سہیل بشیر کار، بارہمولہ
اب مٹر لگانے کا موسم آگیا ہے۔ مٹر کئی اقسام کی مٹی میں لگایا جاسکتا ہے۔ سب سے اچھی فصل لومی مٹی میں ہوتی ہے، ہمیں مٹر اس جگہ لگانے چاہیے جہاں پانی جمع نہ ہوتا ہو، پانی کی نکاسی اچھی طرح ہو، اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ کشمیر میں عام طور پر رچنا اور ارکل (جس میں 98 یا یا پراکاش) بھی آتے ہیں، لگائے جاتے ہیں۔ ارکل سبزیوں کے لیے جب کہ رچنا بطور دال استعمال ہوتا ہے، چھاپڑی فروشوں کے ہاں یہ تلی ہوئی ملتی ہے جس کو کشمیر میں ‘kari’ بولتے ہیں۔ سب سے پہلے ہمیں زمین اچھے سے تیار کرنی ہے۔ مٹر لگانے سے پہلے کم از کم 3 بار زمین میں حل لگانا چاہیے، اس کے بعد سڑا ہوا گو بر ایک کنال میں 12 کو ئنٹل کے حساب سے ڈالنا چاہیے، اگر ورمی کمپوسٹ ہو تو وہ بھی ڈالنا چاہیے، اگر ورمی کمپوسٹ نہ ملے تو ایک کنال میں یوریا 1۔ 5 کلو، ڈی اے پی 56 کلو اور 5 کلو مٹر لگانے سے ایک دو روز قبل زمین میں ڈالیے۔ مٹر کو ہم اکتوبر سے نومبر کے مہینے تک لگا سکتے ہیں، بس اس بات کا خیال رکھا جائے کہ مٹر ڈالنے سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ زمین میں نمی ہو، ایک کنال میں 3 سے 4 کلو بیچ ڈالنا چاہیے، بہتر طریقہ یہ ہے کہ ہم بیچ کو ایک دن پہلے ہی بھگو کر رکھیں۔ ہم بیج براڈ کاسٹنگ (Broadcasting) کے ذریعہ ڈال بھی سکتے ہیں اور لین سوئنگ بھی کر سکتے ہیں، اگر براڈ کاسٹنگ کی جائے تو اس بات کا خیال رکھا جائے کہ پودوں کے درمیان فاصلہ ہو، لین اور لین کے درمیان 8 انچ جبکہ ایک پودے سے دوسرے پودے کے درمیان 4 انچ کا فاصلہ ہو اور 3 سے 5 سینٹی میٹر یعنی ایک سے دو انچ گہرا لگا دینا چاہیے۔ فصل کے لیے ہم لین سوئنگ (line sowing) کا طریقہ ہی اختیار کریں، کسی بھی اچھی فصل کے لیے گوڈائی ضروری ہے۔ مٹر میں 3 سے چار بار گوڈائی کریں یعنی تقریبا ہر ماہ یا جب ضرورت محسوس ہو، بیج لگانے سے پہلے بیچ کو سیڈ ٹرٹمنٹ کیا جائے۔ پانی ضرورت پڑھنے پر ہی دے۔ جب مٹر کی پھلیوں میں دانے بھر جائیں تو اس وقت ان بھری ہوئی سبز پھلیوں کی چنائی کر لیں۔ اگیتی اقسام 2 چنائیاں جبکہ پچھیتی اقسام 3 چنائیاں دیتی ہیں۔
مٹر میں تقریباً وہ تمام غذائی اجزاء موجود ہوتے ہیں جو انسانی جسم کی نشو و نما کے لئے ضروری ہیں۔ یہ موسم سرما کی مقبول ترین سبزی ہے اور لحمیات کی وجہ اس کی خاص اہمیت ہے۔ مٹر حجم میں بے شک چھوٹا ہے لیکن جب بات غذائیت کے ساتھ صحت کی آتی ہے تو مٹھی بھر مٹر اپنے اندر کئی غذائی اجزاء رکھتے ہیں جو صحت کے کئی مسائل دور کرنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔
مٹر میں میگنیشیم، وٹامن کے، اے، سی اور بی وٹامنز بھی ہوتے ہیں۔ مٹر میں موجود ریشوں سے نظام انہضام میں بہتری آتی ہے۔ جب بات صحت کی ہو تو ایک پھلی کے اندر موجود یہ ارزاں نرخ پر دستیاب چند دانے سپر فوڈ کی پوزیشن حاصل کر لیتے ہیں۔ آدھ کپ مٹر میں تقریبا چار گرام پروٹین ہوتی ہے۔ اس میں شامل امینو ایسڈ جو پروٹین بناتے ہیں، وہ عضلاتی اور ہڈیوں کی طاقت دیتے ہیں اور ہارمون اور انزائم ڈھانچے کے علاوہ جلد کی خوبصورتی اور نشوونما کے لیے مفید ہیں۔ مٹر میں وٹامن کے، اے سی اور بی کی وافر مقدار موجود ہوتی ہے آدھا کپ مٹر میں انسانی جسم کو وٹامن اے کی یومیہ ضرورت کی مقدار کا 35 فیصد موجود ہوتا ہے جو آنکھوں اور اچھی نظر کے لیے ضروری ہے۔ اس کا استعمال کارنیا کو صاف رکھنے کے لیے ہے اور یہ وہ جزو بھی ہے جو آنکھوں میں پروٹین کی مقدار سے اندھیرے میں دیکھنے کی صلاحیت بڑھاتا ہے۔ مٹر کا استعمال ہاضمہ درست رکھتا ہے۔ مٹر میں موجود ریشوں سے نظام انہضام میں بہتری آتی ہے۔ مٹر میں ایسا ریشہ موجود ہوتا ہے جو گزرنے والے فضلہ کو آسان اور تیز تر بنا کر قبض میں آسانی پیدا کرتا ہے۔ مٹر کینسر کے خطرات میں کمی کا بھی معاون ثابت ہوتا ہے، اصل میں ان خطرات سے بچاؤ کا بنیادی سبب اس کے اندر بنیادی طور پر اعلیٰ اینٹی آکسیڈینٹ مواد کی موجودگی ہے جو کہ انسانی جسم میں نقصان دہ بیکٹریا کو ختم کرتا ہے اور سوجن کو کم کرتا ہے۔ مٹر میں وٹامن کے کی وافر مقدار موجود ہوتی ہے، جس میں پروسٹیٹ کینسر سے لڑنے کی صلاحیت موجود ہے ،نیز ایسے مرکبات ہیں جو ٹیومر کی نشوو نما کو روک سکتے ہیں۔ شوگر کے مریضوں کے لیے مفید مٹر بلڈ شوگر کی سطح کو مستحکم کرنے میں بھی کام کرتے ہیں جو شوگر کے مرض کو قابو میں رکھنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ شوگر کے خطرے کو کم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ ایک کنال زمین میں ڈیڑھ سے دو کوئنٹل مٹر کی پیدوار ہو سکتی ہے مٹر لگانے کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس سے زمین میں نائٹروجن فکس ہوتا ہے۔نائٹروجن فلزیشن سے زمین کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے ۔لہٰذا ہر کسان یا ہر کچن گارڈن میں اس بہترین سبزی کو اُگانے میں پہل کرنی چاہئے۔