ظفر محی الدین
حال ہی میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے اقوام متحدہ کی سالگرہ کے موقع پر اپنی اہم تقریر ماحولیات کے مسئلے اور آلودگی پر قابو پانے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ دنیا کے پاس وقت کم ہے۔ فوری طورپر پوری دنیا کو کرہ ارض کے تحفظ اور موسمی تغیرات پر قابو پانے کے لئے بھر پور جدوجہد شروع کر دینی چاہیے۔ انہوں نے تمام ملکوں اور تمام غیر سرکاری تنظیموں پر بھی زور دیا کہ وہ اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔ زراعت میں زرعی پیداوار کے لئے جو کھاد اورکیمیکل استعمال ہو رہے ہیں وہ مضر صحت ہیں۔ گویاایک طرف صنعتی ادارے دوسری طرف زرعی پیداوار میں اضافہ کے لئے جو کیمیکل استعمال کیا جاتا ہے یہ دونوں زمین اور سمندری آلودگی میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں۔ کارخانوں کا آلودہ پانی سمندروں میں شامل ہو رہا ہے۔ سمندری حیاتیات شدید متاثرہو رہی ہیں۔
کرۂ ارض پر موجود جنگلی حیایات ، سمندری حیاتیات، انسانی معاشرت اور صحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔ سمندروں کے حوالے سے جو حالیہ رپورٹ مرتب ہوئی ہے اس میں بتایا گیا ہے تیس فیصد سے زائد سمندری حیاتیات کی اقسام محروم ہو چکی ہیں۔ سمندر کا پانی نہ صرف کارخانوں کے آلودہ پانیوں سے ہو رہا ہے ،بلکہ ہزاروں کی تعداد میں سمندر میں دوڑتے پھرتے بحری جہازوں کے تیل ، کوڑا کرکٹ کے سمندر میں پھینکے جانے سے بھی سمندر آلودہ اور سمندری حیاتیات متاثر ہو رہی ہیں۔
دنیا کے تقریباً 80فیصد سائنس دان اور ماحولیات کے ماہرین اس نکتہ پر کلی طور پر متفق ہیں کہ کرہ ارض کے قدرتی ماحول اور موسمیات کو بگاڑنے میں ہم سب ذمہ دار ہیں، مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک بڑی تعداد اس کلیہ کو تسلیم کرنے پر بالکل تیار نہیں ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ اس کرہ ارض پر موسمیات کی قدرتی تبدیلیوں کے اثرات مرتب ہوتے رہے ہیں۔ اس کرۂ ارض پر زلزلے ، سیلاب، طوفان،آندھیاں، بارشیں ، اور ایسی دیگر قدرتی آفات رونما ہوتی رہیں ہیں اور یہ فطرت کا حصہ ہے۔ اس گروپ کو یہ بھی شکایت ہے کہ یہ گروہ دنیا کو خوفزدہ کر کے اپنی دوکان چلا رہا ہے اور دنیا کا خوف میں مبتلا کر رہا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ انسانی ضروریات، خواہشات، حرص و ہوس کی بدولت کرۂ ارض کا قدرتی ماحول اور فطرت کی ترتیب منتشر ہو رہی ہے۔ اس میں دنیا کی آبادی میں بے ہنگم اضافہ ایک بڑا مسئلہ ہے مگر حقائق کو تسلیم نہ کرنے والے اپنی اپنی منطق جھاڑتے ہیں ۔ آبادی میں اضافہ قدرتی عمل ہے، اس سے انسانیت کو کوئی نقصان نہیں اور نہ یہ بوجھ ہے۔
اس طرح کی دلیلیں تراشنے والوں کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ گلوبل وارمنگ کا واویلا کرنے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ گلوبل وارمنگ بھی فطری قانون کا ایک حصہ ہے۔ کبھی سرد کبھی گرم یہ سلسلہ صدیوں سے جاری و ساری ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ سالانہ اجلاس میں ایتھوپیا کے نمائندے نے تجویز دی کہ اقوام متحدہ کی جانب سے تمام سربراہوں کو کھلاخط ارسال کیا جائے جس میں ماحولیات اور موسمی تغیرات کے حوالے سے اہم نکات اور کرۂ ارض کے تحفظ اور انسانیت کی بقا کے سلسلے میں ایک آسان نصاب ترتیب دیں۔ اس نصاب کو دنیا بھر کے اسکولوں میں لازمی پڑھایا جائے جس سے اس اہم معاملہ کی آگہی عام ہوسکے۔ اجلاس میں زیادہ تر ارکین نے ماحولیات اور موسمی تغیرات کے حوالے سے بات کی تھی۔ افریقی نمائندگان کا کہنا تھا کہ افریقہ کے سب صحرا ممالک میں خشک سال کی وجہ سے کروڑوں لوگ شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ خشک سالی نے بارہ سے زائد ممالک میں قحط کی صورت حال پیدا کر دی ہے۔ اس آفت کی وجہ سے بچوں کی اموات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان نمائندوں نے عالمی برداری سے اپیل کی کہ اس جانب توجہ دے۔
سائنس دانوں کی حالیہ تحقیق کے مطابق کرہ ٔاراض کے درجہ حرارت میں 1.3 ڈگری کا اضافہ ہو چکا ہے اور2050 تک اس میں 3ڈگری تک اضافہ ہو سکتا ہے جس سے گلو بل وارمنگ اور سمندروں کی سطح میں مزید اضافہ ہو گا۔چند ماہ قبل چین میں زبردست بارشوں اور سیلاب نے تباہی مچا دی تھی ۔ اسی طرح بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں میں وسلادھار بارشوں اور سیلابی ریلوں کی وجہ سے اربوں روپیہ کی املاک کو زبردست نقصان پہنچا۔ تمام فصلیں تباہ ہو گئیں اور تین سو سے زائد افراد ہلاک اور لاپتہ ہو گئے۔ جب کہ امریکی سیاست کیلی فورنیا اور آسٹریلیا کے جنگلات میں بھیانک آگ بھڑکنے کی وجہ سے نقصانات اٹھانے پڑے۔
دوسری طرف گلوبل ورامنگ سے زمین خشک سالی کا شکار ہو رہی ہے، پانی کی قلت اور خوراک کی کمی نے لاکھوں افراد کی زندگی جہنم بنا دی ہے۔ اس پر ستم یہ کہ نئے نئے وائرس انسانی زندگی کو مزید اجیرن بنا رہے ہیں ، ایسے میں یہ کرۂ ارض اور اس کا قدرتی ماحول جو بتدریج بگڑتا جا رہا ہے، ماحول دوست انسانوں کی راہ تک رہے ہیں۔ یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ اتنے عرصے سے دنیا آگاہ ہے کہ زمینی ماحول بے ترتیب ہو رہا ہے۔ موسمی تغیرات تباہی مچا رہے ہیں۔ آلودگی میں اضافہ تمام قدرتی ماحول کو تباہ کر رہا ہے، مگر ہم اس زمین پر ایک بھی ایسا گوشہ نہ بنا سکے جو ماحول دوست ہو۔
ماہرین ارضیات کہتے ہیں کہ گزرے لاکھوں برسوں میں زمین کو نہ جانےکتنے معرکوں، زلزلوں، طوفانوں اور پرتوں کی تبدیلیوں کے عمل سے گزرنا پڑا ہو گا۔ زمین کا موجودہ نقشہ ماضی بعید میں ایسا نہ تھا۔ زمین کی پرتوں کی تبدیلی، لاوے کے بہائو اور قدرتی آفات کے سلسلوں نےہمیشہ زمین کی ہیٔت میں تبدیلیوں کو جگہ دی اور گزرتے وقت اور زمین کے بدلتے نقشوں کے ساتھ آج زمین کا نقشہ ہمارے سامنے ہے۔
توقع ہے کہ وقت کے گزرنے کے ساتھ ہزاروں برسوں بعد زمین کا نقشہ بھی تبدیل ہو جائے گا، ویسے سائنس دانوں اور ماہرین کے مطابق یہ عمل جاری و ساری ہے مگر ہم محسوس نہیں کر سکے۔ سائنس داں ہماری زمین جیسا کوئی اور سیارہ تلاش کرنے کی جستجو میں ہیں، مگر کائنات کی بے کراں وسعتوں میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے ، تاہم حال ہی میں سائنس دانوں نے انکشاف کیا ہے۔ ہماری کہکشاں سے دور دوسری کہکشاں میں زمین سے ملتا جلتا سیارہ دیکھا گیا ہے جو ہم سے ہزاروں نوری سال دور ہے۔معروف سائنس داں اسٹفین ہاکن نے خاص طور کہاتھا کہ انسان کو دوسرے سیارے پر جا کر آباد ہونے کے بارے میں نہیں سوچنا چاہیے کیونکہ انسان اس زمین کا حصہ ہے اور یہاں پیدا ہوا اگر کسی اور جگہ جا کر آباد ہونے کا سوچتا ہے تو وہاں پنپ نہیں سکتا۔ یہ بات ایک عظیم سائنس داں نے ہمیں خبردار کرنے کے لئے کہہ دی، مگر مسئلہ تو یہ درپیش ہے کہ ہم اپنی زمین، اس پر موجود تمام حیاتیات، نباتیات اور حیوانات کی بقا کے لئے کیا کرسکتے ہیں۔
ایک طرف گلوبل وارمنگ، گلوبل کولنگ زبردست خطرہ بن کر ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے، دوسری طرف ہماری آبادی، ہماری ضروریات، خواہشات، طمع، حرص بڑھتی جارہی ہے۔ ہم یہ جانتے ہوئے بھی کہ درخت قدرت کا عظیم تحفہ ہیں جو ہمیں آکسیجن فراہم کرتے ہیں مگر انہیں کاٹ کر پیسہ کما رہے ہیں، جنگلات تباہ کررہے ہیں۔ صنعتی کارخانوں کا زہریلا فضلہ سمندروں میں بہا رہے ہیں اور سمندری حیاتیات کو تباہ کررہے ہیں۔ قدرتی کوئلہ، تیل، گیس اور دیگر معدنیات نکال نکال کر زمین کو کھوکھلا کررہے ہیں۔ قدرتی کوئلہ گیس کے بے تحاشہ استعمال سے آلودگی میں زبردست اضافہ کررہے ہیں۔
سچ یہ ہے کہ ہماری زمین، نظام شمسی اور دیگر ہزاروں کہکشائیں ایک قانون، ایک اصول اور طریقہ کار پہ عمل پیرا ہیں۔ اس طرح ہماری زمین پر چھپی ہوئی ہر قدرتی چیز ایک دوسرے کے ساتھ اپنا وجود رکھتی ہیں۔ اگر ہم اس قدرتی طریقہ کار میں مداخلت کریں، اصولوں کی خلاف ورزی کریں اور قانون فطرت کو اپنے ہاتھ میں لے کر اس سے کھلواڑ کریں تو ظاہر ہے اس کے بھیانک نتائج سامنے آئیں گےجوبتدریج آہستہ آہستہ سامنے آرہے ہیں اور ہماری زندگی خدشات سے گزر کر خطرات کے دائروں میں سمٹتی جارہی ہے۔ ہم نے قدرتی اصولوں سے کھلواڑ تو بہت پہلے شروع کر رکھا تھا مگر گزری صدی سے کچھ پہلے ہماری صنعتی ترقی نے ہمیں فطری قوانین کو رد کرنے پر مائل کیا۔ اس ضمن میں قدرتی معدنیات اور دیگر قدرتی ذرائع کے بے تحاشہ استعمال نے قدرتی قوانین کو متاثر کیا اور قدرتی ماحول پر اس کے منفی اثرات غالب آئے، اس کا نتیجہ سامنے ہے۔
انسان ترقی کی معراج تک جانا چاہتا ہے مگر ضروریات، خواہشات اور احتیاجات کے تعاقب میں بھاگتے بھاگتے اجارہ دار، منافع خوروں کے چنگل میں پھنس چکا ہے۔ اجارہ دار منافع خور دنیا کے غریب ممالک کے قدرتی وسائل کا بری طرح استعمال کرکے غریب ملکوں کے غریب عوام کو مزید مصائب و آلام اور غربت اور پسماندگی کی دلدل میں دھکیل رہے ہیں۔
اجارہ دار منافع خور اپنے کارخانوں کو ’’ماحول‘‘ دوست اس لئے نہیں بناتے کہ اس پر الگ پیسہ خرچ ہوگا اور ان کا منافع گھٹ جائے گا۔ اپنے منافع کو بچانے کے لئے وہ نہ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگا کر اپنے استعمال شدہ پانی کو کیمیکل اور دیگر مضر اشیاء سے پاک صاف کرتے ہیں وہ پانی سیدھے سیدھے کھیتوں، نالوں، دریائوں اور سمندر میں بہا دیتے ہیں۔ اسی طرح کارخانوں سے کثیف دھوئیں کے بادل نکلتے ہیں، اس دھوئیں کو بھی صاف کرنے، کم کرنے کے طریقہ کار اور آلات موجود ہیں ،مگر وہی بات کہ خرچہ کون کرے، دھواں فضا میں بکھر کر غائب ہوجائے گا۔
اس طرح ماحولیات کے بگاڑ میں بڑا حصہ کارخانوں، پبلک ٹرانسپورٹ، نجی گاڑیوں، بجلی اور تیل سے چلنے والے آلات اور مشین کا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آبادی میں بے ہنگم اضافہ کی وجہ سے ضروریات زندگی کے لوازمات میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ مزید برآں دیہی علاقوں میں قدرتی آفات، زرعی پیداوار میں کمی، پانی کی قلت اور بے روزگاری میں اضافہ کے سبب دیہی آبادی کا شہروں کی طرف رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ شہروں میں انسانوں کا اژدھام کندھے سے کندھا ملاکرچل رہا ہے۔ اس صورت حال کی وجہ سے شہریوں میں طرح طرح کی نفسیاتی الجھنیں جنم لے رہی ہیں۔ وبائی امراض پھوٹ رہے ہیں، کہیں پانی بھرنے پر جھگڑا، کہیں کوڑا کرکٹ پھینکنے پر جھگڑا، گلی کوچوں، ذیلی سڑکوں پر کوڑے کے ڈھیر، ٹوٹی سڑکیں، ٹھہرا ہوا گندا پانی، مچھروں اور مکھیوں کی پناہ گاہیں ہیں۔دنیا کے تمام انسانوں کو نہ صرف اس کرہ ارض کے بچائو کی جدوجہد کرنی ہے بلکہ تمام پسماندہ معاشروں میں پھیلے طرح طرح کے تعصبات، جبر ، استحصال ، ناانصافی اور طبقاتی تفریق کے خلاف بھی آواز اٹھانا ہے۔
بڑی عالمی طاقتیں اپنے مفادات کے حصول کے لئے لگتا ہے کسی بھی حد سے گزرنے کو ہمہ وقت تیار بیٹھی ہیں۔ جوہری ہتھیار، مضر کیمیکل ہتھیار اور طرح طرح راکٹ مزائل، ان تمام خطرات میں الجھی انسانیت کا مستقبل مخدوش نظر آتا ہے۔ تمام انسان دوست اور ماحول دوست، رہنما، دانشور، صحافی، مصنف، شاعر اور فن کار اس گومگو کی صورت حال میں اپنی کوشش کررہے ہیں، مگر طاغوتی طاقتوں کے سامنے یہ محض مٹھی بھر لوگ ہیں، پھر ان کو بھی آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے، مگر ایسے ہی لوگ انسانیت کی رہبری کرتے ہیں۔ اس ضمن میں عوام دوست اور ماحول دوست حلقوں کی رائے ہے کہ اقوام متحدہ ایک واحد عالمی فورم ہے جہاں آواز بلند کی جاسکتی ہے، ہر چند کہ وہاں بڑی طاقتوں کی اجارہ داری قائم ہے۔
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)