کی موجودگی اور ان کی ایک دوسرے سے قربت سے سیلاب کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، جو برف کے تیزی سے پگھلنے، لینڈ سلائیڈنگ یا زلزلے کی سرگرمی جیسے عوامل سے پیدا ہو سکتا ہے‘‘۔مغربی ہمالیہ میں واقع کشتواڑ میں 197برفانی جھیلیں ہیں جو جموں اور کشمیر میں سب سے زیادہ ہیں اور مرکز کے زیر انتظام علاقے میں ایسی تمام جھیلوں میں سے ایک تہائی سے زیادہ ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان میں سے بہت سے چھوٹے ہیں، لیکن حالیہ دہائیوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے تیزی سے پھیلاؤ دیکھا گیا ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے ’’بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے گلیشیئرز کی تیزی سے پسپائی کے نتیجے میں خطے میں کئی برفانی جھیلوں کی تشکیل اور توسیع ہوئی ہے، جس سے برفانی جھیلوں کے پھٹنے سے سیلاب کا خطرہ بڑھ گیا ہے‘‘۔رپورٹ میں فوری طور پر تخفیف کے اقدامات پر زور دیا گیا جن میں مسلسل نگرانی، قبل از وقت انتباہی نظام، نکاسی آب اور مورین ڈیموں کی تقویت، رسک میپنگ، اور کمیونٹی کی تیاری شامل ہے۔رپورٹ کے مطابق’’کشتواڑ میں مقامی آبادی کو برفانی جھیلوں کے پھٹنے سے سیلاب کے خطرات کے بارے میں تعلیم دی جانی چاہیے اور ہنگامی ردعمل میں تربیت دی جانی چاہیے‘‘۔طویل مدتی حکمت عملیوں کے بارے میں رپورٹ نے آب و ہوا کے لیے لچکدار تعمیر، ڈھلوانوں کو مستحکم کرنے کے لیے شجرکاری، اور برفانی حرکیات پر مستقل تحقیق اور ترقی کی سفارش کی۔ رپورٹ میںضلعی منصوبہ بندی اور ترقیاتی کونسل کے فنڈز کا ایک حصہ خاص طور پر برفانی جھیلوں کے پھٹنے سے سیلاب کی تیاریوں کے لیے مختص کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔