علامہ اقبال کا یہ شعر ہم پر سوفیصد صادق آتاہے ؎
ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دِیابھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
کوئی چار دہائی قبل جموں کشمیر ریاست لداخ سمیت سات اضلاع میں تقسیم ہوئی تھی۔پھر شیخ محمد عبداللہ کے دور حکومت (۱۹۷۷ء۔۱۹۸۲ء) میں وادی اور جموںکے چھ اضلاع کو دوگنا کرکے بارہ کردیا گیا اور لداخ ریجن (لیہہ) میں بھی کرگل نام سے ایک ا ور ضلع کا اضافہ کیا گیا تھا۔ تب اس طرح سے کل ملا کر ریاست میں ۱۴؍ اضلاع کام کرنے لگے تھے۔ آگے چل کر غلام نبی آزاد (۲۰۰۵ء تا ۲۰۰۸ء) کے دور حکومت میں کشمیر وادی میں چار مزید اور جموں صوبے میں بھی چار اضافی اضلا ع قائم کئے گئے۔ دستورِ حکمرانی میں وقت گزرجانے، علاقے (ملک) میں ترقی ہونے اور آبادی میں اضافہ ہوجانے کے ساتھ ساتھ نظم و ضبط میں اصلاحات اور رقبہ جات کی نئے سرے سے حد بندیاں ہوتی رہتی ہیں۔ اسی نقطہ نظر کی آڑ میں جموں کشمیر کے گورنر انتظامیہ نے لداخ ریجن کو جموں، کشمیر کے بعد اب ریاست کا تیسرا صوبہ بنانے کا حکم نامہ جاری کردیا ہے ۔ ریاست میں قائم کئی سیاسی جماعتوں اور کئی لیڈران نے دیدہ دانستہ طور اس فیصلے کی مخالفت کرنے سے گریز کیا ہے، جب کہ دیگر کئی جماعتوں اور لیڈران نے واضح الفاظ میں اس فیصلے کے خلاف یا پھر اس کے حق میں بیانات جاری کئے ہیں ۔ حقیقت میں ریاستی حدود کے اندر اندر اس قدر اہم تبدیلی لائے جانے پر کوئی بھی لیڈر راضی ہوگا نہ کوئی یا سیاسی جماعت تہ دل سے خوش ہوسکے گی، حتیٰ کہ اس فیصلے سے براہ راست متاثرہ کرگل ضلع کے وہ لوگ بھی نہیں، جنہیں، ۱۹۹۹ء کی کرگل جنگ میں جان کی بازی لگانے کے اعتراف میں’’ وار ہیروز‘‘ کے القاب سے نوازا گیا تھا۔ کرگلی عوام ریاست کے اس تیسرے صوبہ کے لئے کرگل اور لیہہ کو باری باری صدر مقام بنانے کا مطالبہ کررہے ہیں اور خون کے آنسوبہارہے ہیں کہ ان سے سوتیلی ماں جیسا سلوک کیوں کیا گیا۔گورنر وقت نے لیہہ کو نئے صوبے کا پایۂ تخت قرار دیا ہے۔ حق بات یہ ہے کہ اگر لیہہ کی جگہ کرگل کو نئے صوبے کا صدر مقام بنایا جاتا تو کرگل کے بجائے لیہہ کے لوگ ہی ماتم کنان بن جاتے۔ یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے اور یہ کسی بھی طرح سے احساس بیگانگی نہیں کہلا سکتی، لیکن یہ فیصلہ بھی کیسا فیصلہ کہ اس کے نتیجے میں صوبہ قائم کئے جانے کے باوجود بھی اسی نئے صوبہ کی نصف آبادی کو اس فیصلے سے کوئی خوشی محسوس نہیں ہوئی ۔ اتنا ہی نہیں، اسی فیصلے کے تناظر میں اب علاقہ پیر پنچال اور چناب خطہ کے لوگ بھی گورنر انتظامیہ کے خلاف زیادہ سخت برہمی کا اظہار کررہے ہیں۔ان لوگوں کا بجا طور شکوہ ہے کہ لداخی عوام کے مقابلے میں پیر پنچال اور خطہ ٔ چناب کے لوگ کچھ زیادہ ہی مشکلات جھیل رہے ہیں مگر اس کے باوجود پہلے کی طرح آج بھی انہیں نظر انداز کیا جا رہاہے۔ واضح رہے کہ لیہہ ضلع کو گورنر انتظامیہ (۱۹۹۶ء سے ما قبل ) کے دوران آٹونامس ہل ڈولپمنٹ کونسل کے سٹیٹس سے نوازا گیا تھامگر اسی خطہ کی گود میں موجود ہوبہو حالات سے دوچار کرگل ضلع کے لوگوں کو نظر انداز کیا گیا تھا ۔ یہ الگ بات ہے کہ کرگلی عوام نے اپنی جدوجہد کے بل بوتے پر پہاڑی ترقیاتی کونسل حاصل کر کے دم لیا۔ آج کرگل کے ساتھ ساتھ پیر پنچال اور چناب وادی کے عوام بھی چیخ و پکار کررہے ہیں کہ اُن کو پھر سے نظر انداز کیا گیا ہے، البتہ پیر پنچال اور چناب خطوں کے لوگ اپنے جرم بے گناہی پر نالاں تو ہیں، مگر اُس سے بھی زیادہ نالان ہیں کرگل واسی ہیں، اگر چہ اب انہوں نے اپنی غیر معینہ ہڑتال واپس لی ہے اور گورنر نے rotational فارمولہ اصولی طور مان لیا ہے۔ کچھ بھی ہو مگر یہ لوگ سچ کہتے ہیں کہ اُن کا ضلع کسی بھی انداز سے لیہہ ضلع سے جداگانہ نہیں ہے ۔ کل ملاکر یہ سب علاقے ( لیہہ، کرگل، پیرپنچال و چناب ) یکساں جغرافیائی حالات، کہیں سخت سرد یا سخت گرم موسم، پہاڑی ماحول، محدود و ناقص قسم کے مواصلاتی نظام اور قلیل ذرائع وسائل کے ہم پلہ ہیں۔کوئی کیا کہے جب سرکار ایک ہی ریاست کے مختلف خطوں کے عوام کو در پیش کم و بیش یکساں نوعیت کے مصائب سے نجات دلانے کیلئے یکساں قسم کے اقدامات کرنے سے جان بوجھ کر اجتناب کرے۔ باقی ریاستوں یا ممالک میں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وسائل کی کمی کے باعث عوام کو درپیش مشکلات کا بیک وقت سدباب نہیں کیا جاسکتا لیکن اس طرح کے حالات میں جہاں کسی ایک علاقے کے عوام کی ضرورتوں کا احاطہ کرنے کی ابتداء ہوتی ہے، وہیں دوسرے خطوں، علاقوں یا بستیوں کے درماندہ لوگوں کی تسلی کیلئے ورکنگ کلینڈر جاری کئے جاتے ہیں اور پھر اپنی اپنی باری آنے پر وہاں کی مشکلات سے نپٹا جاتا ہے۔،لیکن اب کی بار کرگل کے حق میں وعدہ دینے کی بھی کوئی گنجائش بچی نہیں ہے۔ یہ وسائل اکٹھے کرنے کا سوال نہیں ہے بلکہ وسائل کی تقسیم کاری کا مسلٔہ ہے، جس میں ناانصافی سے کام لیا جارہا ہے اور اب اخباری اطلاعات کے مطابق کرگل میں امتیاز نام کی سرکاری پالیسی کے خلاف ہمہ گیر ایجی ٹیشن شروع کی گئی تھی۔ چندی گڑھ پنجاب کے ساتھ شامل ہوگا یا پھر ہریانہ کے ساتھ ملایا جائے گا، اس کا فیصلہ کئی دہائیوں سے زیر التوا ء ہے اور دونوں میں سے کسی ایک دعویٰ دار کے حق میں فیصلہ ہوجانے تک چندی گڑھ کو الگ سے رکھا گیا ہے۔ حقیقی سیاست دان اس طرح کے مسائل اُبھر آنے کے خطرات کو بھانپ لیتے ہیں اور اسی وجہ سے لداخ ریجن کو درپیش مسائل کا حل تلاش کرنے میں صبرو تحمل سے کام لیا جاتا رہا ،تاہم گورنر انتظامیہ عوام کی بے چینی کا اور کل کے سورج کے طلوع ہوجانے کی ضرورت کو نظرانداز کرکے خالص اپنی سوچ کی لکیر پر چل پڑی۔ ظاہر ہے کہ یہ طریقہ کار ووٹ کی طاقت پر قائم ہوئی حکومت کیلئے آگے چلنج کی صورت اختیار کرسکتا ہے، جیسے گورنر راج(۱۹۹۵ء) میں لیہہ کونسل کے طرز پر عوامی حکومت (۱۹۹۶ء) کو کرگل کیلئے بھی وہی طریقہ کار اختیار کرنا پڑا تھا اور اب کی بار لیہہ کے بعد کرگل کو بھی نئے صوبے کا صدر مقام نہیں بنایا جاسکتا ہے۔ پہلے یہ سوچنے کی ضرورت تھی کہ الگ صوبہ بنانے میں درکار کون سی بنیادی شرائط ہوتی ہیں۔ لداخ اپنے وسیع تر رقبہ کو لے کر ایک صوبہ ہی کیا، ایک ریاست میں تبدیل کرنے کے لائق ہے۔ اس خطے کے چپہ چپہ پر انسانی بستیاں موجود ہوتی تو اُناسٹھ ہزار مربع کلو میٹر علاقے میں دو سے بھی زائد ریاستوں کو قائم کیا جاسکتا تھا، مگر عام حالات میں تین لاکھ افراد پر مشتمل آبادی کو ایک ہی تحصیل میں سمویا جاسکتا ہے۔ جب بھی جمہوریہ ہندوستان کے قوانین کے تحت ریاست جموں کشمیر میں بھی جمہوریت کا جھنڈا بلند کیا جائے گا تو جمہوری طور قائم حکومت کے سامنے سب سے بڑا مسلٔہ کرگل ہوگا۔ تب تک گورنر اور گورنر انتظامیہ کے باقی اراکین جموں کشمیر کی حدود سے باہرنکل بھی گئے ہوں اور جب کرگل کا کوئی شہری اپنے حقوق کا ڈھنڈورا بجانے سڑک پر نکلے گا، تو نہ جانے سارے کرگل اور ساری ریاست کے عوام کے خلاف کیا کیا الزامات عائد کرے گا ۔
لداخ میں رہائش پذیر لوگوں کو سخت ترین جغرافیائی اور موسمی حالات کے پیش نظر زبردست مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ ریاست میںجب بھی، جو بھی حکومت اقتدار میں آگئی، مقدور بھر طریقے سے خطہ بھر کے عوام کی خدمت میں جُٹ گئی۔ ۱۹۴۷ء سے ہی، مشکلات سے پُر اس خطے میں سرکاری کام انجام دینے پر مامور ملازمین کو تنخواہ کے ساتھ سو گنا اور کہیں کہیں سو گنا سے بھی زیادہ الاونس رقم ادا کی جاتی رہی ہے، جو، اب بھی کسی نہ کسی صورت میں جاری ہے اور خطے بھر میں تعلیمی معیار میں بہتری آنے کے نتیجے میں اب اضافی تنخواہوں کا فائدہ مقامی طور بھرتی سینکڑوں ملازمین کو ہی مل رہا ہے۔ لداخ خطے کے ہونہار بچوں کو معیاری تعلیم دلانے کیلئے سرینگر، جموں اور ریاست کے باہر کے تعلیمی اداروں میں داخلہ دینے اوراُن کے حق میں سکالرشپ منظور کرنے کے اقدامات ابتدائی ایام سے منظور کئے جاتے رہے ہیں۔ خطے کے اندروں میں بھی تعلیمی سہولیات میں اضافہ کیا جاتا رہا ہے۔ لداخ خطہ کے عوام کو ہر لحاظ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس وجہ کو لے کر خطہ کی تعمیر و ترقی میں پہلے سے ہی مرکزی سرکارکا بھی خصوصی رول رہا ہے۔ ریاستی سرکار ہردم دستیاب وسائل کو بروئے کار لاکر یہاں زراعت، آبپاشی اور بجلی، روزگار اور دیگر شعبوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے اقدامات کرتے رہی ہے۔ ریاستی سرکار نے بہت پہلے سے ہی خطہ لداخ کیلئے علحیدہ طور سے لہہ میں ڈولپمنٹ کمشنر کو تعینات کررکھا تھا۔اس وجہ سے خطے کے مختلف شعبوں کو خصوصی طور ترقی دینے میں مدد ملتی رہی ہے۔ سیاحتی سیکٹر کو بڑھاوا ملنے کے نتیجے میں خطے کے لوگوں کو اقتصادی نوعیت کی کافی مدد مل گئی ہوتی، لیکن ڈفینس ضروریات کے پیش نظر سیاحوں کو کثرت سے اس خطے میں جانے پر بہت وقت سے پابندی لگی رہنے سے اس ہدف کو پوری طرح سے حاصل نہیں کیا جاسکا ہے۔ پھر بھی یہاں تعینات ہزاروں کی تعداد میں ، فوجی جوان و آفیسران باہمی رابطہ مہم کے تحت مقامی آبادیوں کو مختلف شعبوں میں روزگار کمانے کے مناسب مواقعہ فراہم کرتے رہتے ہیں۔ فوج یہاں زراعت کے شعبے کو نکھارنے میں خاص طور سے عوام کا ہاتھ بٹاتی ہے۔ اس طرح کے اقدامات کے نتیجے میں اب لداخ خطے کے عوام کی اقتصادی و معاشی حالت میں انقلاب آگیا ہے۔ خطے سے متعلق کئی اعداد و شمار انوکھے ہیں اور چونکادیتے ہیں۔ مثلاً لداخ خطہ ریاست کے کل رقبے کا ۵۸ فیصد حصہ ہے۔ لہہ ضلع ۴۵ ہزار مربع کلو میٹر اور کرگل ضلع ۱۴ ہزار مربع کلو میٹر پر پھیلا ہواہے۔ رقبہ میں کم ہونے کے باوجود کرگل ضلع کی آبادی( ایک لاکھ اکتالیس ہزار) لہہ ضلع کی کل آبادی سے آٹھ ہزار زیادہ ہے۔ دونوں اضلاع کی کل آبادی پونے تین لاکھ کے قریب بنتی ہے ، جو جموں کشمیر ریاست کی کل آبادی کا تین فیصد کے قریب ہے۔ لیکن اس قدر وسیع تر قطع زمین پر پھیلی انسانوں کی یہ قلیل آبادی کل ملا کر ۲۴۲ دیہات میں رہائش پزیر ہے۔ لہہ ضلع میں خاص طور سے ایک گائوں سے دوسرے گائوں تک پہنچنے میں میلوں کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ سال۲۰۰۲ ء کے اعداد و شمار کے مطابق کرگل ضلع کے کرگل و زنسکار نام کے دو (اسمبلی) انتخابی حلقوں میں کل ملا کر ۸۷۴۳۸ ووٹر درج کئے گئے تھے، جبکہ لہہ ضلع کے لہہ اور نوبرہ نام کے دو اسمبلی حلقوں میں ووٹروں کی تعداد ۸۶۷۱۵ تھی۔ دونوں اضلاع کے ووٹران پارلیمنٹ کیلئے واحد ممبر کا انتخاب عمل میں لاتے ہیں۔
گورنر انتظامیہ پر فرض بنتا ہے کہ لداخ کے نئے صوبہ کیلئے صدر مقام کے نام پر اُٹھے تنازعہ کو افہام و تفہیم سے جلدازجلد عدل و انصاف کی بنیاد پر حل کر ے۔ ایک صورت یہ بھی نکل سکتی ہے کہ دونوں فریقین کیلئے قابل قبول صدر مقام تعمیر کرنے کیلئے کرگل اور لیہہ، دونوں اضلاع کوملانے والی لکیر کے آس پاس کسی مناسب و موزوں علاقے کو منتخب کیا جائے۔ ایسی صورت میں ایک جانب ایک نیا شہر تعمیر کیا جاسکتا ہے اور دوسری صورت میں دونوں اضلاع کے عوام کو صدر مقام تک آنے جانے میں مساوی طور سہولیات میسر مہیا ہو سکتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ علاقہ پیرپنچال اور خطہ چناب کے عوام کے حق میں بھی لداخ جیسی بنیادی سہولیات قائم کی جائیں۔ یہ دونوں خطے بھی مسائل و مشکلات کی آماج گاہیں بنی ہوئی ہیں۔ راجوری اور پونچھ اضلاع پر مشتمل علاقے میں اگر چہ لداخ جیسی موسمی ستم ظریفی محسوس نہیں ہوتی ہے ،تاہم یہاں کی زیادہ تر آبادی کنٹرول لائین کے نزدیک رہائش پذیر ہے اور آئے دن دونوں اطراف کی گولہ باری سے جان لیوا حادثات کا شکار بن جاتی ہے ۔ راجوری اور پونچھ اضلاع میں ۲۰۰۲ء الیکشن شماری کے مطابق ۰۸۷،۳۴،۶ ووٹر درج ہیں۔ اس حساب سے دونوں اضلاع کی حقیقی آبادی کرگل اور لیہہ کی کل ۲؍ لاکھ ۷۴؍ ہزارکی آبادی (۱۵۳،۷۴،۱ ووٹر تعداد) سے چار گنا زیادہ ہے۔ خطہ چناب کی کہانی لداخ اور پیرپنچال بیلٹ کی کہانی سے کچھ بھی مختلف نہیں ہے۔ چناب وادی کو جموں سرینگر شاہراہ کے ساتھ ملانے والی سڑک، موت کے کنویں کا دوسرا نام ہے اور یہاں اس سڑک پر آئے دن ٹریفک حادثات میں درجنوں جانیں چلی جاتی ہیں۔ خالص ڈوڈہ کشتوار اضلاع کی ووٹر آبادی (۲۰۰۲ء الیکشن اعداد) ۶۸۴،۳۴،۴ درج ہوئی ہے، جو پیر پنچال کی آبادی سے دو لاکھ کم اور لیہہ کرگل کی آبادی کا (تقریباً) دوگنا ہے۔اس خطے کو قدرت نے پانی کے وسائل سے مالا مال کردیا ہے اور ابھی کئی ایک ہائیڈل پروجیکٹس کی بدولت نارتھ انڈیا کیلئے بجلی مہیا ہورہی ہے۔ یہاں اس خطے کو قدرت نے دل فریب نظاروں سے سجایا ہے اور یہاں سیاحت کا شعبہ سجانے سنوارنے اور وسائل بڑھانے کے نتیجے میں عام لوگوں کے معیار حیات میں اضافہ کیا جانا ممکن بن سکتا ہے، لیکن آج کل جہاں ہر شئے میسر ہو مگر سڑکیں نہ ہوں، وہاںخوشحالی کو کس دروازے سے پار کیا جاسکتا ہے؟ اس معاملے میں گورنر انتظامیہ نردوش ہے۔ تاہم لہہ کرگل کو تیسرے صوبے کا نام ملنے کے بعد اب ووٹ سے سرکار کا قیام عمل میں آنے کی دیر ہے کہ خطہ چناب اور پیر پنچال کو اپنے آپ چوتھے و پانچویں صوبے کی پہچان مل جائے گی ۔ غرض جو انفرادیت ستھر سال ساری ریاست کی جھولی میں سما گئی تھی، اُس کو تتر بتر کرکے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بانٹا گیا ہے اور دلی کے حکمران من موافق طریقوں سے کہیں اُس طرف اور کہیں اس طرف محلہ وار بنیادوں پر بانٹتے جارہے ہیں۔