حالیہ دنوںبرطانیہ کے دارالعوام میں لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمنٹ تن من جیت سنگھ ڈھیسی نے بھارت میں کسانوں کے جاری احتجاج سے پیدا ہونے والی صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم بورس جانسن سے مطالبہ کیا کہ وہ بھارت کے احتجاجی کسانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کر یں اور بھارت کی نریندر مودی حکومت پر کسانوں کے مسئلے کا جلد منصفانہ حل نکالنے پر دبائو ڈالیں۔
رکن پارلیمان کے اس مطالبے کے رد عمل میں وزیراعظم برطانیہ نے حیرت انگیز طور پر مسئلہ کشمیر کا ذکر کیا۔لیبر پارٹی کے رکن پارلیمنٹ نے وزیراعظم جانسن سے سوال کیا تھا کہ کیا وہ بھارتی وزیراعظم کو اُن کے دلی جذبات سے آگاہ کریں گے تاکہ کسانوں اور بھارتی حکومت کے مابین جاری تعطل کو دور کیا جاسکے اور مسئلے کا فوری حل نکالا جاسکے اور کیا وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ہر ایک کو پرامن احتجاج کا بنیادی حق حاصل ہے؟ جانسن نے جواب دیتے ہوئے کہا ’’ یقینامسٹر اسپیکر ہمارے خیال میں، جیسا کہ معزز رکن بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ بھارت اور پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے، ہمیں اس پر شدید تشویش ہے لیکن یہ ان حکومتوں کا مسئلہ ہے کہ وہ اسے حل کریں‘‘۔انہوں نے کہا’’ یہ پاکستان اور بھارت کا دوطرفہ مسئلہ ہے‘‘۔صاف ظاہر ہورہا تھا کہ جانسن بھارت میں جاری اتنے بڑے مسئلے پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتے تھے ،اسی لئے انہوں نے کشمیر کا نام لئے بغیرکشمیرکا ذکر چھیڑ کر اصل مسئلے سے دامن بچالیا ۔بعض مبصرین جانسن کے اس بیان کو اُن کی ’بے خبری‘ کے بجائے برطانوی وزیر اعظم کا ’تجاہل عارفانہ‘ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اصل میں جانسن کسان تحریک کے بارے میں بات نہ کرکے ’دنیا کی بہت بڑی منڈی‘ کو اپنے ملک کیلئے بچانا چاہتے تھے۔مذکورہ مبصرین کے مطابق بھارت اور برطانیہ کے درمیان تاریخی معاہدات ہیں جن کا لب لباب باہمی تجارت ہے اور لندن یا دہلی اس کو نقصان پہنچانے کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں، اس لئے کسان تحریک ہو یا کشمیر، برطانیہ بھارت سے پنگا نہیں لے سکتا ہے۔
بھارت میں کسانوں کے رواں مظاہرے حال ہی میںمنظور کئے گئے تین قوانین کے خلاف جاری ہیں، جن کے تحت فصلوں کی قیمتوں کو ڈی ریگولیٹ کردیا گیا ہے۔کسانوں کے مطابق اس قانون پر عملدرآمد سے وہ اپنی روٹی سے بھی محروم ہوجائیں گے اور اس سے صرف بڑی کارپوریشنز کو فائدہ پہنچے گا۔
برطانیہ کے شہر لندن میں بھی حال ہی میں ہزاروں سکھ مظاہرین نے بھارت کے کسانوں کیساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے بھارتی ہائی کمیشن کا محاصرہ کرلیا۔ لیبر پارٹی کے ایک رکن پارلیمنٹ افضل خان کے مطابق ’’ بورس جانسن کا جھوٹ واضح ہوگیا ہے کیونکہ اس مسئلے کا بھارت اور پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے‘‘۔ سکھوں کی جنرل کونسل برائے انصاف گرپنت ونت سنگھ پنو نے کہا’’ ہمیں اس بات پر بہت مایوسی ہوئی کہ وزیراعظم جانسن کسانوں کے احتجاج کے حوالے سے کنفیوژ ہیں اور وہ اسے بھارت اورپاکستان کے ساتھ علاقائی تنازعے سے جوڑ رہے ہیں‘‘۔
بھارت یا پاکستان میں کوئی بھی حکومت مخالف عوامی سرگرمی ہو، تو اُسے دونوں ممالک کے مابین کشیدہ حالات کے ساتھ جوڑنے میں زیادہ دیر نہیں لگائی جاتی ہے۔بیشتر مبصرین کہتے ہیں کہ اس صورتحال سے دونوں ممالک کے متاثرہ عوام مزید متاثر ہورہے ہیں کیونکہ اُن کی اصل بات کی طرف دنیا یہ تاثر دیتے ہوئے توجہ نہیں دیتی ہے کہ’ یہ بھارت اور پاکستان کا کوئی باہمی مسئلہ ہے‘۔عالمی رہنمائوں نے ایک گھسی پٹی لائن یہ بھی یاد کرکے رکھی ہے ’’دونوں ممالک کو اپنے مسائل باہمی سطح پر حل کرنے چاہیں‘‘ اور وہ حسب ضرورت اس کا استعمال کرکے سمجھتے ہیں کہ انہوں نے عالمی سیاست میں کوئی تیر مار لیا ہے۔
بھارت اور پاکستان کی یہ باہم مشترک بات رہی ہے کہ طرفین کی حکومتوں کو جب بھی اندرونی سطح پر عوام کے غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ اس کو ’دشمن ملک کی سازش‘ قرار دیتے آئے ہیں۔جاری کسان تحریک کو ہی لیجئے۔مظاہرین پر کبھی خالصتانی ہونے کا الزام عائد کیا گیا تو کبھی اُنہیں ’پاکستان کی ایما پر‘ ملک کو کمزور کرنے کا طعنہ سننا پڑا، یہاں تک کہ اُن کی تحریک کو ’چین کی حمایت یافتہ‘ بھی قرار دیا گیا۔شاید یہی وجہ ہے کہ مظاہرین اپنے مطالبات کے حق میں نعرے بازی کے بیچ ’بھارت ماتا‘ کے حق میں بھی ایک آدھ نعرے بلند کرتے رہے ہیں تاکہ اُن کی ’قوم پرستی‘ پر کئے جارہے ’شک ‘کو زائل کیا جاسکے۔
حکومت اور کسانوں کے بیچ تعطل برقرار ہے ،ایک طرف کسان رہنمائوں کا کہنا ہے کہ وہ زرعی قوانین کو واپس لینے سے کچھ بھی کم پر تیار نہیں ہوں گے اور دوسری طرف مرکزی سرکار کسانوں کے احتجاج کو توڑنے اور اسے دہلی سے دور رکھنے کیلئے کوشاں ہے۔دہلی کے سنگھو بارڈر پر مظاہرہ پر بیٹھے ایک کسان لیڈر نے حال ہی میں میڈیا نمائندوںسے بات چیت کرتے ہوئے کہا ’’اب حکومت کو ہی کچھ کرنا ہے، کسان کو نہیں۔ جب تک حکومت زرعی قوانین واپس نہیں لیتی ہے، ہماری تحریک جاری رہے گی‘‘۔اُن کا کہنا تھا’’پہلے کسانوں کو پاکستانی کہا گیا، پھر کہا گیا کہ چین اس تحریک کو چلا رہا ہے اور اب حکومت کہہ رہی ہے کہ بائیں بازو کے انتہاپسند نکسلی اس کی قیادت کررہے ہیں۔ حکومت کچھ بھی کہے ،ہم اپنا پرامن احتجاج جاری رکھیں گے‘‘۔ مرکزی وزیر قانون روی شنکر پرساد نے اپنے ایک بیان میں الزام لگایا تھا’’ملک کے ٹکڑے کرنے کی کوشش کرنے والے ’گینگ‘ سے تعلق رکھنے والے جو لوگ شہریت ترمیمی قانون، آئین کی دفعہ 370 کی منسوخی اور رام مند ر کے خلاف تھے ،وہی بائیں بازو کے کردار کسانوں کی تحریک میں بھی شامل ہیں‘‘۔
یہ امر قابل توجہ ہے کہ کسانوں اور دیگر اپوزیشن لیڈروں کا ماننا ہے کہ نئے زرعی قوانین کی وجہ سے کسان بڑی کارپوریٹ کمپنیوں کے مزدور بن کر رہ جائیں گے۔انہیں ابھی اپنے پیداوار کی کم از کم قیمت کی جو ضمانت حاصل ہے وہ ختم ہوجائے گی اور بڑے تاجر اپنی مرضی کے مطابق کسانوں کو اپنا اناج اور پیداوار فروخت کرنے کے لیے مجبور کردیں گے۔ حال ہی میں شائع ایک تجزیہ میں بتایا گیا تھا کہاکہ اگر چہ کہ حکومت کسانوں کی اس تحریک کو سبوتاژ کرنے کے لیے مختلف حربے آزما رہی ہے۔ ان پر طرح طرح کے الزامات عائد کرنے کے علاوہ ان کے اند ر پھوٹ ڈالنے کی بھی کوشش کررہی ہے تاہم کسان جس اتحاد کا مظاہرہ کررہے ہیں اور ان کی یہ تحریک جس تیزی سے ملک بھر میں پھیلتی جارہی ہے اسے دیکھتے ہوئے حکومت کا اپنے مقصد میں کامیاب ہونا آسان نہیں دکھائی دیتا ہے۔
مرکزی حکومت کا استدلال ہے کہ حقیقت میں نیا قانون صرف کسانوں کے مفاد کی بات کرتا ہے کیونکہ اب کسان اپنی فصلیں نجی کمپنیوں کو بیچ پائیں گے اور زیادہ رقم کمائیں گے۔حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ نئے قانون کی مدد سے کسانوں کو مزید آپشن ملیں گے اور ان کو قیمت بھی اچھی ملے گی۔
سال رواں کے دوران بھارت میں دو زور دار عوامی تحریکیں اُٹھیں اور دونوں نریندر مودی کی سربراہی والی حکومت کے خلاف تھیں۔ ایک شہریت ترمیمی بل کیخلاف تھی ،جو اس لحاظ سے ناکام ہوئی کہ مذکورہ بل بعد میں ایکٹ بن گئی اور شاہین باغ میں دھرنا پر بیٹھے ہزاروں لوگ، بشمول خواتین کورونا وائرس پھیلائو سے پیدا صورتحال سے منتشر ہوگئے۔اب ہزاروں کی تعداد میں کسان بھارت کی راجدھانی کو جانے والی شاہراہ پر دھرنا دیکر بیٹھے ہیں جو پاس شدہ قوانین کی منسوخی کا مطالبہ کررہے ہیں۔کسان تحریک کہلانے والی یہ ایجی ٹیشن کہاں تک چلے گی اور کون سا رُخ اختیار کرے گی؟اس کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی ہے۔