طارق اعظم کشمیری
ذرے سے لے کر پہاڑ اور قطرے سے لیکر قلزم تک ،جب ہم دیکھتے ہیں تو بے نظیر فنکار فقط کامل اکمل اور مکمل نظر آتا ہے۔ باقی سب کے سب شہکار کہیں نہ کہیں ضعیفی کے محور میں آتے ہیں۔ اسی لیے قرآن مجید میں اللہ یوں گویا ہے۔ خلق النسان ضعیفا۔ کہ ہم نے انسان کو ضعیف پیدا کیا ہے۔ میں انبیا کرام ؑیا فرشتوں کی بات نہیں کر رہا ہوں بلکہ اس سےنچلے سطح عوام الناس کی روداد رقم کر رہا ہوں کہ ہم میں سے کوئی ایسا بندہ نہیں ہےجو خود کو مکمل ہونے کا دعوایٰ کرسکتا ہے۔ چاہیے وہ اوصاف کی صورت ہو یا علم کی۔ اوصاف کا مخزن رب کعبہ ہے اور علم کا بھی۔ اب ہم خود کو عقلِ نرینہ رکھنے والے بھی نہیں کہہ سکتے ۔ کیونکہ قرآنِ مجید میں اللہ تعالی فرماتے ہیں۔ خلق النسان عجولا ۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہےکہ ہم سب میں کسی نا کسی چیز کا عیب ہے،تو پھر معیوب کس واسطے دوسرے انسان پر بد گمان ہوسکتا ہے۔ ہمارے رہبرِ کاملؐ کا ارشادِ گرامی ہے کہ بدگمانی سے بچو۔ عزیزو! اس بدگمانی کو میں کیا کیا نام دوں۔ یہ بدگمانی جب گھر میں پیدا ہوجاتی ہے تو گھر گھر نہیں بلکہ کھنڈر بن جاتا ہے اور اسی بدگمانی کی آگ جب کسی ادارے میں لگ جاتی ہے تو ملت کے اتفاق کو جلا جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔ ایسے کتنے واقعات میری کوتاہ نظر سے گزرے ہیں، جن کو رقم کرنے سے بات لمبی ہوجائے گی۔ اسی لیے اختصاراً میں یہاں اظہارِ دل کروں کہ ہم اپنے اندر گنجائش پیدا کرے، کسی بھی فرد سے بدگمان نہ ہوجائیں ۔ کیونکہ بدگمان ہونے میں ذاتی نقصان ہے۔ لہٰذا اگر ہم کسی کو داد بھی نہیں دے سکتے لیکن کم از کم حوصلہ شکنی بھی نہ کریں۔ ہاں ایک تدبیر یہ بھی ہوسکتی ہےکہ اگر کسی فرد کے اندر کوئی ایسی صفت دیکھنے کو ملے، جس سے ارد گرد سنے یا دیکھنے والوں پر بُرا اثر پڑ سکتا ہے تو ایسے فرد کو ہم اچھی طرح روبرو نشاندہی کرا سکتے ہیں اور غلطی کا ازالہ بھی ہوجائے گا۔ ساتھ ساتھ اتفاق کی ڈوری کٹنے سے بچ سکتی ہے، ورنہ بدگمانی ملت کی موت ہے۔ اللہ تعالی کرے ہمیں اس بد فعل سے نجات دے۔
ایک غلط فہمی نے دل کا آئینہ دھندلا دیا
ایک غلط فہمی سے برسوں کی شناسائی گئی
حتیٰ کہ علما ٕ کرام کہتے ہیں کہ اگر کسی انسان میں کوئی عیب موجود بھی ہو ۔ وہاں سچ بولنا جائز نہیں ۔ کیونکہ اس کی وجہ سے اسکی دل آزاری ہوگی اور بولنے والا دل دکھانے والوں میں شمار ہوجائے گا۔ یہ سب تو ہم جانتے کہ اللہ پاک اوروں کے دل دُکھانے والوں کو پسند نہیں کرتےہیں۔ کسی کی تذلیل کرنا یا اس کی عیب جوئی کرنا سراسر حرام ہے۔یہاں تک کہ ہمارا پاکیزہ دین ہمیں کسی کافر کو بھی حقیر سمجھنے کی اجازت نہیں دیتا ہے ۔ اس کے کرنے پر جو پکڑ ہوتی ہے، اس کا اندازہ آپ اس مشہور واقعہ سے بھی لگا سکتے ہیں کہ مولانا شبلیؒ کے ساتھیوں میں ایک بڑا محدث گزرا ہے، جس کا نام ابو عبداللہ اندلسی ہے۔ وہ ایک مرتبہ کہیں جا رہا تھا تو راستے میں انہوں چند لوگوں کو بتوں کو پوجتے ہوئے دیکھا، تو دل ہی دل میں کہنے لگے۔ یہ لوگ جانوروں سے بھی بدتر ہیں۔ بس یہ الفاظ تھےتو اللہ کی پکڑ نے ان کو گھیر لیا۔ وہ آگے بڑھے تو ایک حیسن و جمیل لڑکی پر ان کی نظر پڑی، عبداللہ اندلسی کا دل ان پر فریفتہ ہوا۔ وہ اس لڑکی سے نکاح ک درخواست کرنے لگے، وہ لڑکی جواباً بولی، اگر یہ بات ہےتو آپ میرے والد کو بتائیں۔ ابو عبداللہ اس کے والد کو ملے۔ اس کے سامنے نکاح کی پیش کش کی تو لڑکی کے والد نے عبداللہ اندلسی سے کہا، ٹھیک ہے ۔ مگر کچھ شرائط پر میں اپنی بیٹی کا نکاح آپ سے کرسکتا ہوں۔ عبداللہ بولے، جی جی آپ بتائیں کیا کیا شرط ہے۔ لڑکی کا باپ کہنے لگا۔ دیکھو جی! پہلی شرط ہے آپ کو عیسائی بننا ہوگااور میری آخری شرط ہے، آپ کو خنزیر چروانے ہونگے۔ اب یہ وہ شرائط ہیں، جن کو قبول کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ لیکن وہ کہتےہیں ناکہ جب دل کی آنکھیں اندھی ہوجاتی ہے، تب کھرے کھوٹے میں تمیز باقی نہیں رہتی ہے۔ عبداللہ اندلسی کا دل اس لڑکی کے قفسِ حسن کا اسیر تو بن چکا تھا،اسی لیے دونوں شرطوں کو قبول بھی کر لیا۔ یہ لمبا چوڑا واقعہ ہے، لیکن یہاں تک بھی ہم اگر کہیں گے تو اتنا سبق تو حاصل ہو ہی جائےگا کہ کسی کافر کو حقیر سمجھنے سے ایک کلمہ گو کہاں سے کہاں پہنچتا ہے۔ یہ سزا تو ہوگئی ایک بت پرست کو حقیر سمجھنے پر۔ پھر ایک مومن کوذلیل کرنا یا اس کی حقارت کرنا، اس کی تو بات ہی نہیں بنتی ہے۔ میرے عزیز و ایک مرتبہ سید المرسلینؐ بیت اللہ کو مخاطب ہو کر فرمانے لگے کہ اے کعبہ۔ بے شک تو بہت عزت والا ہے لیکن وللہ تجھ سے بھی زیادہ عزت والا اکرام والا ایک مومن ہے۔ یہاں تو بات ہی ختم ہوگئی۔ اب کس کی ہمت ہے جو اب کسی مسلمان کو نگاہِ حقیر سے دیکھے۔ اسی لیے میں ایک مشہور شاعر کے شعر سے اپنے مضموں کو سمیٹتا ہوں ۔
زاہد نگاہِ کم سے کسی رند کو نہ دیکھ
جانے اس کریم کو تو ہے کہ وہ پسند
<[email protected]>