شبیر احمد بٹ
کھیلوں کی اہمیت سے آج بھی کسی کو انکار نہیں ہوسکتا ۔ کرکٹ کا کھیل بھی اکثر ممالک میں سر چڑھ کے بولتا ہے ۔ہمارے یہاں تو کرکٹ کا جنون مجنوں کے جنون سے بھی دو قدم آگے ہے ۔ ایک زمانہ تھا جب کرکٹ پانچ دن کھیلا جاتا تھا اور آخر پر اکثر کہا جاتا تھا کہ نہ کسی نے جیتا اور نہ ہارا ۔ پھر پچاس اوورز کرکٹ یعنی وائٹ بال کرکٹ اور اس کے بعد ٹی ۔ٹونٹی کرکٹ میچز نے تو طوالت کا مسئلہ ہی ختم کردیا۔ مان لیجئے! داستان ،ناول اور افسانہ جہاں فکشن کے تین پڑاو ہیں ،وہیں ٹیسٹ کرکٹ ،ون ڈے اور ٹی ۔ٹونٹی کرکٹ کے تین پڑاؤ ہیں ۔
پہلے سارے کھلاڑی ایک ہی (وائٹ )یونیفارم میں ہوتے تھے ،جہاں رنگ، نسل ،ذات پات اور مذہب کا بھید بھاو نہیں ہوتا تھا، پھر الگ الگ وردی آگئی اور یہ کھیل بھی بہت ساری چیزوں کا شکار ہو گیا ، یہ فیشن بھی بنتا گیا اور راشن سے بھی جڑتا گیا ۔
پہلے ہر کھلاڑی کو گیارہ رکنی ٹیم میں کھلاڑی کی حیثیت ہوا کرتی تھی اب ہر کھلاڑی کی پہچان گریڈ کے تناظر میں بھی ہوتی ہے ۔اے گریڈ ۔بی ۔سی ۔ڈی ، غرض پہلے کھلاڑی خریدنے اور بیچنے کی شے نہیں ہوا کرتے تھے مگر اب ان کی نیلامی ہوتی ہے اور باضابطہ طور پر ان کا سودا ہوتا ہے ۔ اس کھیل میں پھر وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ جواری اور سٹہ بازی کا بازار گرم ہونے لگا ۔آن لائن جوا بھی اس میں آگیا ۔اتنا ہی نہیں بلکہ اس میں نئے نئے قواعد و ضوابط بھی آتے گئے ۔پہلے امپائر ہوا کرتے تھے اور پھر امپائر کا بھی امپائر آیا ۔ رپلے اور دیگر جدید تیکنیک نے تو امپائر کو محض امپائر کال تک کا ہی با اختیار رکھا ۔ پہلے کرکٹ میں شاید موسم ۔ میدان اور ٹاس اتنی اہمیت نہیں رکھتا تھا اب تو مزاج کے مطابق پچ تیار کئے جاتے ہیں ۔موسم کو دیکھ کر ٹاس کا فیصلہ ہوتا ہے ۔ ٹاس کس نے جیتا اس کا اعلان وہاں پر کھڑا میچ ریفری اور ایک دو بندے ہی کرتے ہیں سائینس کی ترقی کے باوجود اس Coin کو کیمرہ کی آنکھ سے جب دور رکھا جاتا ہے تو شک و شبہات جنم لیتے ہیں ۔سچ پوچھو تو اس کھیل میں شک و شبہات کچھ زیادہ ہی نمایاں ہونے لگے ۔ اس کھیل میں بہت تیزی آگئی ۔پہلے ساٹھ اورز یا پچاس اورز میں 250 کا اسکور پہاڑ جیسا ہوتا تھا اور اب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت کچھ بدلا ،اس لئے کسی نے خوب کہا ہے کہ اب کرکٹ محض کھیل ہی نہیں سائینس بن چکا ہے ۔
پہلے بیٹ اور بال کا کھیل ہوتا تھا ۔اب کوچنگ اسٹاف اس کھیل کا اہم حصہ بن چکا ہے ۔بیٹنگ ،بولنگ اور فیلڈنگ کوچ کے ساتھ ہیڈ کوچ اور فیزیو وغیرہ ۔ان لوگوں پر کثیر رقم خرچ ہوتی ہے ۔ ایشیائی ممالک کی بات کریں تو کرکٹ اور کرکٹ سے جڑے لوگ الگ ہی سوچ اور فکر رکھتے ہیں ۔ جب اتنا بدلاو آگیا تو پھر نیت کا بدلنا بھی طےتھا ،اس لئے کھیل کے تئیں نیت بھی بدلنے لگے ۔ ہمارے یہاں کرکٹ مشغلہ ہوا کرتا تھا اور انگریزوں کے وہاں مشن ۔ اب نہ یہ مشن رہا اور نہ مشغلہ ۔ بلکہ ایک انڈسٹری بن گئی جہاں ہر طرف نفع اور گھاٹے کا سودا دیکھا جاتا ہے ۔
سائینس نے انسان کی زندگی بدل ڈالی اور انسان نے کھیل اور کرکٹ کی دنیا بھی بدل دی ۔البتہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سپر پاور کہلانے والے کئی ملکوں میں کرکٹ ابھی بھی نہیں کھیلی جاتی ۔ کیوں نہیں کھیلی جاتی؟ یہ دوسرا موضوع ہے ۔ میں بتاتا جاؤں کہ کرکٹ کا نام لیتے ہی مردوں کے ایک کھیل کی تصویر ذہن میں آجاتی تھی۔ ایک میدان ہوتا تھا جہاں دو ٹیموں کے بائیس مرد کھلاڑی گیم جیتنے کی سر توڑ محنت اور کوشش کرتے تھے، پھر زمانے کی ترقی اور برابری کے حقوق کا لحاظ کرتے ہوئے اب یہ جنسی طور پر بھی کسی خاص طبقے تک محدود نہیں رہا ۔اس میں اب عورتیں بھی اپنی پیس (Pace )اور کٹ شارٹ کے کرتب دکھا رہی ہیں ۔اگر ترقی اور بدلاو کی یہی رفتار رہی تو کہیں وہ یہ مانگ بھی نہ کر بیٹھے کہ برابری کے حقوق کے حساب سے گیارہ میں سے پانچ کی سلیکشن ان کے طبقے سے ہونی چاہیے ۔
اب یہ مرد عورت کے میدان تک ہی محدود نہیں رہا، اس میں سیاست نے بھی اپنا الگ میدان بنالیا۔ اب کھیل میں سفارشات اور سیاست کا بھی اپنا ایک اہم کردار ہے ۔جب تک یہ کھیل تک ہی محدود ہوا کرتا تھا، تب اس میں ہر چیز کی سلیکشن میرٹ کے حساب سے ہوا کرتی تھی ۔آج بھی میرٹ دیکھا جاتا ہے مگر جہاں حکمران ہی منتخب شدہ نہ ہوں وہاں کھلاڑیوں اور دیگر اسٹاف نامزدہ ہوتے ہیں ۔ مگر یہ بھی ایک سچائی ہے کہ جہاںآج بھی کرکٹ کے میدان میں کھلاڑی اپنی جسمانی اور ذہنی پھرتی ، آپسی تعاون اور لیڈر شپ کے ساتھ ساتھ کھیل بھاوناؤں کا اظہار کرکے سچے اور اچھے کھلاڑی کا ثبوت پیش کرتے ہیں وہیں دوسری جانب کچھ کھلاڑی نہ صرف جسمانی اور ذہنی طور کمزور بلکہ ذہنی مریض ہونے کا بھی عملی ثبوت پیش کرتے ہیں ۔ کھیل نہ کوئی جنگ ہے اور نہ کوئی لڑائی ۔ جنگ اور لڑائی میں تباہی اور بربادی ہوتی ہے ۔ بے گناہ اور معصوم لوگوں کی جانیں جاتی ہیں ۔جنگ اور لڑائی میں جیت ہو یا شکست پر ہر نتیجہ درد ناک،کربناک اور تباہ کن ہوتا ہے جب کہ کھیل کے دو ہی نتیجے ہیں ہار اور جیت۔ اور یہ ہار جیت میدان کے اندر کی سیما رکشا تک ہی محدود ہونی چاہیے۔ اگر اسے یہاں سے نکال کر دیرو حرم تک کھینچا جائے ، اگر کھیل کے نام پر کھلواڑ ہو تو پھر اس کھیل کا کیا فائدہ ۔ اس کھیل سے تو اچھا پھر وہی گلی ڈنڈا ہے ۔ کھیل کے تئیں ہمارا رویہ بالغوں جیسا ہی ہونا چاہیے ۔بچے کھیل میں سنجیدگی برتتے ہیں ،پھر بچے جیسے جیسے سیانے ہوتے ہیں ،کھیل کے ضمن میں ان کا رویہ غیر سنجیدہ ہوتا ہے جو ذہنی بلوغت کی علامت ہے۔ ذہنی غلاظت کو کھیل کے پس منظر میں بیان یا ظاہر کرنا گندے لوگوں کی نشانی ہے اور گندے کھلاڑیوں کی پہچان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس لئے سنہ 1900 ء میں ہی کیوبرٹن نے کہا تھا …..”
Play the Game and Play it well”
رحمت کالونی شوپیان
موبائل :۔ 9622483080
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)