معراج وانی،کنگن
کسان وہ ہستی ہے جو زمین سے زندگی کشید کرتا ہے، جو مٹی میں بیج بو کر امیدوں کا فصل اگاتا ہے اور جو پسینے سے زمین کو سیراب کرتا ہے تاکہ دوسروں کی بھوک مٹائی جا سکے۔ وہ زندگی کی اصل روح ہے، جو خاموشی سے اپنے فرائض ادا کرتا ہے، شکایت نہیں کرتا بلکہ شکر گزار، صابر اور متوکل رہتا ہے۔
دن ہو یا رات، گرمی ہو یا جاڑا، آندھی ہو یا بارش، کسان اپنے کھیت سے جڑا رہتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ہر بیج جو وہ بوتا ہے، شاید پھل دے، شاید نہ دے۔ لیکن وہ نا امید نہیں ہوتا، کیونکہ اس کا دل شکر سے لبریز، صبر سے مزین اور توکل سے روشن ہوتا ہے۔ ’’یہ فصل امیدوں کی ہمدم، یہی خزاں کی حکایتیں ہیں‘‘ — فیض احمد فیض کا یہ شعر کسان کی زندگی کی بہترین ترجمانی کرتا ہے۔جب بارشیں دیر سے آتی ہیں، جب آسمان بے رحم ہوتا ہے، جب کیڑے مکوڑے فصلوں کو کھا جاتے ہیں، تب بھی کسان سجدہ شکر ادا کرتا ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جو کچھ بھی ہوتا ہے، اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے اور جو رزق مقرر ہے، وہ اسے ضرور ملے گا۔
کسان کی زندگی میں صبر ایک ستون کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ برسوں تک زمین کو سنوارتا ہے، مگر کبھی شکوہ نہیں کرتا۔ مہینوں کی محنت کے بعد جب فصل تیار ہوتی ہے تو سب سے پہلے دوسروں کو دیتا ہے۔ خود کم کھا کر بھی دوسروں کا پیٹ بھرتا ہے۔اور توکل؟ توکل تو کسان کی سانسوں میں بسا ہوتا ہے۔ بیج زمین میں ڈالتے وقت وہ جانتا ہے کہ یہ اُگے گا یا نہیں، یہ اس کے بس میں نہیں۔ مگر وہ بیج ضرور ڈالتا ہے کیونکہ اس کا یقین اپنے رب پر کامل ہے۔ وہی رب جو بارش برساتا ہے، وہی رب زمین کو زرخیز کرتا ہے۔
آج جب ہم شہری زندگی میں سہولیات کے عادی ہو چکے ہیں تو ہمیں اس خاموش ہیرو کا شکر گزار ہونا چاہیے جو ہمارے لیے بھوک اور پیاس سے لڑتا ہے، جس کی محنت کے بغیر ہمارے دسترخوان سُونے ہوتے۔
جب کسان گندم کا بیج زمین میں بوتا ہے، تو وہ صرف فصل نہیں اگاتابلکہ اس کے ساتھ اس کے خواب بھی مٹی میں دفن ہوتے ہیں۔ ہر بیج میں اس کے بچوں کی تعلیم، انا اور بہتر مستقبل کی امید چھپی ہوتی ہے۔ اس بیج میں اس کی غربت کے خلاف بغاوت کا آغاز ہوتا ہے۔ ہر پودا جب زمین سے سر نکالتا ہے تو کسان کے دل میں امید کا ایک نیا چراغ روشن ہو جاتا ہے۔جوں جوں وہ پودا بڑھتا ہے، کسان کے کندھوں پر موجود قرض کا بوجھ کچھ ہلکا محسوس ہوتا ہے۔ اس کے چولہے کا ایندھن، بچوں کے اسکول کا خرچ اور پھٹے پرانے کپڑوں کی جگہ نئے لباس کا تصور اس کے ذہن میں پروان چڑھنے لگتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں ایک مثبت، سرسبز مستقبل کا خواب لہرانے لگتا ہے۔ وہ اپنے کھیت کو ایک امیدوں کے باغ کی طرح دیکھتا ہے — ایک ایسا باغ جو اس کی غربت کے سائے کو ختم کر دے گا۔لیکن کبھی کبھار، جب یہ پودا کسی قدرتی آفت — مثلاً تیز آندھی، شدید بارش یا ژالہ باری — کا شکار ہو کر زمین بوس ہو جاتا ہے تو صرف فصل ہی نہیں گرتی بلکہ اس کسان کے خواب، اس کی محنت، اس کی امیدیں، سب بکھر کر خاک ہو جاتی ہیں۔ لمحوں میں وہ باغ اجڑ جاتا ہے جسے مہینوں سینچا گیا تھا۔
مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود، کسان نہ شکوہ کرتا ہے، نہ ہمت ہارتا ہے۔ وہ دل تھام کر، آنکھوں میں نمی لیے، رب کی طرف رجوع کرتا ہے اور شکر، صبر اور توکل کے ساتھ، اگلے موسم اور فصل کی تیاری میں جُٹ جاتا ہے۔ اس کا یقین اس کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ وہ جانتا ہے کہ رب کی رحمت سے ایک نئی صبح ضرور طلوع ہوگی۔کسان دراصل ایک زندہ مثال ہے شکر، صبر اور توکل کی۔ وہ ہمیں سکھاتا ہے کہ زندگی میں ہمیشہ مثبت رہو، محنت کرو، دعا کرو اور جو کچھ ملے، اس پر اللہ کا شکر ادا کرو۔ کسان نہ صرف زمین کا بیٹا ہے بلکہ روحانیت، قربانی اور ایمان کا مظہر بھی ہے۔اللہ تعالیٰ ہر کسان کی محنت کو قبول فرمائے اور ہمیں بھی شکر گزار، صابر اور متوکل بندہ بنائے۔آمین
[email protected]>
��������������