! کرہ ٔارض اورموسمیاتی تبدیلیاں عالمی ماہرین کیا کہتے ہیں؟

ظفر محی الدین

گلوبل وارمنگ اور موسمی تغیرات نے کرہ ارض کے ہر گوشہ کو شدید طور پر متاثر کیا ہے۔ 1972 سے سائنس داں زمین کی صحت موسموں میں تبدیلی کے اثرات کا جائزہ لیتے رہے ان سب کا دعویٰ ہے کہ گزرے تیس برسوں میں زمین پر بڑی تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں بہتر کی دہائی ہی سے درجہ حرارت میں اضافہ ہوا، کہیں بارش، کہیں برفتاری میں اضافہ، کہیں سیلابوں کے سلسلے تو کہیں خشک سالی وغیرہ سائنس داں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ قدرتی کوئلہ، تیل، گیس کے استعمال میں بتدریج اضافہ اور مشکلات کا ذمہ دار ہے ،اس وجہ سے قدرتی ماحول شدید متاثر ہورہا ہے۔

ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ امریکہ نے تین سو ستر ارب ڈالر ماحول میں سدھار کے لیے مختص کرنے کا اعلان کیا ہے۔ دوسرے یہ کہ عام طور پر قدرتی ماحول اور موسمی تغیرات کے حوالے سے لوگوں میں آگہی پیدا ہورہی ہے۔ مگر موسمی تغیرات نے سب کو پریشان کردیا ہے۔ مصائب میں اضافہ ہورہا ہے۔ برطانیہ سمیت یورپ کے دیگر ممالک میں گرمی کی شدت محسوس کی جاتی رہی ہے۔ گزشتہ دسمبر کے بعد یورپ میں شدید برفباری ہوئی جبکہ جون سے گرمی کی شدت بڑھ رہی ہے۔ برطانیہ میں خشک سالی میں ہر سال اضافہ ہورہا ہے۔ بارشوں میں کمی ہوتی جارہی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ برطانیہ میں اس سال درجہ حرارت 38 ڈگری سے تجاویز کرگیا اور معمولات زندگی درہم برہم ہوکر رہ گئے۔دوسری طرف جنوبی ایشیا میں خاص طور پر بھارت اور پاکستان میں زبردست بارشوں سے شدید نقصانات برداشت کرنے پڑ رہے ہیں شمالی ہند اور بلوچستان میں سیلابی ریلوں نے کھڑی فصلوں، گھروں اور پلوں کو زبردست نقصان پہنچائے بلوچستان میں پلوں کے ٹوٹنے سڑکوں کے بہہ جانے سے صوبہ کا باقی ملک سے رابطہ منقطع ہوگیا۔ ہزاروں مویشی، سیلابی ریلوں میں بہہ گئے۔ خصوصاً مہاراشڑا اور گجرات میں زیادہ نقصان ہوئے یہ سب موسمی تبدیلی اور زمینی حرارت میں اضافے کا نتیجہ ہے۔

گزشتہ دنوں برطانیہ کے شہر گلاسکو میں عالمی رہنمائوں کی کانفرنس جس کا ایک نکاتی ایجنڈا ’’موسمی تغیرات‘‘ تھا ماہرین ماحولیات نے بہت کھل کر کہا کہ اگر اب بھی عالمی رہنمائوں کو ہوش نہ آیا تو کب آئے گا۔ زمین تین برس قبل جیسی نہیں رہی بہت کچھ تبدیل ہوچکا ہے۔ کانفرنس میں شریک تمام سائنس دان اور ماہرین اس پر متفق تھے کہ تبدیلی کا عمل تیز ہوتا جارہا ہے اس کو روکنا یا کم از کم 1960 کی سطح تک لانا ہوگا۔مگر وجہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر بڑے صنعت کار سرمایہ دار ادارے اس مفروضہ کو تسلیم کرنے کے تیار ہی نہیں ہیں کہ موسمی تغیرات گلوبل وارمنگ یہ سب سلسلے صدیوں سے جاری ہیں کبھی موسم شدت اختیار کرتے ہیں کبھی اعتدال پر رہتے ہیں۔اس مخالف لابی کا جو بہت بااثر طبقہ ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ سب سائنس دانوں کے شوشے ہیں جو آئے دن کوئی نہ کوئی نئی تھیوری گھڑتے رہتے ہیں۔

مذکورہ لابی کے بیانات کے خلاف گزشتہ دنوں اور حال میں نوجوانوں اور عوام نے زبردست مظاہرے کئے ،پیرس، فرینکفرٹ، روم اور ایتنھز میں بڑے مظاہرے ہوئے۔ خصوصاً نوجوان اس ضمن میں زیادہ سرگرم ہیں۔ یہ بالکل سچ اور عیاں حقیقت ہے کہ انسان نے اپنی آسائش کے لیے جو بھی چیزیں ایجاد کیں وہ سب درد سر بنتی جارہی ہیں۔ بیش تر یورپی شہریوں نے سائنس دانوں کی پیش گوئیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کاروں کے بجائے پبلک ٹرانسپورٹ اور سائیکلوں کو ترجیح دے رہے ہیں۔

درحقیقت دنیا کا سب سے بڑا اور اہم ترین مسئلہ آبادی میں بے ترتیب اضافہ ہے۔ چین نے آبادی میں اضافہ کی روک تھام کے لیے ایک بچہ اسکیم شروع کی ہے۔ بھارت تاحال اپنی آبادی پر کنٹرول کرنے میں ناکام نظر آتا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ کچھ ہی عرصہ میں بھارت آبادی میں چین سے آگے ہوگا۔

یہ حقیقت ہے کہ ایک طرف آبادی میں بے ہنگم اضافہ ہورہا ہے تو دوسری جانب قدرتی وسائل اور خوراک میں کمی بڑے مہیب مسائل بن رہے ہیں۔ آلودگی میں بتدریج اضافہ سے نت نئے وبائی امراض پھیل رہے ہیں دنیا تاحال کرونا وائرس پر مکمل قابو حاصل کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔ ایک اور بڑا مسئلہ خوراک ہیں، پینے کے صاف پانی میں کمی ہے۔ جاری حالات میں افریقہ کا خطہ خوراک کی کمی کا شدید طور پر شکار ہے۔ سب صحرا کا خطہ جو زیادہ تر خشک سالی کا شکار رہا ہے وہاں خوراک کا مسئلہ سب سے زیادہ ہے۔
اقوام متحدہ کاعالمی ادارہ خوراک نے کوشش تیز کردی ہیں تاکہ اس مسئلے کو فوری حل کیا جائے مگر عالمی سطح پر خوراک کا مسئلہ گھمبیر ہوتا جارہا ہے۔ ایک طرف یوکرین جو دنیا میں گندم سمیت دیگر اناج فراہم کرنے والا اہم ملک تھا وہاں سے اناج کی فراہمی بند ہے کیوں کہ بری اور بحری سرحدیں روس نے بلاک کی ہوئی ہیں دوسرے روس اناج کی فراہمی کرنے والا اہم ملک ہے مگر پابندیوں کی وجہ سے روس بھی گندم کی فراہمی یا ایکسپورٹ میں دشواریاں محسوس کررہا ہے جس سے گندم کی کمی ہورہی ہے خوراک کا مسئلہ اور بھی نازک ہورہا ہے۔
افریقی ممالک بالخصوص صحارا کے خطے میں وبائی امراض جو پینے کے صاف پانی کی کمی اور خوراک میں کمی کی وجہ سے ہر سال ہزاروں بچے ہلاک ہورہے ہیں۔ افریقہ اوردیگر ممالک بھی ان مسائل کا شکار ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ کچھ متاثرہ ممالک میں زیادہ تر ممالک مسلم ہیں۔ اسلامی تنظیم کے رکن ہیں مگر سونے کے محل بنانے والے عرب حکمران ان مسائل سے بے بہرہ ہیں۔ مسلمانوں کی عالمی تنظیم او آئی سی کی اس جانب توجہ دلائی جاچکی مگر تاحال کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ تاہم عالمی ادارہ خوراک اس نازک مسئلے کو حل کرنے کے لئےکوشش کررہی ہے۔
معروف سائنس دان اور دانشور اسٹیفن ہاکس نے اپنی آخری وصیت میں انسانوں کو خبردار کیا کہ ’’تم سب زمین کی پیداوار ہو، زمین پر زمین کے قدرتی ماحول میں ہی تمہاری سلامتی ہے۔ انسان کسی سیارے پر زندہ نہیں رہ سکتا وہ خلائی مخلوق کی تلاش بند کردے اگر ایسی کوئی مخلوق ہے اور اس کا انسان سے رابطہ ہوتا ہے تو وہ انسانوں کو ختم کردیگی‘‘۔
یہ بالکل سچ ہے اس میں پہلے روس اور امریکہ کی دوڑ لگی تھی اب امریکہ اور چین فتح کرنے کی دوڑ میں لگے ہیں۔ گزشتہ ماہ چین کے خلائی راکٹ کا پورا ملبہ زمین پر گرا یہ بہت بڑا خطرہ ہے۔ چین نے اس خبر کی تردید کی ہے اور اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ ملبہ صرف راکھ تھی جس سے زمین کو یا انسانوں کو کوئی خطرہ نہیں تھا، مگر حقیقت یہ کہ زمین سے زیادہ زمین کے گرد چکر لگانے اور خلاء میں تحقیق کرنے والے سیاروں کا ایک ہجوم دنیا پر منڈلا رہا ہے سائنس دان اس کو دنیا کی سلامتی کے لئے ایک بڑا خطرہ بتلاتے ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ چین نے خلائی تحقیق اور چاند کو مسخر کرنے کے لئے بہت بڑی رقم مختص کردی اور روسی خلائی ماہرین چین کی ہر طرح اعانت کررہے ہیں اگر یہ سلسلہ مزید تیز ہوگیا تو ماہرین کا خیال ہے کہ کوئی بڑا سانحہ رونما ہوسکتا ہے اور انسانیت کو بڑا نقصان برداشت کرنا پڑسکتا ہے۔ لیکن زمین پر جو کچھ ہورہا ہے ان خطرات کا تدارک زیادہ ضروری ہے۔ مثلاً آبادی میں بے ہنگم اضافہ، ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا کی آبادی میں سالانہ آٹھ کروڑکے لگ بھگ اضافہ عمل میں آرہا ہے اگر آبادی میں اضافہ کی رفتار یہی رہی اور کوئی سدباب نہ کیا گیا تو اس صدی کے آخر میں دنیا کی آبادی سولہ کروڑ تک بڑھ سکتی ہے جو کرہ ارض اور انسانوں کے لیے بہت بڑا خطرہ ہوسکتی ہے۔(جاری)