قمر الزماں قادری
کسی شخص سے ایسا مذاق کرنا حرام ہے جس سے اُسے اذیت پہنچے، البتہ ایسا مذاق جو اسے خوش کردے جسے خوش طبعی اور خوش مزاجی کہتے ہیں جائز ہے۔ بلکہ کبھی کبھی خوش طبعی کرنا سنت بھی ہے جیسا کہ مفتی احمد یار خان نعیمیؒ کہتے ہیں،’’حضور پرنورؐ سے کبھی کبھی خوش طبعی کرنا ثابت ہے۔ اسی لئے علماء کرام فرماتے ہیںکہ کبھی کبھی خوش طبعی کرنا سنت مستحبہ ہے۔(مراٰۃ المناجیح:۶/۴۹۳۔۴۹۴)۔ امام محمد غزالیؒ فرماتے ہیں:’’اگر تم اس بات پر قادر ہوکہ جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی الله عنہم قادر تھے کہ مزاح (یعنی خوش طبعی) کرتے وقت صرف حق بات کہو، کسی کے دل کو اذیت نہ پہنچاؤ، حد سے نہ بڑھو اور کبھی کبھی مزاح کرو، تو تمہارے لئے بھی کوئی حرج نہیں۔ لیکن مزاح کو پیشہ بنا لینا بہت بڑی غلطی ہے۔ (احیاء علوم الدین، کتاب آفات اللّسان، الآفۃ العاشرۃ المزاح، ۳ / ۱۵۹)۔ مذاق اڑانے کا شرعی حکم بیان کرتے ہوئے علامہ عبد المصطفیٰ اعظمیؒ کہتے ہیں: ’’اہانت اور تحقیر کے لئے زبان یا اشارات یا کسی اور طریقے سے مسلمان کا مذاق اُڑانا حرام و گناہ ہے ۔کیونکہ اس سے ایک مسلمان کی تحقیر اور اس کی ایذاء رسانی ہوتی ہے اور کسی مسلمان کی تحقیر کرنا اور دُکھ دینا سخت حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔‘‘(جہنم کے خطرات۔173)
یاد رہے کہ حضور اقدسؐ سے بھی خوش طبعی کرنا ثابت ہے۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا لیکن آپؐ کا خوش طبعی کرنا دل آزاری، نقصان اور جھوٹ سے پاک تھا۔ مذاق میں ان چیزوں سے بچنا بہت مشکل ہے۔لہٰذا ہمارے لئے اس سے بچنا ہی بہتر ہے، نیز مذہبی شخص کو زیادہ مذاق کرنے سے بچنا چاہئے۔ خصوصاً عوام کے سامنے کیونکہ اس وجہ سے لوگ اس سے دور ہوجائیں گے اور اس کی علمی خوبیوں سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔
کسی شخص میں پائی جانے والی عارضی خرابی مثلاً اس کے بالوں یا لباس وغیرہ کے انداز کا بے تکا ہونا یا پھر اس کی عارضی کمزوری مثلاً ،محتاجی اور غریبی کے آثار کو دیکھ کر اس کا مذاق اُڑانا۔اسی طرح کسی شخص میں پائی جانے والی مستقل اور فطری خرابی یا کمزوری کہ جس کے پیچھے خود اس بندے کا کوئی عمل دخل نہ ہو، مثلاً وہ بہرا یا کم سُنتا ہو، بھینگا، کانا، توتلا، لنگڑا، چھوٹے قد کا یا پھر کالے رنگ کا ہو، ان وجوہات میں سے کسی وجہ سے اس کا مذاق اڑانا، ایسی بُری عادت ہے جو لوگوں کے دِلوں کو توڑتی اور انہیں دُکھاتی ہے۔ محبت کی جگہ نفرت کے بیج بو کر لوگوں کو ہمارے خلاف کر دیتی ہے، اپنوں کو پرایا بنادیتی ہےاور ساتھ ہی دِلی عزت اور احترام والی سوچ کو بھی مار دیتی ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنی دُنیا و آخرت کی بہتری کےلئے زبان، اشارے یا کسی اور طریقے سے کسی کا مذاق اُڑانے سے پرہیز کریں۔ الله ہمیں اسلام کے احکامات پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
( را بطہ ۔ 7668419805)
[email protected]