سرینگر//مرکزی سرکار کی جانب سے 00 5 اور 1000 روپے کے نوٹوں کی قانونی حیثیت ختم کرنے کے فیصلے کے بعددیگر ریاستوں سمیت وادی بھر میں بھی افرتفری مچ گئی ہے ۔حکومتی فیصلے کے بعد جہاں تجارت سے وابستہ افراد ، ٹرانسپورٹر ، ہوٹل مالکان اورعام شہری تذبذب میں نظر آئے وہیںخواتین خانہ کیلئے بھی یہ فیصلہ پریشان کن ثابت ہوا،جن کے پاس امور خانہ داری کے دوران الگ سے بچائے ہوئے نوٹوں کو منظر عام پر لانا پڑا ۔بدھ کودن بھرصرف 100 روپے کے نوٹوں کا بول بالا رہا۔ صورتحال کا تشویش نا ک پہلو یہ رہا کہ بنک اور اے ٹی بند رہنے کی وجہ سے غر یبوں سے لیکر امیر وں تک صرف جیب خرچے پر گذ ارا کرنا پڑا۔جبکہ منگل اور بدھ کی درمیانی رات کو لوگوں کو شہر کے کئی ایک اے ٹی ایموں پر دیکھا گیا جو پیسے جمع کرنے میں مصروف تھے ۔ ، حریت کانفرنس کے مشترکہ پروگرام کے تحت ہڑتال میں ڈھیل کے دوران جب دکانداروں ، بیکری والوں ،سوناروں کے علاوہ دیگر کاروباری اداروں سے وابستہ افراد نے دکانیں کھولیں تو اس دوران کئی تاجروںنے 500اور 1000کے نوٹ لینے سے انکار کر دیا ہے جس سے لوگ بے حد پریشان ہو کر رہ گئے جبکہ کئی دوردراز علاقوں سے یہ شکایات بھی موصول ہوئی ہیں کہ وہاں پر راشن گھاٹوں پر بھی پانچ سو اور ہزار کے نوٹ نہیں لئے گئے ۔لوگ کہتے ہیں کہ اُن کی جیبوں میں پڑے 500اور 1000 روپے کے نوٹ اب کاغذ کے ٹکڑے میں بدل گے ہیں ۔بدھ کی صبح جب وادی کے لوگ گھروں سے دودھ اور سبزی وغیرہ لانے نکلے تو انہیں دکانداروں نے یہ نوٹ نہ لے کر مایوس کردیا۔شادیوں کیلئے سامان خریدنے والے بھی بے حد پریشان دکھائی دئے ۔بمنہ کے ایک شہری نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ بدھ کی صبح وہ گھر کیلئے سامان لینا تھا ایک دکاندار سے جب سامان لیا تو اس نے پانچ سو اور ہزار روپے کا نوٹ لینے سے انکار کیا اور پھر لیا ہوا سامان واپس کیاگیا ۔شہری نے کہا کہ اُسے مجبوراًدوسرے دکاندار کے پاس سامان لینے کیلئے جانا پڑا ۔مذکورہ شہری کا کہنا تھا کہ صبح دودھ اور روٹی لانے کیلئے گھر والوں سے چندہ جمع کیا ۔’’ صدر اسپتال جانے والے جنوبی کشمیر کے ایک شہری نے بتایا جو نہی اس نے سرینگر پہنچ کر بطور کرایہ پانچ سو کا نوٹ ڈرائیور کے ہاتھوں تھموا دیا تو اس نے یہ نوٹ قبول کرنے سے انکار کر دیا جس کے بعد میں نے سو روپے کے نوٹ سے کام چلایا ہے ‘‘۔ اس دوران اس غیر یقینی صو رتحال کی وجہ سے بنک اور اے ٹی ایم شا خ بھی ملک میں بند رہنے سے امیر بھی کنگال نظر آ ئے اور جتنا ہی جیبوں میں تھا اسی پر کا م چلا یا گیا۔