عاصف بٹ
کشتواڑ//کشتواڑ کے آفت زدہ گائوں چسوتی میں زندہ بچ جانے والوں کو نکالنے اور لاپتہ افراد کا سراغ لگانے کا کام تیسرے دن بھی جاری رہا۔70لاپتہ ہوئے افراد کے اہل خانہ کی امیدیں ختم ہورہی ہیں۔بے صبری سے انتظار کررہے اہل خانہ کو گنان ہے کہ اب بھی سیلاب کے ٹیلوں یا کہیں اور بڑے پتھروںکے نیچے انکے پیارے سانس لے رہے ہیں۔پیر کو مزید 2لاشیں نکالی گئیں اورسرکاری طور پر مرنے والوں کی تعداد 65 ہو گئی ہے جبکہ 50 لاشوں کی شناخت کر کے ان کے لواحقین کے حوالے کر دی گئی ہے۔جموں، کشتواڑ، پاڈر اور دیگر جگہوں پر زیر علاج زخمیوں کی تعداد 100 سے 150 کے درمیان بڑھتی رہی، جب کہ معمولی زخمیوں کو فارغ کر دیا گیا۔بچوں سمیت تقریباً 70 افراد ابھی بھی لاپتہ ہیں، جن میں زیادہ تر جموں، سانبہ اور کٹھوعہ اضلاع سے ہیں، کیونکہ یاتریوں کی اکثریت جموں ڈویژن کے مقامی تھے۔البتہ وزیر اعلیٰ نے گذشتہ روز کہاتھا کہ 82افراد لاپتہ ہیں۔لاپتہ افراد میں سی آئی ایس ایف کا ایک سپاہی بھی شامل ہے، جب کہ چند افراد کا تعلق ہریانہ اور مدھیہ پردیش سے ہے۔جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا، پریشان کن خاندانوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔ ان کا لامتناہی انتظار اپنے قریبی اور عزیزوں کو زندہ یا مردہ دیکھنے کے لیے ہے۔پولیس، فوج، بارڈر روڈز آرگنائزیشن ، سٹیٹ ڈیزاسٹر رسپانس فورس، نیشنل ڈیزاسٹر ریسپانس فورس کے اہلکار، مقامی رضاکاروں کے ساتھ مل کر، ناموافق حالات اور بڑھتے ہوئے دبا ئوکے باوجود، ایک مربوط تلاش اور بچائو آپریشن میں مصروف ہیں۔تقریبا 170 افراد کو بچا لیا گیا ہے جن میں شدید زخمی بھی شامل ہیں۔حکام نے بتایا کہ راحت اور بچا ئو کاموں کو تیز کرنے کے لیے بڑے بڑے پتھروں کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا دیا گیا، کیونکہ جے سی بی مشینوں یا دیگر مشینری کے ذریعے ان((پتھروں)کو ہٹانا انتہائی مشکل ہو رہا تھا۔سرچ آپریشن میں ڈاگ سکواڈ بھی استعمال کیے جا رہے ہیں۔سول انتظامیہ، جموں و کشمیر پولیس اور فوج کے سینئر افسران وہاں کیمپ لگا کر بیٹھے ہیں۔جی ایم سی جموں کے پرنسپل ڈاکٹر آشوتوش گپتا کے مطابق 14 اگست کی رات جی ایم سی جموں میں 66 نازک مریض آئے۔”اسی رات تقریباً 25 بڑی سرجریز کی گئیں، جس سے قیمتی جانیں بچائی گئیں۔ اگلے دن بھی طبی امداد جاری رہی، جب مزید سرجریز کی گئیں۔ ٹیم نے اس بات کو یقینی بنایا کہ طبی مہارت کی کمی کے باعث کسی ایک مریض کو بھی کسی دوسرے اعلیٰ ادارے میں ریفر کرنے کی ضرورت نہ پڑے “۔