کرہ ٔارض اورموسمیاتی تبدیلیاں! قسط۔(۲) ماحولیات

ظفر محی الدین

ماہرین کا کہنا ہے کہ بیش تر علاقوں کے باشندوں کی سوچ یہی ہے کہ آبادی میں اضافہ قدرت کا عطا کردہ ہے۔ ان علاقوں میں افریقہ، جنوبی ایشیا اور مشرقی بعید کے بعض ممالک کی نشاندہی کی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا کے قدرتی وسائل سے زیادہ آبادی اپنی بقا کس طرح یقینی بناسکتی ہے، جبکہ خوراک میں کمی، پینے کے صاف پانی میں کمی اور زندگی کی دیگر ضروری لوازمات میں کمی ہوئی۔ بعض علاقوں کے راسخ عقیدہ باشندے سائنسی سوچ اور علمی منطبق کو تسلیم نہیں کرتے۔نیز بڑا مسئلہ قدرتی ایندھن کے استعمال میں اضافہ ہے۔ مثلاً قدرتی کوئلہ کا استعمال، جس سے زمین اور فضائی آلودگی میں تیزی سے اضافہ عمل میں آرہا ہے۔ چین نے دریافت شدہ قدرتی کوئلہ استعمال کرلیا اور اب نئی کھدائیاں ہورہی ہے۔دنیا میں کاروں کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے۔ ہر سال ہزاروں کاریں سڑکوں پر آجاتی ہیں۔ اس رجحان سے فضائی آلودگی بڑھتی جارہی ہے۔ دل کے امراض، امراض چشم اور سانس کی بیماریاں عام ہورتی جارہی ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں سڑکوں پر دھواں چھوڑتی گاڑیوں کا قبضہ ہے۔ امراض قلب اور امراض چشم کے مریض بڑھتے جارہے ہیں۔ نہ ہوا صاف نہ پانی صاف ہے۔ اس کے علاوہ ہماری خوراک بھی آلودہ ہے جیسے سبزیاں جو ہم استعمال کرتے ہیں وہ زہریلی دوائوں اور کھاد کی پیداور ہیں۔ کیونکہ کاشتکار پیداوار میں اضافہ کے لئے جو کیمیاوی کھاد استعمال کرتا ہے وہ صحت کے لئے انتہائی مضر ہے۔ مگر اس ضمن میں سرکاری اور سماجی ادارے کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔دنیا ،قدرتی اور انسان کے اپنے پیدا کردہ عمل کی وجہ سے مختلف خطرات میں گھری ہوئی ہے، ان میں ایک زبردست خطرہ جوہری ہتھیاروں کے پھیلائو کا ہے۔ مثلاً دنیا اس وقت 9 ممالک ایٹمی ہتھیار رکھتے ہیں جیسے روس، امریکہ، برطانیہ، فرانس، چین، بھارت، پاکستان، شمالی کوریا اور اسرائیل۔ سب سے زیادہ ایٹمی ہتھیار روس اور امریکہ کے پاس ہیں۔ اسی طرح ایٹمی ہتھیاروں کی مجموعی تعداد تیرہ ہزار کے لگ بھگ ہیں۔ ان کےاستعمال سے تو اندازہ نہیںلگایاجاسکتا کہ کیا ہوسکتا ہے۔
ماہرین اور مبصرین کہتے ہیں 1991 میں جب سویت یونین منتشر ہوا ،اس وقت وہاں کوئی موثر حکومت نہ تھی لوٹ مار کا بازار گرم تھا۔ دنیا کے اکثر بڑے ہتھیار فروشوں نے وہاں سے بیش تر جوہری ہتھیار اسمگل کرلئے بعض باخبر حلقوں کا دعوی ہے کہ ماسکو سے بذریعہ ٹرین میزائل بھی اسمگل کرکے جرمنی، ہالینڈ اور امریکہ تک اسمگل کئے اس حوالے سے دنیا کو درست اندازہ نہیں کہ بڑے جرائم پیشہ گروہ اور بڑے ہتھیار فروشوں نے یہ روسی ایٹمی ہتھیار اور روایتی ہتھیار کہاں کہاں پھیلا دیئے اور کس کس گروہ کے قبضے میں ہیں۔ تاحال دنیا اس اہم مسئلے پر کچھ کہنے اور کرنے سے قاصر ہے۔یہ بڑا سانحہ ہے اور ایک ان دیکھا خطرہ دنیا پر منڈلا رہا ہے جس کے حوالے سے کوئی درست اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔اس کے ساتھ مختلف ممالک کے آپس کے تنازعات بھی انسانیت کی سلامتی کے لئے بڑا خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں مثلاً چین اور امریکہ کے مابین تائیوان کے مسئلے پر سیاسی گرما گرمی چل رہی ہے۔ امریکہ اور چین بڑے ملک اور بڑی طاقتیں ہیں وہ یقیناً روداری کا ثبوت دیں گے اور امید ہے جاری تنائو کو کم سے کم کرلیں گے۔ گزشتہ دنوں نیروبی میں ہونے والی ماحولیات کی کانفرنس میں انکشاف کیا گیا کہ افریقہ میں ہاتھیوں کی تعداد میں چالیس فیصد کمی ہوچکی ہے۔ ماحول، گلوبل وارمنگ کے اثرات حیوانات پر زیادہ پڑے ہیں۔ہاتھیوں سمیت دیگر جانور بھی شدید متاثر ہورہے ہیں۔ کینیا کی حکومت نے حیوانات کے شکار بالخصوص ہاتھیوں کے شکار پر مکمل پابندی لگادی ہے۔ دنیا کے ماہرین حیوانات نے اقوام متحدہ سے اپیل کی ہے کہ افریقہ سمیت دیگر ممالک میں جانوروں کے شکار پر پابندیاں عائد کروائے۔ بیش تر جانوروں کی نسلیں ختم ہورہی ہیں۔ گلاسکو کانفرنس اور نیروبی کانفرنس میں ہاتھیوں کی اموات پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا اور دنیا کے سربراہوں نے اس نوعیت کے مسائل کا فوری سدباب کرنے کا اعادہ کیا۔
منیزان کانفرنس میں ایمززون اور آسڑیلیا کے جنگلات لگنے والی آگ پر بھی تشویش ظاہر کی۔ ایمزون کے جنگلات کی کٹائی پر پہلے ہی سے پابندی عائد کردی گئی ہے مگر لکڑی فروش اور ان جنگلات میں واقع گائوں کے باشندوں نے لکڑی کاٹ کر فروخت کرنے کو اپنی روزی کمانے کا دھندا بنالیا ہے۔ اس حوالے سے برازیل کی حکومت مزید سخت قوانین وضع کررہی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے ماحولیات نے ایمزون کے جنگلات کی کٹائی اور چوری چکاری پر گہری تشویش ظاہر کی ہے اور برازیل اور اس کے اطراف ممالک کو جنگلات کی حفاظت کی تاکید کی ہے۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ مہم شروع کی ہے کہ ممالک ماحول دوست معاشروں کی تشکیل کے لئے اپنے اپنے محکموں میں شجرکاری کی مہم شروع کریں۔جس سے سبزہ میں اضافہ ہوگا، ہوا صاف میسر آئے گی، بینائی کے لئے سبزہ دیکھنا بے حد مفید ہے۔ اس حوالے سے اسکولوں کے نصاب میں بچوں کو آگہی دینے کے سلسلے میں ماحولیات اور شجرکاری کی اہمیت نصاب میں شامل کی جائے تو زیادہ مناسب ہوسکتا ہے۔ بچوں کو یوں بھی پودے لگانے کا شوق ہوتا ہے اگر ان کے شوق میں ان کی مدد کی جائے حوصلہ افرائی کی جائے تو ملک میں ماحولیات کے حوالے سے مثبت تبدیلی آسکتی ہے۔
سائنس دانوں کے انتباہ کو نظر انداز کیے جانے کی وجہ سے اب موسمیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات کی روک تھام کا وقت گزر گیا ہے۔ برطانیہ میں ریکارڈ درجہ حرارت اور مشرقی لندن میں آتش زدگی سے 16 گھر تباہ ہونے سے تیزی سے بدلتے موسم کا پتا چلتا ہے۔ آنے والے برسوں میں موسم نئے ریکارڈ قائم کرتا رہے گا۔ ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ 2022ء میں دنیا پہلے سے کافی زیادہ تبدیل ہوچکی ہے اور بہت جلد یہ ہم سب کے لیے ناقابل شناخت ہوجائے گی۔ سنگین موسمیاتی تبدیلیوں سے بچنا اب ممکن نہیں۔ بیش تر سائنس دانوں کا خیال ہے کہ، زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی لا کر تباہ کن اثرات کی روک تھام ہوسکتی ہے۔ لیکن کچھ سائنس دانوں کا یہ کہنا ہے کہ زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے ’’ہاٹ ہائوس ورلڈ‘‘ کو اپنانے کی ضرورت ہے اور ایسے حالات کو روکنے کی کوشش کرنی چاہیے جو معاملتے کو مزید تباہ کن بنا سکتے ہیں۔
عالمی تھنک ٹینک ’’جرمن واچ‘‘ نے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران شدید نوعیت کے موسمی حالات اور قدرتی آفات کا جائزہ لیتے ہوئے کہا ہے کہ، اس مدت کے دوران عالمی معیشت کو 2.58کھرب ڈالرز کا نقصان پہنچا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے جن ممالک کے زیادہ متاثر ہونے کا خطرہ ہے، ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔ جرمن واچ کے انڈیکس میں پاکستان کو فہرست میں آٹھویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔اس کے باوجود حکومت اور عوام دونوں ہی اس کو اہمیت نہیں دے رہے۔ اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ پہلے خشک سالی کا عذاب تھا، اب معمول سے زیادہ بارشوں کی وجہ سے سیلابی کیفیت ہے۔ بہت سے گھر سیلاب کی نذر ہوگئے۔ سطح سمندر میں اضافے سے بھی آبادی کو شدید خطرات لاحق ہیں، جب کہ سمندری طوفان بھی اس تبدیلی کا پیش خیمہ ہیں۔گزشتہ دو دہائیوں میں ٹراپیوکل سائیکلون بننے میں تیزی آگئی ہے۔ سب سے بڑا خطرہ شدید گرمی یا ہیٹ ویو ہے۔
قطب شمالی اورقطب جنوبی کی صورت حال:
امریکی کینیڈین سائنس دانوں کی ٹیموں نے حال ہی میں قطب شمالی کا دورہ کیا اور انہوں نے اپنی جائزہ رپورٹ میں یہ انکشاف کیا کہ قطب شمالی کے عظیم گلیشیئرز پر صدیوں سے جمی برف پگھل کر سمندر میں بہہ گئے ہیں۔وہاں اب چٹیل پہاڑ نظر آرہے ہیں۔ گلیشیئرز نوارد ہیں۔ سابق امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے خاص طیارے پوپ شمالی قطب کے علاقے کا دورہ کرایا تھا اور پوپ وہاں کی صورت دیکھ کر دنگ رہ گئے تھے۔ تب سابق صدر باراک اوباما نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ گلوبل وارمنگ میں کمی نہ ہوسکی تو بہت جلد اس خطے کے گلیشیئر پگھل جائیں گے اور اب یہ عمل تیزی سے جاری ہے اور گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں۔قطب جنوبی کا ایک بڑا برفانی حصہ ٹوٹ کر بہت آہستہ آہستہ سمندر میں تیر رہا ہے۔ ایک بڑے حصے میں ایک درجن ممالک کے تحقیقاتی کیمپ بنے ہوئے ہیں جس میں امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس، چین، بھارت وغیرہ شامل ہیں۔ اس کی حالت زار بھی مخدوش ہوتی جارہی ہے۔ سائنس دانوں اور ماہرین کو قطب شمالی اور قطب جنوبی کے سلسلے میں بے حد تشویش ہے۔ گزشتہ سال وہاں برفانی طوفانوں کے سلسلہ میں اضافہ نوٹ کیا یگا۔ مگر گلوبل وارمنگ کے مہیب اثرات تیزی سے نمایاں ہو رہے ہیں۔