ادھر لوگ سنڈے کے فنڈے میں مشغول تھے ، اور انڈے بیچارے سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ وہ فرائی ہونگے کہ زندگی کا فلسفہ سمجھ کر ان کے یہاں سے چوزے نکل آئیں گے ،جب ہل والے جانبازوں نے اعلان کردیا کہ اب کی بار با لآخر انہوں نے فیصلہ لے ہی لیا کہ دلی سے ڈرنے والے اے بھاجپا نہیں ہم ۔سونوار میں کر چکا ہے تو امتحان ہمارا۔سونوار میں اتوار کو فیصلہ ہو ہی گیا کہ جو بھی ہم سے ٹکرائے گا ، اپنے منہ کی کھائے گا کیونکہ بقول ان کے ہل والا جھنڈا لہرائے گا۔ اور نیشنلی جنرل فاروق عبداللہ کی قیادت میں لشکربب نے مارچ پاسٹ پر یہ گیت گایا ؎
لہرا اے کشمیر کے جھنڈے
رنگ تیرا ہے لال دلارا
ہل نشان ہے پیارا پیارا
پھر اعلان ہوا کہ اس کے طفیل اٹونامی کا گفٹ،ہل والے جھنڈے میں چھپا کر کے اہل کشمیر کو مل جائے گا۔کسی بھی صورت میں قلم دوات سے اس پر کشمیریوں کا نام پتہ لکھنے کی اجازت نہیں ہو گی، نہ ہی کنول پھول کی پتیوں سے سجانے کی کوشش ہوگی کیونکہ یہ ہل والوں کا کمایا ہوا تحفہ ہوگا جس پر انہی کو حق ہوگا کہ وہ اس کے نام پر سیاسی اچھل کود کرتے پھریں۔ ویسے ہل والے جب بھی اعلان کرتے ہیں نہ جانے کتنوں کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں ،جسم پر لرزہ چھاجاتا ہے ،زبان ہکلا جاتی ہے ،ہاتھوں پر رعشہ طاری ہوتا ہے ،اسی لئے دیکھتے دیکھتے اور ہل والااعلان سنتے سنتے مودی سرکار کے وجودِ آہن میں ارتعاش پیدا ہوگیا اور خود مودی مہاراج کچھ بھی ہل والوں کے خلاف بولنے سے گھبرا اُٹھے بلکہ انہوں نے کانگریس پر نشانہ سادھا کہ چدمبرم نیشنلی سیاست اور مانگ کے طرف دار اور دلال ہیں ، اور مطلب یہ نچوڑا کہ میاں چدمبرم آزادیٔ کشمیر کی جانب قدم بڑھا رہے ہیں، یعنی ہل کے ذریعے اصل میں اس فصل کی کھیتی ہونے والی ہے جس سے آزادیٔ کشمیر کے بیج اُگیں گے، کونپلیں پھوٹیں گی اور چار سو آزادی کا بول بالا ہوگا ۔یہ اور بات ہے کہ اپنے ملک کشمیر کے جیالے بار بار دہراتے رہتے ہیں ؎
خدایا توڑ اس دست جفا کیش کو
کہ جس نے روح َآزادیٔ کشمیر کو پامال کیا
خیر !مودی مہاراج براہ راست نیشنلی جانبازوں کے بارے میں کچھ کہنے سے اجتناب کر بیٹھے ، کہیں کچھ کہہ دیتے تو ہل والے ناراض ہوں گے پھر ان کی خیر نہیںکیونکہ ہل والے ناراض ہوئے تو گجرات اور ہماچل الیکشن پر اثر پڑ سکتا ہے اور نیشنلی خود مختاری کی بات کرنے وہ دور بہت دور جنوبی ہندوستان پہنچے۔ویسے مودی مہاراج ڈریں کیوں نا ؟انہیں تو یاد ہے کہ ماضی میں جب اندرونی خود مختاری قرارداد کا پارسل نیشنلی قیادت نے دلی ارسال کیا تو باجپائی سرکار نے اس کے اوپر بندھی رسی نہ کھولنے میں بہتری سمجھی کہ ہو نہ ہو مذاق مذاق میں کوئی لفظوں کا بارودی مواد ہو۔ اس لئے بنا دیکھے پرکھے پارسل کو ایک دوتین کر کے ردی کی ٹوکری کے حوالے کیا۔ادھر نیشنلی حکمران چپ سادھے بیٹھے رہے کہ آج نہیں توکل پریم پتر کھولیں گے،پڑھیں گے، ناچیں گے، جھومیں گے۔جب کوئی جواب نہ آیا تو ہل بردار خاموش ہوئے ،اپنی مستعار طاقت کا مظاہرہ کرنے گپکار کی سڑکوں پر بازو لہرا لہرا کر نہیں للکارا کیونکہ اس وقت کرسی کا کھوں کھوں بھی تھا ، آگے پیچھے گاڑیوں کا پوں پوں تھا، ہیلی کاپٹر کا شوں شوں تھا ، بھلا اتنے دوں دوں کو کوئی بھلا چنگا پُرش چھوڑ سکتا ہے کیا؟
خیر Tiger is back والی بات یاد آئی کہ ہل والوں نے اپنے قائد ثانی کو پھر صدر چنا ۔ مانا کہ باقی لوگ ڈاکٹر فاروق کو ٹائیگر نہ ڈاکٹر مانتے ہیں بلکہ الزام دیتے ہیں کہ نہرو نے ان کے والد گرامی سے مطلبی دوستی اور مفادی دشمنی ساتھ ساتھ نبھائی۔ایک طرف دشمنی کی آڑ میں شیخ کو جیل میں رکھا اور دوسری طرف دوستی کے ناطے فرزند کبیر کو ڈاکٹری کے پرچے منا بھائی اسٹائل میں حل کروائے۔غیر نیشنلی تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ۱۹۹۶ میں ایس کے آئی سی سی میں قائدثانی رونے دھونے اور ٹسوئے بہانے کے بدلے کچھ( مثلاً آٹانومی) حاصل کر سکتے تھے لیکن ٹائیگر نے کرسی کو ہی ترجیح دی، کرسی نہ ہو تو اٹونامی کا ٹوٹا پھوٹامیز کس کام کا؟اور تو اور ۲۰۰۲ میں گجرات مسلم کش فسادات کے وقت وہ اپنے فرزند کو بھاجپائی سرکار سے الگ بھی کر سکتے تھے لیکن وہ تیز دانتوں کے بغیر اور بے دُم ٹائیگر ہی ثابت ہوئے کہ کرسی کو مضبوطی سے بلکہ بتیس دانتوں ، دو ہاتھوں ، دو عدد ٹانگوں، سو عدد زبانوں کی رسی سے تھامے رکھا۔ ایسے میں اب بے کاری کی بوریت ہٹانے کے لئے ڈل گیٹ میںڈیلی گیٹ کنونشن میں اندرونی خود مختاری کا مطالبہ کچھ ہضم نہ ہوا، واللہ سیاسی ہاضمولا نے بھی کوئی کام نہ کیا۔
اٹانومی کا ذکر خیر چل ہی رہا تھا کہ اندرونی خود مختاری مطالبہ مودی مہاراج نے کیا فٹا فٹ خارج۔ اس خروج کی ادا ئے دلربا پر ہمیں اسکول کے دن یاد آئے ۔ گویا کوئی سیاسی مسلٔہ نہ ہو اسکول سے زیادہ تر غیر حاضر رہنے والا کوئی طالب علم ہو ، جسے مسلسل غیر حاضری کی پاداش میں خارج کردیا جائے لیکن اب تو ہم اسکولی طالب علم نہ رہے اب تو ہم کچھ سوچتے سمجھتے دیکھتے بھالتے بھی ہیں۔مثلاً اگر اندرونی خود مختاری بھی ممکن نہیں پھر حریت والوں کی مانگ کہ رائے شماری کرائی جائے، اس پر اپنے شرمیلے شرما جی کس منہ سے بات کریں ؟ ایسے میں ایک اور پھٹیچرسوال ذہن کے گردوغبار میں خودرو پودے کی طرح ابھرتا ہے کہ دلی کو پھر مذاکرات کار کی ملازمت کیوں معرض وجود میں لانی پڑی، ایک وظیفہ یاب جاسوس کو کیوں مراعات سے مالا مال کر نا پڑا، زیڈ سیکورٹی کا چھاتا کیوں شرما جی کے سر پر تاننا پڑا ، وہ وادی ٔ گلپوش میںکیا لے کرپدھارر ہے؟
قصہ مختصرہل والا ٹائیگر جب اٹونومی کے مرے ہوئے گھوڑے پر دھاڑاتو ہمیں ایسا لگا کہ قلم دوات اور کنول کی ملی جلی سرکار کے ایوان لرزنے لگے ہیں ،۔ دفعتاًوہ مشہور نظم یاد آئی کہ تخت گرائے جائیں گے ،تاج اُچھالے جائیں گے۔ نرمل سنگھ نے دم سنبھالا، فوراً اعلان کردیا کہ حریت والے مسلٔہ کشمیر کے فریق ہیں البتہ عسکریت پسندوں سے کوئی بات نہیں ہوگی۔مزید بر آںکہ ملک کشمیر بھارت کا تاج ہے۔ادھر بھاجپا والے آگرہ کے تاج کے پیچھے پڑے ہیں ،ادھر بھاجپا والے دوسرا تاج سجانے لگے۔جانے کیوں نرمل سنگھ کو حریت والے کومل اور نرمل لگے کہ انہیں اس بات چیت میں فریق تسلیم کیا جس میں وہ لوگ شامل ہونے والے نہیں؟جانے نرمل سنگھ اور کنول والے کون سی نئی کھچڑی پکا رہے ہیں کہ جو کل تک دیش دروہی تھے بلکہ صحافت کے مچھلی بازار میں مملکت خداداد کے دلال تھے آج کیسے فریق بن گئے،یعنی کنول والے نت نئی کھچڑیاں پکانے میں تجربہ کار ہیں اسی لئے کھچڑی کو قومی غذا (نیشنل فوڈ ) بنانے کی تیاری میں مصروف ہیں۔اس کے کئی فائدے ہیں کہ بیٹھے بیٹھے من کیا تو کھا گئے اور موڈ میں آئے تو سیاسی کچھڑی میں تبدیل کردیا،جس کی کل مخالفت کر رہے تھے ،اسی کو آج نیشنلزم کا لبادہ اوڑھ دیا۔ایسے میں جانے کونسی کھچڑی پکی کہ آزادی نوازوں کو اپنے پاس قریب بٹھانے کی ٹھان لی۔حالانکہ ہم تو بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ جو کچھ کہیں سچ سچ کہیں گے، ہم نے انہیں (حریت والوں کو) نہیں سمجھایا کہ اس بات چیت میں حصہ نہ لو بلکہ وہ یہ فیصلہ خود ہی لے گئے ۔اپنی صفائی دینا ضروری بن گئی ہے ،کیا پتہ دیش دروہی مان کر مملکت خداداد چلے جانے کی صلاح دی جائے۔کھچڑی تو کھچڑی ہے پک گئی تو مزہ ۔کھچڑی کی ایک کٹوری کھا کر ۱۹۴۷ یاد آیا۔ مقبول شیروانی کے چیلے چانٹے اچانک کنول کے پھولوں کی کیاری سے نمودار ہوئے۔ببانگ دہل اعلان کردیا کہ شیروانی نے ملک کشمیر کو بھارت ورش کا اٹوٹ انگ بنانے کے لئے جان کی قربانی دی جس کو یاد کرنے کے لئے شیروانی کو بھارت رتن سے نوازا جائے۔۴۷ ء کی کھچڑی کے ساتھ ۲۰۱۷ء میں بھی کچھڑی پکی۔ جانے سجاد لون آف بھاجپا کوٹہ اور نعیم اختر آف ناگپور کیسے بھاجپا کنونشن میں پہنچ گئے۔اسی لئے تو نیشنل کے ٹویٹر ٹائیگر نے سوال پوچھ ہی لیا کہ کیا سمجھ کر آئے تھے یہی نا کہ امت شاہ خوش ہوگا ،شاباشی دے کیوں؟اور اس شاباشی کے عوض بھاجپا کے کوٹہ سے منسٹری بر قرار رہے گی کیونکہ جب تک امت شاہ کا آشرواد شامل حال نہ ہو کوئی کرسیٔ وزارت پر سکون سے نہیں بیٹھ سکے گا اور جب اس کا آشرواد اپنے بیٹے پر قائم رہا تو بزنس بھلے عام لوگوں کے لئے تکلیف دہ بنی لیکن خود اپنے فرزند جے شاہ کے حق میں یہ بڑی چمتکاری ہوئی۔پچاس ہزار کے خرچے میں سے اسی کروڑ کمائے!!!اسی کو کہتے ہیں جے شاہ کی جے ہو، اپوزیشن کی قے ہو
بھارت ورش میں ایک ہندو واہنی بھی ہے جسے یوگی مہاراج آف گورکھپور تھپکی دے کر سلاتے ہیں، گائے کا دودھ پلا کر بڑھا کرتے ہیں،سیاسی پالنا جھلاتے اس لائق بناتے ہیں کہ وہ جہاں چاہے مسلم اقلیت کے خلاف آواز اٹھائیں، انہیں ڈرائیں دھمکائیں۔اب کی بار مودی سرکار میں ہندو واہنی نے مستقبل کا نقشہ کچھ یوں کھینچا کہ اگر اسی رفتار سے مسلم آبادی میں اضافہ ہوا اوراگر مسلم آبادی بڑھنے دی گئی تو بھارت ۲۰۲۷ ء تک مسلم ملک بن جاٖے گا۔ مطلب صاف ظاہر ہے کہ واہنی والوں نے خطرے کی گھنٹی بجا دی، دیش واسیوں کو ہوشیار رہنے کی تلقین کی، سرکار کو چیتاونی دے ڈالی۔ اخلاق، پہلو خان ، جنید وغیرہ کے سروں پر رکھی ٹوپی یاد دلائی ۔ہو نہ ہو ان کی آواز سے مرعوب ہو کر ہریانہ کا ایڈشنل ایڈوکیٹ جنرل جنید کے قاتلوں کی مدد کر رہا ہے۔سوالات پوچھنے کے لئے اکسا رہا ہے۔یہ بات ہم نے نا کہی بلکہ خود جج موصوف نے کہی اور اس سرکاری وکیل کے خلاف کاروائی کی بات کی جو لڑ رہا جنید کا کیس ہے لیکن مبینہ قاتلوں کی امداد بھی کر رہا ہے۔بات تو صاف ہے پہلو خان کے قاتلوں کو پولیس کی مدد حاصل ہے، اخلاق کے قاتلوں کو ممبر اسمبلی کی مدد حاصل ہے اور جنید کے قاتلوں کو خود سرکاری وکیل کی امداد میسر ہے ۔ایسے میں اگر معروف ایکٹر کمل ہاسن نے کہا کہ ہندو دہشت گردی ایک سچائی ہے ،تو بھلا اسے کیوں تنقید کا نشانہ بننا پڑے؟؟؟
راجستھان کے ایک شہر کے مئیر جی نے صبح سویرے ڈیوٹی جائن کر نے سے پہلے قومی ترانہ گنوانے کا اہتمام کیا، کہ بقول اس کے اس عمل سے ملازمین کے اندر وطن پرستی جاگتی ہے اور جسے اس پر اعتراض ہو وہ مملکت خداداد چلا جائے۔ اس کی دیکھا دیکھی آسام کے ایک شہر کا مئیر کیوں وطن پرست نہ بنتا فوراً اسی انداز کا حکم نامہ جاری کردیا۔وطن پرستی کے لئے سویرے قومی ترانہ گانا تو لمبا اور مشکل مسلٔہ ہے بہتر ہوتا معروف اداکار وں کی خدمات حاصل کی جائیں اور وہ جو دو بوند زندگی کے پلا کر پولیو بیماری کا قلع قمع کرنے میں مدد فرماتے ہیں کیوں نہ اسی طرح سبھوں کے منہ میں دو بوند وطن پرستی کے ڈال دیں۔آنا ً فاناً سب لوگ وطن پرست ہوجا ئیں گے۔پھر کسی کو ٹی وی پر آکر اس کا پرچار بھی نہ کرنا پڑے گا اور کسی کو بھی مملکت خداداد پھنکنے کی زحمت بھی نہ کرنی پڑے گی۔
ہم نے اصلی بم دیکھے ہیں اور ان کا پھٹاکہ بھی اڑتے دیکھا ہے، سیاسی بم بھی پرکھے ہیں کہ زور سے پھٹتے ہیں مانا کہ ان میں بارودی کیمیا ہوتا ہی نہیں اس لئے پھُس نکل جاتے ہیں لیکن عدالتی بم پہلی بار پڑھنے کو ملا۔پہلی بار اس لئے کہ یہ سیاسی مشٹنڈوں کے لئے ہے۔سپریم کورٹ نے ایک فیصلے میں اس بات پر زور دیا کہ بے ایمان سیا ست دانوں کے کیس خاص عدالتوں میں سنیںیعنی اب فیصلے ان کے خلاف جلد ہوں گے۔ایسا نہیں ہوگا کہ وہ قتل بھی کریں اور آہ بھی نہ ہو!!
رابط [email protected]/9419009169