سوشل میڈیا پراِن دنوںایک فقرہ گردش کر رہا ہے کہ ’’اگر آپ اپنا روپیہ کرکٹ کے کھیل(آئی پی ایل) میں رکھتے(لگاتے )ہیںتو للت مودی لے جائے گا،بینک میں رکھتے ہیں تو نِیرو مودی لے جائے گا اور اگرگھر میں رکھتے ہیں تو نریندر مودی لے جائے گا۔‘‘ یہ فقرہ ٹویٹر پر بھی ہے جسے سینکڑوں افراد نے رِی ٹویٹ بھی کیا ہے اور بات لاکھوں کروڑوں تک پہنچ گئی ہے بلکہ اِس فقرے کی توسیع اشاعت میں کروڑوں لوگوں کا ہاتھ ہے۔اسی ایک جملے سے حالات کی سنگینی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ملک میں لوگ کس قدر مودی جی سے تنگ آ چکے ہیں اور ان کی پالیسی کو کس حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں کہ موقع ملتے ہی فقرے کسنے سے باز نہیں آتے۔ایسے تمام فقرے گویاملک کے عوام کے دل کی ترجمانی کرتے ہیں۔مندرجہ بالا فقرے کا آخری حصہ ظاہر ہے کہ نوٹ بندی سے متعلق ہے جو وزیر اعظم مودی سے منسوب ہے۔وہ اور ان کی پارٹی اسے تاریخی کارنامہ قرار دیتے ہیں لیکن انہوں نے اور نہ ہی ان کی حکومت نے آج تک یہ بتایا کہ نوٹ بندی سے فائدہ کیا حاصل ہوا؟ خیرگزشتہ دنوں قومی بنک آر بی آئی نے یہ بتایا کہ منسوخ شدہ نوٹوں کی گنتی کا کام ابھی بھی جاری ہے۔بھلا بتائیے کہ ڈیڑھ برس ہونے کو آئے نوٹ بندی کے،اور ابھی تک گنتی ہو رہی ہے یعنی آر بی آئی کے پاس یہ کام کرنے کے لئے عملہ نہیں ہے اور ممکن ہے کہ مشینیں بھی کم ہوں۔بہتر ہوتا کہ آر بی آئی کسی نجی ادارے کو یہ کام سونپ دیتا تاکہ مہینے دو مہینے میں کام مکمل ہو جاتالیکن آر بی آئی کی ترجیحات میں یہ شاید شامل نہ رہا اور ممکن ہے کہ آقا کے حکم کے مطابق جتنی تاخیر کی جائے اتنی بہتر حکومت کے لئے بھی اور آربی آئی کے لئے بھی۔جب آر بی آئی پوری طرح اِس کے لئے تیا ر نہیں تھا تو نوٹ بندی کے نفاذ پر عمل کرنے کی ضرورت کیا تھی؟ دنیا بھر میں جگ ہنسائی ہو گئی کہ گورنر نے ایک کٹھ پتلی کا کام کیا اور ملک کے مفاد کے لئے نہیں بلکہ ایک خاص پارٹی کو فائدہ پہنچانے کے لئے نوٹ بندی پر عمل کیااور آناًفاناً اور بغیر کسی باقاعدہ تیاری کے کیا۔
خیر ،مہینوں پہلے اخباروں میں یہ پڑھنے کو ملا کہ منسوخ شدہ نوٹوں کا تقریباً ۹۹؍فیصد بنکوں میں واپس آگیاہے۔اس کے بعد دیکھا گیا کہ جمع کرنے کی مدت ختم ہونے کے بعد بھی کثرت سے پرانے نوٹ کروڑوں روپے کی تعداد میں جگہ جگہ پائے گئے بلکہ ایجنسیوں نے انہیں ضبط بھی کیا۔اس کے علاوہ نیپال اور بھوٹان کا تو کبھی کسی نے کہیں تذکرہ تک نہیں کیا کہ ان ملکوں میں جو ہندوستانی روپے تھے وہ کتنے تھے اور ان کا کیا بنا؟ہندوستانی حکومت نے کس معاہدے کے تحت انہیں واپس لیا اور کب لیایا واپس لیا ہی نہیں؟ واضح ہو کہ دونوں ملکوں میں ہندوستانی روپے اسی طرح قبول کئے جاتے ہیں جس طرح ہندوستان کی تمام ریاستوں میں قبول کئے جاتے ہیں بلکہ ہندوستانی روپیوں کی وہاں زیادہ اہمیت ہے کیونکہ اس کی قیمت زیادہ ہے۔اُن کے لئے یہ ڈالر سے کم نہیں ۔ایسے میں ظاہر ہے کہ کالے دھن کی صورت میں بھی وہاں ہندوستانی روپے ضرور ہوں گے اور وہاں کے شہریوں نے اسے تبدیل کرنے کی کوشش بھی کی ہوگی لیکن اِس پوائنٹ پر بھی حکومت اور آر بی آئی دونوں خاموش ہیں۔کہا تو یہ بھی جاتاہے کہ اِن تمام روپیوں کو ملادینے کے بعدمنسوخ شدہ نوٹوں سے زیادہ کی تعداد ہو جاتی ہے!شاید اسی لئے آر بی آئی ابھی تک نوٹوں کے گننے کا ڈرامہ رچا رہا ہو۔
مودی حکومت میںکچھ بھی ہو سکتا ہے۔فرض کیجئے کہ سسٹم میں زیادہ منسوخ شدہ نوٹ آگئے تو کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ نئے نوٹ بھی زیادہ چھاپ دئے جائیں؟کسے پتہ چلے گا اور کون پوچھنے والا ہے؟ اگر کوئی پوچھ بیٹھے تو ملک کی سا لمیت کا رونا رویا جائے گا اور ایسی اداکاری کی جائے گی کہ سامنے والا پانی پانی ہو جائے گا ، بلکہ اسی سے اُلٹا سوال داغاجائے گا ، اُسے تو دیش دروہ تک کہہ دیا جائے گا۔جس طرح سے ۲۰۰۰؍کے نئے نوٹ ،نوٹ بندی کے بعد ہی بڑی تعداد میں ملنا شروع ہو گئے تھے، اس سے تو یہ بھی شبہ ہوتا ہے کہ کہیں قاعدے سے ہٹ کر تو روپے نہیں پہنچائے گئے اور چھاپے گئے ؟اِن سب کا پتہ اُس وقت چلے گا جب مودی جی اقتدار سے بے دخل ہوں گے اور ان کے ہٹتے ہی اُن کے ’’کارنامے‘‘ سامنے آئیں گے۔کانگریس نے کچھ غلط نہیں کہا تھا کہ نوٹ بندی اِس صدی کا سب سے بڑا گھوٹالا ہے جس میں بنک بھی ملوث ہیں۔بنکوں کا کچا چٹھا بھی سامنے آئے گا اور ممکن ہے کہ بڑے بڑے لوگ اس میں پکڑے جائیں۔یوپی کے الیکشن سے پہلے نوٹ بندی کرنے کا فائدہ مودی جی کو مل گیا تھا اور بی جے پی نے بھاری اکثریت سے وہاں حکومت بنا لی کیونکہ نوٹ بندی کے بعد دوسری پارٹیوں کے روپے ردّی ہوگئے تھے، جب کہ بی جے پی کے پاس نئے نوٹوں کی کمی نہیں تھی۔اس طرح مودی اوربی جے پی کا مقصد پورا ہو گیا تھا۔اس کے بعد جلد ہی ملک میںجتنے بلدیاتی انتخابات ہوئے، تقریباً سب میں بی جے پی ہی فاتح رہی ۔ان تمام مقامات پر اپوزیشن نے یہی الزام عائد کیا کہ بی جے پی کے پاس موجود نئے نوٹ کام آئے ۔مد مقابل کو اس نے لولا لنگڑا کر دیاتھا اور یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ ہندوستان میں کوئی بھی الیکشن روپیوں کے بغیر نہیں جیتا جا سکتا۔اب جب کہ ڈیڑھ برس ہوگئے ہیں اورحزب اختلاف کے سیاست دان نوٹ بندی کی مار سے باہر آ چکے ہیں تو بی جے پی کی دال گلتی نظر نہیں آرہی ہے ۔اِس سے یہ ثابت ہوا کہ ملک کی خاطر نوٹ بندی نہیں کی گئی تھی بلکہ اپنی پارٹی اور خاص طور پر اپنے لئے مودی جی نے یہ بھیانک قدم اُٹھایا تھا۔
دراصل یہاں بات چلی تھی سوشل میڈیا کے ایک فقرے کی پوسٹنگ سے جس میں ایک نیرو مودی کا بھی ذکر آیا ہے۔ذکر تو ایک اور مودی کا بھی آیا ہے لیکن دنیا اسے جانتی ہے جو کرکٹ کی دنیا کا مشہور و معروف نام ہے اور جسے للت مودی کہتے ہیں۔ یہ ہزاروں کروڑ کا چونا لگا کر حکومت کی ناک کے نیچے سے بھاگ گیا ہے اور برطانیہ میںببانگ دہل عیش و عشرت کی زندگی گزار رہا ہے۔یہ جو نئے مودی ابھی ابھی ابھر کر سامنے آئے ہیں، وہ بہتوں کے لئے نئے ہیں۔جو لوگ ہیرے جواہرات سے واسطہ رکھتے ہیں یا جو فیشن کے دلدادہ ہیں، وہیں اس نئے مودی کو جانتے ہوں گے، وگرنہ بیشتر لوگ نہیں جانتے ۔اِن پر الزام نہیں بلکہ یہ فردجرم عائدکی گئی ہے کہ فرضی کاغذات بنوا کر اِنہوں نے پنجاب نیشنل بینک کے تقریباً ۱۱؍ہزار ۴؍سو کروڑ روپے کا غبن کیا ہے۔یہ وجے مالیا کی طرح کوئی بنک سے لیا گیا سودی قرضہ نہیں ہے بلکہ فراڈ ہے ، کھلافراڈجو کبھی ہرشد مہتا اور کیتن پاریکھ نے اور ابھی حال میں جے شاہ نے کیا ہے اور سرکاری بنکوں کو ہزاروں کروڑ روپوں کا چونا لگایا تھا۔نیرو مودی نے بھی دن کی روشنی میں چونا لگایا ہے۔کانگریس اسے ’’چھوٹا مودی ‘‘کہہ رہی ہے کیونکہ داؤس(سوئزرلینڈ) میں گزشتہ مہینے ہوئے’ورلڈ اکنامک فورم ‘میں ایک گروپ فوٹو میں نریندر مودی کے ساتھ یہ شریمان نیرو مودی بھی موجود ہیں اور یہ قطعی غیر ممکن ہے کہ بڑے مودی ،نیرو مودی کو نہیں جانتے ہوں۔
اگرچہ بی جے پی کے ترجمان اور وزیر قانون صاف صفائی میں لگے ہوئے ہیں لیکن میڈیا تھوڑی بہت ہی خیریت لے رہا ہے۔حالانکہ اب بھی میڈیا کا لہجہ نرم ہی ہے کیونکہ بوفورس جیسے گڑے مردے کو اکھاڑتے رہنا تو اس کا شیوہ ہے لیکن اتنے بڑے بنکنگ گھوٹالے کو اس طرح پیش نہیں کر رہا ہے جس طرح سے پیش کرنا چاہئے۔رافیل سودے کی بھی مثال دی جا سکتی ہے کہ کس طرح بی جے پی نے اسے ملک کی سا لمیت سے جوڑ دیا ہے جب کہ کانگریس اسے ۵۳؍ہزار کروڑ روپے کا گھوٹالا بتا رہی ہے۔بی جے پی اب بھی یہی موقف اختیار کئے ہوئے ہے کہ نیرو گاندھی والا معاملہ یو پی اے یعنی کانگریس کے دورِ اقتدار میں ۲۰۱۱ء سے شروع ہوا ہے ، جب کہ بی جے پی نے اِس گھوٹالے کو طشت از بام کیا ہے۔اس لئے عام آدمی پارٹی نے یہ سوال اُٹھایا ہے کہ مذکورہ بنک یہ الگ الگ بتائے کہ مئی ۲۰۱۴ ء تک بنک نے کتنے روپے نیرو مودی کو دئے اور مئی ۲۰۱۴ ء کے بعد سے اب تک کتنے روپے جاری کئے گئے،دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ پتہ نہیں کیوں بی جے پی کے لوگ مودی کے دفاع میں لگ گئے ہیں۔اب آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ کس طرح ملک چھوڑ کر بھاگ جانے کے بعد یہ حکومت اِنٹرنیشنل لُک آؤٹ نوٹس جاری کرتی ہے ۔ایسا دو کیسوں میں پہلے بھی ہو چکا ہے۔اِس سے شبہ ہوتا ہے کہ کہیں ملی بھگت تو نہیں ہے؟ کرپشن کے روک تھام پر بات کرنا الگ ہے اور کرپشن روکنا الگ! ایسا لگتا ہے کہ مودی جی کے زوال کا سبب کرپشن ہی بنے گا۔ایک بات یہ بھی قابل غور ہے کہ مالیا کو چھوڑ کر سب کاتعلق گجرات سے ہے۔اب یہ طے عوام کو کرنا ہے کہ کیا ان لوگوں نے اپنی ’’اہلیت‘ ‘ سے ملک کو چونا لگایا ہے یا ان کی سیاسی سرپرستی بھی ہوئی ہے۔
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو ، نئی ممبئی کے مدیر ہیں؛رابطہ9833999883