لندن، 17 جون (یو این آئی) کرکٹ کی تاریخ کے دو سب سے بڑے حریف ہندستان اور پاکستان اتوار کو جب آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے خطابی مقابلے کے لئے میدان میں اتریں گے تب نہ صرف دونوں ٹیموں کے درمیان وقار کی جنگ ہوگی بلکہ دونوں ممالک کے لوگوں کے درمیان جذبات کی سونامی اٹھے گی۔ چیمپئنز ٹرافی شروع ہونے کے وقت کسی نے بھی یہ تصور نہیں کیا تھا کہ ہندستان اور پاکستان فائنل میں آمنے سامنے ہوں گے ۔ دونوں ممالک کا گروپ میچ شروع ہونے سے کئی ماہ پہلے ہی ہاؤس فل ہو چکا تھا اور اب تو دونوں کے درمیان فائنل کی مہم جوئی سر چڑھ کر بولے گی۔ ہندستان ،چیمپئنز ٹرافی کا گزشتہ فاتح اور مسلسل دوسری بار فائنل میں پہنچا ہے ۔ پاکستان کی ٹیم اپنے پہلے میچ میں ہندستان سے شکست کا سامنا کرنے کے بعد حیرت انگیز کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فائنل میں پہنچی ہے ۔ پاکستان کا یہ پہلا فائنل ہے ۔ دونوں ٹیمیں آئی سی سی ٹورنامنٹوں کی تاریخ میں دوسری بار فائنل میں آمنے سامنے ہوں گی۔ اس سے پہلے دونوں کے درمیان 2007 کے ٹوئنٹی -20 ورلڈ کپ کے فائنل میں مقابلہ ہوا تھا جہاں ہندوستان نے خطابی جیت حاصل کی تھی۔ ہندستان اور پاکستان کے درمیان فائنل میں دونوں ممالک کے کروڑوں شائقین کی سانسیں تھمی رہیں گي اور ٹیم انڈیا کے کپتان وراٹ کوہلی اور پاکستانی کپتان سرفراز احمد پر دباؤ بنا رہے گا، جب تک میچ کا فیصلہ نہ ہو جائے ۔ دونوں ہی ٹیموں کے لئے یہ مقابلہ کرو یا مرو سے کم نہیں ہو گا کیونکہ کسی بھی ٹیم کو خطاب سے کچھ کم منظور نہیں ہو گا۔ ٹیم انڈیا بنگلہ دیش کو ایجبسٹن میں نو وکٹ سے شکست دے کر اور پاکستان میزبان انگلینڈ کو کارڈف میں آٹھ وکٹ سے شکست دے کر فائنل میں پہنچے ہیں۔ ہندستان اور پاکستان کے درمیان خطابی مقابلہ بین الاقوامی کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کے لئے کسی بلاک بسٹر سے کم نہیں ہوگا۔ دونوں ٹیموں کے درمیان گروپ مقابلے کو ٹی وی پر 20.1 کروڑ لوگوں نے دیکھا تھا جو بي اے آرسي کی تاریخ میں سب سے زیادہ ریٹڈ ایک روزہ میچ ہے اور فائنل میں یہ ریکارڈ ٹوٹ سکتا ہے ۔ ہندستان کو خطاب بچانے کی امیدیں اس کے تین ٹاپ بلے بازوں شکھر دھون، روہت شرما اور کپتان وراٹ پر ٹکی رہیں گی۔ آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے چیمپئن بلے باز شکھر نے اس ٹورنامنٹ میں 79.25 کے اوسط سے سب سے زیادہ 317 رن بنائے ہیں جبکہ روہت 101.33 کے اوسط سے 304 رن اور وراٹ 253.00 کی اوسط سے 253 رن بنا چکے ہیں۔ وراٹ چار اننگوں میں اب تک صرف ایک بار آؤٹ ہوئے ہیں۔ پاکستان کے لئے اظہر علی نے 169، فخر زمان نے 138، محمد حفیظ نے 91 اور بابر اعظم نے 87 رن بنائے ہیں۔ دونوں ٹیموں کے سلامی بلے بازی آرڈر کے درمیان کا فاصلہ ان اعداد و شمار سے واضح ہو جاتا ہے لیکن جب بات فائنل کی ہو تو فائنل دباؤ ہمیشہ بلے بازوں پر بھاری پڑتا ہے ۔ ایسے وقت میں جو دباؤ کو برداشت کرتا ہے وہی فاتح ثابت ہوتا ہے ۔ ہندستان کے ٹاپ آرڈر کی طرح پاکستان کی تیز گیند بازی کا شعبہ بھی زبردست ہے جس نے اپنے بل بوتے پر پاکستان کو فائنل میں پہنچایا ہے ۔ تیز گیند باز حسن علی 10 وکٹ لے چکے ہیں اور سب سے زیادہ وکٹ لینے والوں کی فہرست میں پہلے مقام پر ہیں۔ جنید خان نے سات وکٹ لئے ہیں اور یہ تیز گیند باز جوڑی فائنل میں بہت خطرناک ثابت ہو سکتی ہے ۔ پاکستان کو فائنل کے لئے امید ہے کہ فاسٹ بولر محمد عامر فٹ ہوکر اتریں گے ۔ اگرچہ رومان رئیس نے انگلینڈ کے خلاف 44 رن پر دو وکٹ لے کر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ ہندستانی گیند بازی کے شعبے پر نظر ڈالیں تو بھونیشور کمار اور جسپریت بمراہ کی بولنگ شاندار رہی ہے ۔ بھونیشور نے چھ اور بمراہ نے چار وکٹ لئے ہیں۔ لیفٹ آرم اسپنر رویندر جڈیجہ نے بھی چار وکٹ حاصل کئے ہیں۔ جڈیجہ کے ساتھ فائنل میں آف اسپنر روی چندرن اشون کا بھی اہم کردار رہے گا۔ کیدار جادھو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جنہوں نے بنگلہ دیش کے دو اہم وکٹ گراکر ہندستان کا کام آسان کیا تھا۔ آل راؤنڈر ہاردک پانڈیا بھی مفید ثابت ہوئے ہیں، لیکن انہیں گیندبازی میں بہتر کارکردگی پیش کرنا ہوگی۔ ٹاپ آرڈر میں شکھر، روہت اور وراٹ کی شاندار بلے بازی کی وجہ سے بعد کے بلے بازوں کو وکٹ پر آنے کا پورا موقع نہیں مل پایا ہے ۔ یوراج نے 53 رن اور سابق کپتان مہندر سنگھ دھونی نے 63 رن کی مفید اننگز کھیلی ہے اور موقع ملنے پر یہ دونوں ہی کھلاڑی میچ فاتح بن سکتے ہیں۔ پاکستانی کپتان سرفراز نے بھی سری لنکا کے خلاف ناقابل شکست 61 رنوں کی میچ فاتح اننگز کھیلی تھی۔ یہ مقابلہ ہندستانی کپتان وراٹ اور پاکستانی کپتان سرفراز کے درمیان حکمت عملیوں کا بھی دلچسپ مقابلہ ہوگا کہ دونوں میں سے کون ایک دوسرے کو شہ اور مات دے پائے ۔ ہندستان نے پاکستان سے پہلا میچ 124 رنوں کے بڑے فرق سے جیت لیا تھا، لیکن اسے پاکستان کے جوابی حملے سے محتاط رہنا ہوگا۔ چیمپئنز ٹرافی کے لیے اب تک دو ہی ممالک ہندستان اور آسٹریلیا نے دو دو بار جیتاہے ۔ ہندوستان کے پاس تیسری بار یہ ٹرافی جیت کر آسٹریلیا سے آگے نکلنے کا سنہری موقع ہے لیکن پاکستان بھی پہلی بار چیمپئن بننے کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑے گا۔